لندن :گذشتہ پانچ برس سے بھی کم عرصے میں ہونے والے تیسرے برطانوی عام انتخابات میں موجودہ وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو حکومت سازی کے لیے درکار اکثریت مل گئی ہے۔برطانیہ میں حکومت سازی کے لیے دارالعوام میں 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور عام انتخابات کے اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق ٹوری پارٹی نے کم از کم 355 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
بی بی سی کی پیشنگوئی کے مطابق کنزرویٹو پارٹی ایوان میں 364 نشستیں حاصل کر سکتی ہے جبکہ لیبر پارٹی کو 203، سکاٹش نیشنل پارٹی کو 48، لبرل ڈیموکریٹس کو 12، پلیڈ کیمرو کو چار جبکہ گرین اور بریگزٹ پارٹیوں کو ایک ایک نشست ملے گی۔
ان نتائج کی صورت میں کنزرویٹو پارٹی کو ایوان میں 78 ارکان کی اکثریت مل جائے گی جو کہ 1987 میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے بعد سب سے بڑی اکثریت ہوگی۔ اپنی جماعت کی جیت پر وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ان نتائج سے انھیں ’بریگزٹ کے لیے مینڈیٹ مل گیا ہے۔‘ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ اگلے ماہ تک برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے۔خیال رہے کہ بورس جانسن جولائی میں اس وقت ملک کے وزیراعظم بنے تھے جب کنزرویٹو پارٹی نے تھریسا مے کی جگہ انھیں اپنا نیا قائد چُنا تھا۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی کی کارکردگی اس الیکشن میں مایوس کن رہی ہے اور یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جماعت کی الیکشن میں بدترین کارکردگی ہے۔ لیبر پارٹی کو اب تک 202 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ گذشتہ الیکشن میں اس جماعت نے 263 نشستیں جیتی تھیں۔ لیبر کو شمالی انگلستان، مڈلینڈز اور ویلز کے ان علاقوں میں شکست ہوئی ہے جہاں 2016 میں بریگزٹ منصوبے کی واضح حمایت سامنے آئی تھی۔
ایک بیان میں لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ ’یہ رات لیبر پارٹی کے لیے مایوس کن رہی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ وہ غور و فکر کے اس عرصے کے دوران اپنی جماعت کا ساتھ دیں گے لیکن اگلے انتخابات میں لیبر پارٹی کی سربراہی نہیں کریں گے۔2017 کے مقابلے میں ان انتخابات میں لیبر پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں آٹھ فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ کنزرویٹو پارٹی کو ایک فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی کارکردگی بھی بہتر رہی ہے۔
(بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ