قومی اسمبلی کا اپوزیشن کے مطالبے پر بلایا اجلاس بدھ کے گیارہ بجے شروع ہونا ہے۔ سپیکر اسد قیصر نے اس اجلاس میں قائد حزب اختلاف کو پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے اور یہ کالم لکھنے سے قبل انہیں احتساب حوالات سے اسلام آباد پہنچادیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی آمد کے بعد جو ہوگا اس کا احوال اس کالم میں اگرچہ نہیں لکھ پاؤں گا۔ ڈیڈ لائن کی مجبوری ۔
پارلیمان کے بنائے ضوابط پر حکومت کو اس امر پر پابند کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی الزام میں گرفتار ہوئے رکن پارلیمان کی اس کے اجلاسوں میں شرکت ممکن بنائے۔ یہ حق دنیا بھر کی تگڑی مانی جمہوریتوں کے اراکین پارلیمان کو میسر ہے۔مجھے اس کا اندازہ اگرچہ 1985میں ہوا۔
اس سال جنرل ضیاء نے 8برس تک اس ملک پر مارشل لاء کے جابرانہ ضوابط کے تحت بادشاہی کرنے کے بعد غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پارلیمان کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس انتخاب میں لاہور کی قومی اسمبلی کی ایک نشست سے روحیل اصغر شیخ صاحب بھی منتخب ہوئے۔ جوانی میں موصوف بہت Dashingہوا کرتے تھے۔ خاندانی دشمنی کی بناء پر قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ہوئے۔ نچلی عدالت نے انہیں قصور وار ٹھہراکر جیل میں ڈال دیا۔ جیل سے وہ پائوں میں بیڑیاں پہنے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے قومی اسمبلی لائے گئے۔ میں ان کی اس انداز میں آمد سے بہت حیران ہوا تو زیرحراست رکن پارلیمان کے حقوق کے بارے میں علم ہوا۔ دہری اور خوش گوار حیرت یہ جان کر ہوئی کہ جنرل ضیاء جیسا آمر بھی اس روایت کااحترام کرنے پر مجبور ہوا۔
اس واقعے کو ذہن میںرکھتے ہوئے بہت حیرانی البتہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ہوئی جو 1993سے 1996کے درمیانی عرصے پر محیط رہا۔ اس دور کی ابتداء میں آج کے دبنگ وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین کے تایا چودھری الطاف حسین جو گورنر پنجاب ہوا کرتے تھے،رولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کی ’’خوش کلامی‘‘ سے ناراض ہوگئے۔موصوف کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا اور لال حویلی سے ممکنہ بور کی لائسنس کے بغیر رکھی ایک کلاشنکوف برآمد ہوگئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اس برآمدگی کا تیز تر بنیادوں پر جائزہ لیا اور شیخ صاحب کو قیدیوں کے لئے مخصوص لباس پہنا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔
اپوزیشن میں بیٹھے ان کے ساتھیوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ان کی شرکت کا مطالبہ کیا تو اس وقت کے سپیکر یوسف رضا گیلانی نے انہیں Produceکرنے کا حکم جاری کردیا۔
ڈاکٹر شیر افگن مرحوم ان دنوں محترمہ کے وزیر پارلیمانی امور ہوا کرتے تھے۔ 1985کی اسمبلی سے میرے دوست بن چکے تھے۔ میں پارلیمانی امور پر ان کی گرفت سے ہمیشہ بہت متاثر رہا۔ ایک دیانت دار اور مخلص انسان تھے۔آئین کا ا حترام کرنے کے عادی اور میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی قانونی موشگافیوں کو تلاش کرنے کی لت میں مبتلا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ان کی صلاحیتوں کی بہت قدردان تھیں۔
ڈاکٹر صاحب نے محترمہ کو قائل کردیا کہ شیخ رشید’’ ملزم‘‘ نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ ہیں۔ ایسے شخص کو ’’مہذب پارلیمان‘‘ کے اجلاسوں میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بدقسمتی سے محترمہ کے کئی ساتھی شیرافگن مرحوم کی اس منطق کے شدید حامی بن گئے۔مجھے ان کی منطق ہرگز سمجھ نہیں آئی۔
بہت دُکھ بلکہ اس تناظر میں بھی ہوا کہ کسی گرفتار رکن اسمبلی کو پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت سے محروم کرنے کی رسم سندھ کے وڈیرہ شاہی مزاج کے حامل وزیر اعلیٰ جام صادق علی نے متعارف کروائی تھی۔ وہ آصف علی زرداری کو کراچی کی جیل میں بند ہونے کے سبب ’’میرا قیدی‘‘ تصور کرتے تھے۔ ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب خان نے آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے لئے طلب کرنے کے حکم جاری کئے تو جام صاحب ڈٹ گئے۔ ’’میری جیل‘‘ میں موجود قیدی کو اسلام آباد بھیجنے سے انکار کردیا۔ اس ضمن میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان ان کا بھرپور ساتھ دیتے رہے۔
بالآخر محترمہ بے نظیر بھٹو اور گوہر ایو ب خان کے درمیان سپیکر کے چیمبرز میں ایک طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا کہ حکومت اور اپوزیشن باہم مل کر گرفتار رکن اسمبلی کو پارلیمان کے اجلاسوں میں پیش کرنے سے متعلق قوانین وضوابط کی زبان کو اس انداز میں ازسرِ نو ترتیب دیں گے کہ جام صاحب جیسے وزرائے اعلیٰ یا کوئی اور اتھارٹی اس ضمن میں لیت ولعل سے کام نہ لے پائے۔
مذکورہ قانون کو تبدیل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے تاریخی اعتبار سے ایک بہت عجیب سمجھوتہ بھی کیا تھا۔ حکومت کو جواباََ یہ حق تفویض کردیا کہ قومی اسمبلی کے اس اجلاس کا ایجنڈابھی وہ طے کرے گی جو اپوزیشن کے مطالبے پر بلایا جائے گا۔ مختصراََ یوں کہہ لیجئے کہ آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لانے کی خاطر اس وقت کی اپوزیشن نے اپنی خواہش پر بلائے پارلیمان کے اجلاس کا ایجنڈا طے کرنے کا فطری حق بھی حکومت وقت کے آگے Surrenderکردیا۔
ایک زیرحراست رکن پارلیمان کے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کے حق سے آگاہ ہونے اور اس حوالے سے آصف علی زرداری کے ساتھ جام صادق کے ہاتھوں ہوئے سلوک اور بالآخر گوہر ایوب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہوئی ملاقات کے نتیجے میں ہوئے واقعات سے ذاتی طورپر آشنا ہونے کے باعث مجھے محترمہ کی دوسری حکومت کا شخ رشید کے بارے میں رویہ بہت آمرانہ لگا۔ میں اپنی تحریروں میں اس کی پرزور مذمت کرتا رہا۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ بالآخر ان دنوں کے سپیکر یوسف رضا گیلانی نے اس ضمن میں سخت مؤقف اپنایا۔ انہوں نے بہت خاموشی سے حکومت وقت کو بتادیا کہ جب تک شیخ رشید کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں لایا جائے گا وہ اس کے اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔
دریں اثناء شیخ صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی امریکہ میں لگائی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی سے خط وکتابت کے ذریعے روابط استوار کرنے کے بعد ’’نیک چال چلن‘‘ کی یقین دہانیاں کراچکے تھے۔ انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لانے کا فیصلہ ہوگیا۔ بعدازاں ان کی ضمانت پر رہائی بھی ہوگئی۔ اپنی رہائی کے بعد انہوں نے سیاسی معاملات پرپُراسرار خاموشی اختیارکرلی۔ ’’اچھے دنوں‘‘ کا سرجھکائے انتظار کرنا شروع ہوگئے۔
مجھے شدید خطرہ لاحق تھا کہ شہباز شریف صاحب کو قومی اسمبلی کے اجلا س میں لانے کے لئے عمران حکومت میں بیٹھے چند ’’ڈاکٹرشیرافگن‘‘ وہی رویہ اختیار کریں گے جو شیخ رشید کے حوالے سے محترمہ کے دوسرے دورحکومت میں اپنایا گیا تھا۔ خبر مجھے یہ بھی ملی ہے کہ موجودہ اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اس ضمن میں حکومت کو واضح الفا ظ میں تعاون بہم نہ پہنچانے کا پیغام دیا تھا۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ ان کا پیغام مؤثر ثابت ہوا۔ ایک مثبت پارلیمانی روایت برقرار رہی۔
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ