چند ماہ قبل ہفتے کے آخری تین دن سوشل میڈیا سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے ابتدائی ہفتوں میں کافی دِقت محسوس ہوئی۔ بالآخر سکون مل گیا اور اب بہت سنجیدگی سے یہ سوچ رہا ہوں کہ ان دنوں میں Whatsappکو بھی Deactivateکردیا جائے۔
فوری وجہ اس سوچ کی وہ کتاب ہے جو ابھی تک پاکستان میں دُکانوں پر میسر نہیں مگر اس کا PDFایڈیشن Whatsappکے ذریعے میرے کئی جاننے والے اور بہت سارے اجنبی لوگ بھیجے چلے جارہے ہیں۔ جی ہاں وہی کتاب جو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسددرانی نے را کے ایک سابق چیف کے ”ساتھ مل کر“ نہیں لکھی ہے۔ ان دونوں کے درمیان بلکہ استنبول،کھٹمنڈو اور بنکاک میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کو مکالمے کی صورت دے کر ایک صحافی نے نوٹس تیار کئے۔ اس صحافی کی ان ملاقاتوں میں موجودگی اس حقیقت کا عندیہ دیتی ہے کہ مناسب وقفوں کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں میں جاری مکالمے کو بالآخر کتابی صورت دینا تھی اور سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوا ہے۔
لفظ ”منصوبہ“ استعمال کرتے ہوئے مجھے وضاحت کرنا ہے کہ یہ ”سازش“ کا متبادل نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہوئے ممالک کے خفیہ اداروں کے سابق سربراہوں کے مابین ملاقاتوں اور مکالمے کو کتاب کی صورت دینا کاروباری اعتبار سے اپنے تئیں ایک شاندار منصوبہ ہے۔ دونوں حضرات کو ملاقاتوں اور مکالمے کے لئے ریٹائرمنٹ کے دنوں میں مفت سفر کی سہولتیں ملیں۔ کھلے ماحول میں گپ شپ لگانے کی عیاشی نصیب ہوئی۔ دونوں کی مجوزہ کتاب کی اشاعت کے بعد ”مشہوری“ بھی یقینی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی ”مشہوری“ جو کتاب کی رائلٹی میں مناسب حصہ کے ساتھ آئے کسے بری لگتی ہے؟
دل کھول کے ہوئے مکالمے کے ذریعے ازلی دشمن شمار ہوتے ممالک کے خفیہ اداروں کے سربراہان نے فقط اپنی ریٹائرمنٹ کے دنوں میں تھوڑی راحت اور بہت زیادہ ”مشہوری“ پر ہی نگاہ نہ رکھی ہوگی۔ گماں شاید یہ بھی ہوکہ ایسا کرتے ہوئے وہ ”تاریخ بنارہے ہیں“۔ پاکستان اور بھارت کے فیصلہ سازوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ 70برسوں سے اپنائی پالیسیاں اب کام نہیں آئیں گی۔ جنوبی ایشیاءمیں دائمی امن کی خاطر شاید اب کچھ اور کرنا ہوگا۔ ہوا مگر یوں کہ :”خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا“۔
بھارت میں اس کتاب نے یقین مانیے بہت تھرتھلی نہیں مچائی ہے۔حالانکہ اس کی تقریب رونمائی میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی موجود تھے۔ جنرل درانی کو اس تقریب میں شرکت کے لئے ویزا نہیں ملا۔ویزے کا انکار بھارتی ایجنسی کے سابق سربراہ کی ان دنوں اپنی حکومت کے روبرو حیثیت کا تعین بھی کردیتا ہے۔ حالات درانی صاحب کے بھی اپنے ملک میں شاندار نہیں۔ اصغر خان اس دنیا میں نہیں رہے۔ 1990کے انتخابات کے دوران آئی ایس آئی کی جانب سے چند بے نظیر دشمن سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کی تحقیق کا جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا سپریم کورٹ کی مہربانی سے 2018میں پورا ہورہا ہے۔ ایف آئی اے نے جنرل درانی کا بیان اس ضمن میں قلم بند کرلیا ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ صاحب کا بیان بھی ریکارڈ ہوا ہے۔ انہوں نے ساری ذمہ داری درانی صاحب کے سرتھونپ دی ہے۔
ابھی اس قصے کا انجام بھی نہیں ہوا اور جی ایچ کیو کی جانب سے درانی صاحب کو بھارت میں چھپی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے طلب کرلیا گیا ہے۔ یہ طلبی ریٹائرمنٹ کے ایام میں درانی صاحب کے لئے کافی ناخوشگوار ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ بات یاد دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ درانی صاحب کو اپنے کیرئیر کے عروج کے دنوں میں OSDہونا پڑا تھا۔ جنرل وحید کاکڑکو علم ہوا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے چند ایسے وعدے کر بیٹھے ہیں جنہیں نبھانا ان کا مینڈیٹ نہیں تھا۔
آئی ایس آئی جیسے رُعب دار ادارے کی سربراہی سے آرمی چیف کی خفگی کے نتیجے میں یکایک OSDبن جانا ایک سرونگ لیفٹیننٹ جنرل کے لئے بہت بڑا دھچکا ہوتا ہے۔ درانی صاحب اسے 1993میں برداشت کرچکے ہیں۔ اس برداشت کی بدولت انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جرمنی میں پاکستان کا سفیر بناکر گویا Compensateکیا تھا۔ سفارت کے عوض البتہ انہیں ایک حلف نامے پر دستخط بھی کرنا پڑے جو رحمن ملک نے محترمہ کے وزیر داخلہ جناب نصیر اللہ بابر کی ہدایت پر تیار کروایا تھا۔ اس میں مبینہ طورپر ان لوگوں کے نام لئے گئے تھے جنہیں ISIنے 1990کے انتخابات میں مدد کے نام پر خطیر رقوم دی تھیں۔
اس حلف نامے پر دستخط کے بعد میری جرمن سفارت خانے کی ایک تقریب میں جنرل درانی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہاں کے وسیع باغ کے ایک تنہا اور تاریک گوشے میں کافی بدتمیزی سے میں ان سے مخاطب ہوا۔ میرا دعویٰ تھا کہ درانی صاحب کی جانب سے نام دینے کے بعد لوگ اب آئی ایس آئی سے ”قومی مفاد میں“رقم لینے سے پہلے سوبار سوچیں گے۔ درانی صاحب مگر ہرگز ناراض نہ ہوئے۔ بہت حوصلے سے میری بکواس سنی۔ انہیں یقین تھا کہ ”قومی مفاد“ میں لوگ آئی ایس آئی سے رقوم لیتے رہیں گے۔ ان کے اعتماد نے الٹا مجھے شرمسار کردیا۔
درانی صاحب مگراس قصے کو بھول بھال چکے ہیں۔ اسلام آباد کی کسی محفل میں مل جائیں۔ لوگ ان سے پوچھیں کہ ”کیا ہورہا ہے“ تو میری جانب اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”یہ بہت خطرناک آدمی ہے۔ اس کے پاس ساری خبریں ہوتی ہیں۔ اس سے پوچھتے ہیں“۔ مجھے توجہ مل جاتی ہے اور طاقت ور لوگوں کی طرف سے تھوڑی دیر کو ملی یہ توجہ مجھے کئی دنوں تک شہر میں اِتراتے ہوئے پھرنے کی راحت دیتی ہے۔ احتیاطاََ یہ بات بھی یاد دلانا ہوگی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد جنرل مشرف نے بھی اسددرانی صاحب کو سفیرلگایا تھا اور وہ بھی سعودی عرب میں اور یہ واقعہ ان دنوں ہوا جب نواز شریف صاحب کو اس ملک میں بطور جلاوطن رہنے کو مجبور کردیا گیا تھا۔
درانی صاحب نے اس کتاب میں جو کچھ بھی کہا ہے پہلی بار نہیں کہا۔ اسامہ بن لادن کے واقعے کے فوری بعد بھی غیر ملکی ٹی وی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں وہ متواتر اس ”شبے“ کا اظہار کرتے رہے کہ جنرل کیانی نے اس کے خلاف آپریشن کی ”منظوری“ دی ہوگی۔ مشہور امریکی صحافی سیمورہرش ان کے اس دعوے کی بھرپور تائید کرتا رہا ہے۔ حریت کانفرنس والی کہانی بھی نئی نہیں۔قضیہ صرف ٹائمنگ کا ہے۔
چند ہی روز قبل پاکستان کے تمام ”محبانِ وطن“ یکسو ہوکر نواز شریف کے درپے ہوگئے تھے کیونکہ انہوں نے ایک اخباری انٹرویو میں ممبئی واقعات کے حوالے سے Shouldاور Allowاستعمال کئے تھے۔ اس کے بعد بھڑکائے شورنے عسکری قیادت کو وزیر اعظم کی جانب سے سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کیا۔ شہباز شریف بہت شرمندہ ہوئے ۔نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے Electables”وطن سے محبت“ کا ثبوت دینے کی خاطر اس جماعت سے الگ ہونا شروع ہوگئے۔
درانی صاحب نے لیکن فقط ایک واقعے کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔ کشمیر،افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی ہی بنائی پچ پر دھڑادھڑچوکے چھکے لگاتے رہے۔ نواز شریف کے استعمال کردہ Shouldاور Allowان چھکوں کے مقابلے میں شرمیلی دلہنوں کا استعمال کردہ ”وہ“ سنائی دے رہا ہے۔ ٹائمنگ غلط ہوگئی۔ کتاب بھارت میں چھپی ہے۔ مکالمہ را کے سابق سربراہ سے ہوا۔ جی ایچ کیو لہذانوٹس لینے پر مجبور ہوا۔ درانی صاحب لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ واقعہ بھی سنبھال لیں گے۔ان کی جگہ کوئی اور جنرل ہوتا تو آئی ایس آئی کے سربراہ سے یکایک OSDبن جانے کے بعد گم نامی کے اندھیرے میں غرق ہوجاتا۔ وہ مگر جرمنی میں سفیرکے طوپر ابھرے اور آخری عہدہ مشرف کے دنوں میں سعودی عرب میں سفیر کی صورت حاصل کیا۔ ماشاءاللہ اس عمر میں بھی کافی Fitہیں۔ میں ذاتی طورپر ان کے لئے آئندہ برسوں میں کسی اور مناسب عہدے کا منتظر ہوں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ