اسلام آباد :اسلام آباد میں واقع بحریہ یونیورسٹی میں ایک 23 سالہ طالبہ حلیمہ امین کی ہلاکت کے بعد طلبہ نے یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔بحریہ یونیورسٹی کے باہر احتجاج کرنے والے طلبہ نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے ریکٹر کا استعٰفی لیے بغیر احتجاج نہیں روکیں گے۔احتجاج کرنے والے طلبہ نے بحریہ یونیورسٹی کے ریکٹر (پرنسپل) سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ کا رویہ پریشان کن ہے اور اس ‘مجرمانہ غفلت’ کی تحقیقات ہونی چاہیے۔تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبہ کی ہلاکت سے متعلق تمام دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق بحریہ یونیورسٹی میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ حلیمہ امین جمعرات کو مبینہ طور پر کیمپس کی ایک زیرِتعمیر عمارت کی چوتھی منزل سے گر کر ہلاک ہوئیں۔اس واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ جمعے کو نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد حلیمہ امین کو سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔
مرغزار پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں دی جانے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ طالبہ ’زیرِ تعمیر عمارت میں سیلفی بناتے ہوئے گر کر ہلاک ہوئیں‘۔تاہم حلیمہ کے ساتھی طلبہ و طالبات اس موقف کی تردید کرتے ہیں اور ان کے ایک ہم جماعت علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کہا یہ جا رہا ہے کہ حلیمہ سیلفی لے رہی تھیں جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔ یہ سچ نہیں ہے۔ وہ وہاں سیلفی لینے نہیں، اپنی کلاس شروع ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔’
ان کا دعویٰ ہے کہ ‘حلیمہ جس کلاس سے باہر آ رہی تھیں وہاں دروازے اور زمین کے بیچ موجود خلا کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جسے انتظامیہ نے بوریاں بچھا کر ڈھانپ دیا تھا۔ نتیجتاً حلیمہ کا پیر اس پر لگا اور وہ اپنا توازن کھو کر نیچے گِر گئیں۔’یونیورسٹی کے طلبا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس واقعے کے بعد بنائی جانے والی ویڈیوز شیئر کی ہیں اور الزام لگایا ہے کہ ‘حلیمہ کے ہسپتال جانے کے فوراً بعد اس جگہ پر صفائی شروع کر دی گئی اور اس سے پہلے مذکورہ مقام پر طلبہ و طالبات کو متنبہ کرنے کے لیے کوئی بورڈ یا پیغام موجود نہیں تھا۔’
بحریہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر ہی اپنا ایک بیان پوسٹ کیا ہے جس میں طالبہ کی ہلاکت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’حلیمہ ایک قابل طالبہ تھیں اور ان کی خودکشی اور اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والی تمام منفی باتیں بے بنیاد ہیں۔‘یونیورسٹی انتظامیہ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے کے تمام پہلؤوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے جسے جلد ہی تمام متعلقہ افراد کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
انتظامیہ کے مطابق وہ زیرِ تعمیر عمارت یونیورسٹی میں بڑھتے ہوئے طلبہ کی تعداد کو سنبھالنے کے لیے بنائی جارہی ہے۔ اس وقت اس چار منزلہ عمارت کی دو منزلوں پر کلاسیں دی جاتی ہیں جبکہ دیگر دو منزلوں پر اب بھی کام جاری ہے۔مرغزار پولیس کے اہلکار کے مطابق انھیں یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے یہ کہہ کر جائے وقوع پر جانے سے روک دیا گیا کہ انتظامیہ اس معاملے کی تفتیش کر کے پولیس کو خود رپورٹ بھیجے گی۔
اس واقعے کے بعد حلیمہ امین کو زخمی حالت میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لے جایا گیا تھا۔ہسپتال کے عملے کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ’یونیورسٹی کے طلبہ ایک لڑکی کو سٹریچر پر لے کر آئے اور ان کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی موجود تھا‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’حلیمہ کے ہاتھ اور پاؤں پر کئی جگہ فریکچر تھے جبکہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ حلیمہ کی موت دوپہر ساڑھے چار بجے ہوئی جس کے بعد جو لوگ ان کو لے کر آئے تھے، وہی ان کی لاش لے کر ہسپتال سے چلے گئے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس معاملے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں یونیورسٹی انتظامیہ، ہسپتال کے عملے اور پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس عمارت میں طلبہ کو تنبیہ کرنے کے لیے بورڈ کیوں نہیں لگائے گئے؟ اس سے زیادہ پریشان کن رویہ یونیورسٹی انتظامیہ کا اس واقعے کے بعد دیکھنے میں آرہا ہے۔’انھوں نے کہا کہ جب حلیمہ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا تو پھر وہاں سے بغیر ان کے والدین کو مطلع کیے دوسری جگہ، یعنی سی ایم ایچ، کیوں منتقل کیا گیا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )