صرف صحافت کے ذریعے رزق کمانے کی مجبوری نے کئی معاملات پر خاموش رہنے کو جبلت کی صورت دے رکھی ہے۔ جھوٹ لکھنے سے لیکن ہمیشہ گریز کیا۔ یہ اعتراف کرنے کو لہذا مجبور ہوں کہ بدھ کی شب وزیر اعظم کا قوم سے ہنگامی خطاب سنتے ہوئے ذہن میں ”اسی باعث تو….منع کرتے تھے“ والا شعر گونجتا رہا۔
انتخابی قوانین میں آسانی کے نام پر گزشتہ پارلیمان میں متعارف کروائی ایک ترمیم کے بارے میں برپا ہوا ہنگامہ یاد آگیا۔ خواجہ آصف کے چہرے پر اس وجہ سے سیاہی اچھالی گئی تھی۔ احسن اقبال کو گولی لگی۔ بالآخر راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی سڑک کو 22دنوں کے دھرنے کے بعد کھلوانے کے لئے ریاستِ پاکستان کو گزشتہ حکومت کے وزیر قانون زاہد حامد کی قربانی دینا پڑی۔ فیض آباد چوک پر قابض گروہ سے تحریری معاہدہ کرنا پڑا۔
گزشتہ حکومت اور مسلم لیگ نون کے سیاسی مخالفین ان ہنگاموں کو ہوا دیتے رہے۔ ان کی بدولت ”ووٹ بینک“ کو جو زک پہنچی وہ 25جولائی 2018کے دن تحریک انصاف کو حکومت دلانے میں مدد گار ثابت ہوئی۔ اس حکومت کے مخالفین اگر کوتاہ نظری کا شکار ہوجائیں تو دل ہی دل میں ”اب بھگتو“ کہہ رہے ہوں گے۔
میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی لیکن سیاسی کھیل کے شراکت دار نہیں ہیں۔ ہمیں روزگار کمانے کے لئے اپنے دفاتر اور دُکانوں کو جانا ہے ۔بچوں کا تعلیم حاصل کرنے کے لئے سکول وکالج جانا ضروری ہے۔ مریضوں کو ہسپتال پہنچنا ہے۔ ہم کسی جنگل کے مکین نہیں۔ ہماری ایک ریاست ہے۔ یہ ایک تحریری آئین کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ ہمارے بنیادی حقوق کے تحفظ اور پاسداری کے لئے واضح الفاظ میں قوانین لکھے گئے ہیں۔ ان قوانین کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے ایک انتظامی ڈھانچہ بھی کئی دہائیوں سے کام کررہا ہے۔
اس ڈھانچے سے منتخب حکومت نے کام چلانا ہے۔ عدالتوں نے ان کے Acts of Commission and Omissionپر نگاہ رکھنی ہے۔ اس بندوبست کے ہوتے ہوئے عمران خان پنجابی محاورے والا دروٹ ہی نہیں سکتے تھے ۔”اب نہیں تو کبھی نہیں“ والی صورت درپیش ہے۔اس سے مفر ممکن نہیں۔
عمران خان صاحب کی سیاست کے بارے میں ہزار ہا تحفظات کے باوجود ربّ کریم سے درخواست گزار ہوں کہ انہیں ریاستی رٹ کے اطلاق والے وعدے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری ریاست کے تمام ادارے یکسوئی سے کام لیتے ہوئے اس وعدے کی تکمیل کو یقینی بنائیں۔
آج کا پاکستان سو برس تک برطانوی سامراج کا غلام رہا ہے۔ سرکارِ انگلشیہ کی پولیس بہت ”ڈاہڈی“ ہوا کرتی تھی۔ افسر شاہی کو Steel Frameکہا جاتا تھا۔1947میں منافرت کی آگ بھڑکی تو یہ ڈھانچہ کسی کام نہ آیا۔ اس برس کے فسادات کو ذہن میں لائیں تو ان کے ذریے پھیلی وحشت اور تباہی دل کو دہلادیتی ہے۔ ہم اجتماعی طورپر لیکن اس خوں ریزی کو فراموش کرچکے ہیں۔
میری بدنصیبی کہ افغانستان،لبنان اور عراق میں جاری خانہ جنگیوں کو کئی بار برسرزمین جاکر دیکھا ہے۔ شام کا شہر حلب بہت تاریخی ہے۔ریاستی ڈھانچے کی تباہی نے اس پر جو قیامت مسلط کی اس پر غور کرنے کی ہمیں فرصت نہیں۔یمن میں ہر ایک منٹ بعد کوئی بچہ یا نوجوان کم خوراکی کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہا ہے۔
ان تمام ممالک کا مقدر ہوئی تباہی کااصل سبب وہاں کے ریاستی اداروں کا انہدام ہے۔ بدھ کی صبح سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آنے کے بعد ہمارے دین مبین کی من پسند تشریح کے ذریعے درحقیقت پاکستانی ریاست کے دائمی اداروں کو تباہ کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس کے کمانڈ سٹرکچر کو ملیامیٹ کرنے کی سازش ہورہی ہے۔
مجھے اور آپ کو ان اداروں سے یقینا کئی شکایات ہوں گی۔یہ حقیقت مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ ریاستی ا دارے ہی وہ چھتری مہیا کرسکتے ہیں جس کے ذریعے ہم منافرت کی تپش سے محفوظ رہ سکیں۔ ان اداروں کو اُس یا اِس حکومت والی تقسیم سے بالاتر ہوکر دیکھنا ہوگا۔ اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کو ترجیح دینا ہوگی۔ روز گار کے لئے دُکان یا دفتر جانے کے لئے ہمیں کھلی سڑک درکار ہے۔ بچوں نے سکول جاناہے۔ مریضوں نے ہسپتال پہنچنا ہے۔ اس سب بنیادی ضرورتوں کی فراہمی صرف ریاستی ادارے ہی یقینی بناسکتے ہیں۔ میں اور آپ گروہوں کی صورت جمع ہوکر ”ٹھیکری پہرے “ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ معاشرہ جب ملک کی صورت اختیار کرے تو میرے اور آپ کے حقوق کا پہرہ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسے یہ ذمہ داری نبھانا ہوگی۔
ریاستی اداروں کو اپنا فرض نبھانے میں آسانیاں مہیا کرنے کے لئے ہمیں فی الوقت اس ہنگامے کو فراموش کرنا ہوگا جو انتخابی قوانین میں ایک ترمیم کے بارے میں قطعاََ بے بنیاد الزامات کے ذریعے پھیلایا گیا تھا۔ اُس وقت کا اِس وقت ”حساب برابر“ کرنے کی خواہش بچگانہ نہیں وحشیانہ ہوگی۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ