مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر گورنر راج لگا دیا گیا ہے۔ اس کا ’’خیرمقدم‘‘ کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو ٹارزن بننے پر اُکسانے والے کئی تبصرہ نگاروں نے ٹی وی سکرینوں پر اس اُمید کا اظہار کیا کہ برسوں سے جاری تحریکِ آزادی کو اب "Muscular”ذرائع سے کچلا جائے گا۔”Muscular”کی اصطلاح سنتے ہی میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ بہت ہی ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچنے کی کوشش کی کہ 2016کے جون میں برہان وانی کی شہادت کے بعد سے بھارتی قابض افواج نے تحریکِ آزادی کو کس وقت پھول کی چھڑی سے روکنے کی کوشش کی تھی وحشت اور بربریت کے سوا کوئی اور لفظ ذہن میں نہیں آیا۔
سینکڑوں کی تعداد میں ان معصوم بچوں اور گھریلوخواتین کی تصویریں ذہن میں اُبھرنا شروع ہوگئیں جنہیں پرامن مظاہروں سے روکنے کے لئے اسرائیل سے درآمد شدہ ایسی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا جن کے چہرے آنکھوں کو چھوتے ہی بینائی چھین لیتے ہیں۔ ان گولیوں کا استعمال بھی مگر آزادی کی تحریک کو روک نہیں پایا۔ سمجھ نہیں آرہی کہ نہتے شہریوں کے جذبات کا نعروں اور کبھی کبھار پتھروں سے اظہار کرتی تحریک کو کچلنے کے لئے اور کونسے "Muscular”ذرائع درکار ہیں۔
آج سے کئی ماہ قبل اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کرچکا ہوں کہ بھارتی ریاست بتدریج مقبوضہ کشمیر کو غزہ بنانے پر تلی بیٹھی ہے۔ اسرائیل کا نیتن یا ہو اس کا رول ماڈل ہے۔اس ماڈل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی نام نہاد عالمی برادری کی جانب سے مقبوضہ فلسطین یا کشمیر کے بارے میں ذرا سی ہمدردی کا اظہار ہوتا ہے تو قابض افواج چراغ پا ہوجاتی ہیں۔ مزید ڈھٹائی سے ریاستی قوت کو وحشت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نام نہاد عالمی ضمیر کو اس کی اوقات یاد دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ اور انسانیت کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق اور عالمی ضمیر کا سوویت یونین کے انہدام کے بعد ’’ماما‘‘ بنا امریکہ ان دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔ یروشلم کو وہ اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کرچکا ہے۔ امریکی سفارت خانہ بیت المقدس کے پہلو میں منتقل ہوگیا ہے۔
اس فیصلے کے خلاف احتجاج کے لئے نہتے فلسطینی اسرائیل کی ’’حفاظت‘‘ کے لئے بنائی باڑ کے قریب جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں گولیوں کی بوچھاڑ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نام نہاد عالمی برادری اس بربریت سے پریشان نہیں ہوتی۔’’مسلم اُمہ‘‘ بھی خاموش ہے۔ ویسے بھی اس ’’اُمہ‘‘ کے طاقت ور ممالک کو ان دنوں شام اور یمن جیسے ممالک میں اپنے کارندوں کا تحفظ کرنا ہے۔ قطر کو سبق سکھانا ہے۔ ایران کو تھلے لگانا اور بھارت کو دوست بنانا ہے۔ اسرائیل کے رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ بدھ کے روز جب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نگہبانی کی خاطر بنائی کشمیر کے بارے میں رپورٹ آئی تو فوراًََ میرے دل نے ربّ کریم سے رحم کی فریاد کی۔ مجھے کامل یقین تھا اس رپورٹ کی اشاعت سے بھارتی ریاست چراغ پا ہوگی اور مقبوضہ کشمیر کو غزہ بنانے پر ڈٹ جائے گی میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ شجاعت بخاری کی شہادت کی خبر آگئی۔ شجاعت گزشتہ چند برسوں میں کشمیر سے ابھرے چند دیانت دار اور بہت ہی محنتی صحافیوں میں نمایاں ترین تھا۔ نوجوان ہوتے ہوئے بھی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس نے محض حقائق بیان کرنے پر توجہ دی اپنے جذبات کو صحافیانہ معیار پر کبھی حاوی نہ ہونے دیا میری اس سے کئی ملاقاتیں رہیں فون اور ای میل وغیرہ کے ذریعے بھی مسلسل رابطہ رہا۔ میں اس کی محنت ا ور گرم جوشی سے ہمیشہ شدید متاثر رہا۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں رپورٹ کے عیاں ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد شجاعت بخاری کا قتل یہ عندیہ دے رہا تھا کہ بھارتی ریاست Show Downکے ایک اور راؤنڈ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس قتل کے بعد سے گورنر راج کے نفاذ تک جو بھی ہوا محض تفصیلات ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کی بنائی PDPکا ہندو انتہا پسند BJPسے مل کر کٹھ پتلی حکومت بنانا اپنی جگہ ایک غیر منطقی بات تھی۔کائیاں مفتی سعید اگر زندہ ہوتے تو مکارانہ سیاست سے شاید اسے سنبھال لیتے ان کی بیٹی میں اس بندوبست کو چلانے کی صلاحیت نہیں تھی۔ محبوبہ مفتی کا بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی جماعت کی اٹھان جنوبی کشمیر سے ہوئی تھی۔ اس علاقے کا سیاسی،ثقافتی اور جغرافیائی مزاج اور خصوصیات شمالی کشمیر سے ذرا مختلف ہیں۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے قدامت پسندوں کے لئے یہ خطہ ہمیشہ نئی صورتیں ڈھونڈنے کے لئے بہت سازگاررہا۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے کارکنوں کو لیکن ’’مجاہد‘‘ ٹھہراکر بھارتی ریاست نے مسلسل اپنے جبر کا نشانہ بنائے رکھا۔ تجربہ کار سیاسی کارکن منظر سے ہٹ گئے یا ہٹادئیے گئے تو ان کی جگہ برہان وانی جیسے نوجوان نے لے لی۔ انٹرنیٹ ایسے نوجوانوں کا اصل استاد ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروہ بناکر وہ جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ مقامی آبادی ان نوجوان طالب علموں کی اصل سرپرست ہے۔ان نوجوانوں کو حتیٰ کہ شمالی کشمیر میں مقیم حریت پسندرہ نمائوں کی سرپرستی بھی حاصل نہیں ہے۔تحریک آزادی کے کئی رہ نما بلکہ ان نوجوانوں کی شخصیت اور اندازِ جدوجہد سے قطعی نابلدہیں۔ ان نوجوانوں کو مگر اپنا پیغام انٹرنیٹ کے ذریعے بہت ہی مؤثرانداز میں پھیلانا آتا ہے۔ بھارتی حکومت کی شدید خواہش ہوگی کہ گورنر راج کے نفاذ کے بعد اپنی فوج کو ان نوجوانوں کی تلاش میں جھونک دے بڑی وحشت و بربریت کے ساتھ گھروں پر چھاپے مارے جائیں گے۔ ماورائے عدالت قتل ہوں گے۔ نوجوانوں کو Missingبنایا جائے گا یہ سب کرتے ہوئے بھی انتہائی مہارت کے ساتھ مگر بھارتی ریاست اور میڈیا یکسوہوکر نام نہاد عالمی برادری کو یہ بیانیہ بیچنے کی کوشش کرے گا کہ جنوبی کشمیر کے شوپیاں جیسے قصبے ابوالبکر بغدادی جیسے افراد کے قبضے میں جا چکے ہیں۔ جنوبی کشمیر کو جنوبی ایشیاء میں داعش کا مرکز بناکر اس خطے میں ISISکی متعارف کردہ ’’خلافت‘‘ کو پھیلانے اور مستحکم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نام نہاد عالمی برادری ہی نہیں بلکہ پیوٹن کا روس بھی داعش کو ان دنوں عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جنوبی کشمیر میں مقامی سطح پر وجوہات کی بناء پر نوجوانوں کے دلوں میں اُبلتے جذبات کو بھارت ’’داعش‘‘ کے کھاتے میں ڈال کر ریاستی قوت کے بہیمانہ استعمال کا جواز حاصل کرسکتا ہے۔ اس کی حکمت عملی کو غور سے سمجھ کر جوابی بیانیہ ابھی سے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ