تہران :ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب نے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد کو خبردار کیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے پر مظاہرین سے ’سختی سے نمٹا‘ جائے گا۔ایران میں تین روز قبل پست معیارِ زندگی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے لیکن پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب ان مظاہروں میں سیاسی نعرے لگائے جا رہے ہیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ایران میں عوام کے گرتے ہوئے معیارِ زندگی اور کرپشن کے خلاف ہونے والے یہ احتجاج سنہ 2009 میں اصلاحات کے حق میں ہونے والی ریلی کے بعد سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے۔اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں اب تک دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی احتجاج کی ویڈیو میں آگ لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔
ایران کے مختلف شہروں میں ہونے والے بعض مظاہروں میں شریک افراد نے ملک کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ایران میں پاسدارانِ انقلاب کا شمار بااثر افواج میں ہوتا ہے اور ملک میں اسلامی نظام کے تحفظ کے لیے سپریم رہنما کے ساتھ اُن کے گہرے روابط ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے جنرل اسمائیل کوہساری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’عوام اگر قیمتیں زیادہ ہونے پر سڑکوں پر نکلے ہیں تو انھیں پھر اس طرح کے نعرے نہیں لگانے چاہیے اور نہ ہی سرکاری املاک اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کرنا چاہیے۔
انھوں نے خبردار کیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام جاری رہنے پر مظاہرین کے خلاف کریک ڈؤان کیا جائے گا۔مظاہرین نے ملک کے وزیر داخلہ عبدالرحمن رحمانی فضلی کی جانب سے ’غیر قانونی اجتماعات میں شرکت نہ کرنے کی‘ تنبیہ کو بھی بظاہر نظر انداز کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں مظاہرین کو پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق سرکاری عمارتوں پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔بی بی سی فارسی کی نامہ نگار کسرا ناجی کا کہنا ہے کہ تمام شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں ایک چیز مشترکہ ہے کہ وہ سب ملک میں ’مولویوں کے نظام‘ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
مظاہرین ایران کی بیرون ملک مداخلت پر بھی ناراض ہیں اور اس دوران مشہد میں ’نہ لبنان، نہ غزہ، میری زندگی ایران کے لیے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔اس حوالے سے مظاہرین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی تمام تر توجہ ملکی مسائل کی بجائے خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔ایران میں حالیہ مظاہروں کا آغاز مشہد سے ہوا جہاں عوام خوراک کی قیمیت میں اضافے اور پست معیارِ زندگی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے بعد یہ پورے ملک میں پھیل گئے۔ایرانی حکام نے ان مظاہروں کا الزام انقلاب کے مخالفین اور غیر ملکی ایجنٹوں پر لگایا ہے۔مظاہروں کا آغاز بدعنوانی اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے ہوا تھا تاہم اب یہ احتجاج سیاسی نوعیت اختیار کر گیا ہے
صدر روحانی ہی نہیں آیت اللہ خامنئی اور موجودہ نظامِ حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی ہےاطلاعات کے مطابق ایسے نعرے بھی لگائے گئے ہیں کہ ’لوگ بھوکے ہیں اور مولوی خدا بنے ہوئے ہیں‘ان مظاہروں میں ایران کی خارجہ پالیسی جیسے کہ لبنان اور غزہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف بھی جذبات کا اظہار کیا گیا ہےحکومت مخالف مظاہروں میں شریک افراد صدر حسن روحانی اور سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران میں جاری مظاہروں کے بارے میں حکومتی ردِعمل پر دنیا بھر کی نظر ہے۔ صدر ٹرمپ کی پریس سیکریٹری سارہ ہکابی نے دعویٰ کیا کہ ایرانی عوام حکومت کی بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں۔
دوسری جانب سینچر کو ملک بھر میں حکومت کی حمایت میں جلوس نکالے گئے۔ خیال رہے کہ ایران میں جمعرات سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے ملک کے متعدد بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں جس کے بعد حکومت کے ہزاروں حامی بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شمال میں راشت اور مغرب میں کرمانشاہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ شیراز، اصفہان اور ہمدان میں مظاہرین کی تعداد کم ہے۔ تہران میں چند افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے2009 میں ہونے والے احتجاج کے بعد سب سے زیادہ شدید احتجاج ہیں اور اس کے ذریعے عوامی بے چینی نظر آ رہی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ