اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین کی نااہلی سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ یہ توقع نہ رکھی جائے کہ ایک دو روز میں ان درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا جائے گا اور عدالتِ عظمیٰ تمام مواد کا جائزہ لے کر ان درخواستوں پر فیصلہ سنائے گی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ یہ درخواستیں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے دائر کی تھیں۔جواب الجواب میں حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران 18 مرتبہ اپنا موقف بتدیل کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی سابق اہلیہ جمائما خان کی پاکستان میں تو جائیداد کو ظاہر کیا لیکن پاکستان سے باہر جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ بنی گالہ کی اراضی کا معاملہ میاں بیوی کے درمیان لین دین قرار نہیں دیا جا سکتا۔اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ لین دین اور بینیفیشل اونر کے بارے میں واضح فرق ہے۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کے فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں مریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفیشل اونر ہے اس کے بعد کسی کا معاملہ یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ غلطی کی وجہ سے کاغدات نامزدگی میں اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے۔چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سنہ 2002 کا معاملہ 15 سال کے بعد دوبارہ دیکھا جاسکتا ہے جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ جعلی اسناد کے معاملے میں عدالت نے ان ارکان پارلیمنٹ کو بھی نااہل قرار دیا جو کامیاب ہو کر آئے تھے۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے اپنا موقف کبھی تبدیل نہیں کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ آف شور کمپنی نیازی سروسز کو اس لیے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ عمران خان اس کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں تھے۔بینچ نے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جہاں کاغذات نامزدگی میں لندن فلیٹس کا ذکر کیا گیا تھا وہیں اس آف شور کمپنی کے بارے میں بھی بتانا چاہیے تھا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں اسی تین رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ لندن میں واقع جائیداد کے بارے میں پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور جہانگیر ترین کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں تضاد پایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین ٹرسٹ کے مالک نہیں ہیں جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ میں یہ واضح طور لکھا ہے کہ جہانگیر ترین اس کے تاحیات بینیفیشل اونر ہیں۔عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ برطانیہ میں واقع ہائیڈ ہاوس آف شور کمپنی شائنی ویو کی ملکیت ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شائنی ویو نے یہ زمین کس کے کہنے پر خریدی اور اس کی رجٹسری کس کے نام پر ہے جس پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ اس کی رجسٹری آف شور کمپنی شائنی ویو کے نام ہے۔بینچ کے سربراہ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنھیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جہانگیر ترین نے اس زمین کی خریداری کے لیے رقم ٹرسٹ کو بھیجی تھی یا پھر آف شور کمپنی کو جس کے بارے میں وہ جواب نہ دے سکے۔عدالت کے استفسار پر سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنی کا اکاؤنٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام ہی چلتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ادائیگیاں ٹرسٹ کو کرنے کی بجائے آف شور کمپنی کو کی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں جہانگیر ترین اور ان کی اہلیہ ہی بینیفیشل اونر ہیں جبکہ تحریری جواب میں اُن کے بچوں کو بینیفیشل اونر ظاہر کیا گیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس آف شور کمپنی اور بینیفیشل اونر کے بارے میں کاغذات نامزدگی میں کچھ نہیں بتایا گیا۔عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ سپریم کورٹ نے فریقین کو حکم دیا ہے کہ وہ تحریری مواد بھی عدالت میں پیش کریں تا کہ تمام حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کیا جا سکے
فیس بک کمینٹ