سنا ہے جب گوتم بدھ محل کے عیش و آرام چھوڑ کر نکل گئے اور بستی بستی نگر نگر اپنے خیالات کی تبلیغ کرنے لگے توان کے ساتھ ان کا وفا دار خدمت گار تھا۔ وہ جب کسی بستی والوں کو اپنی بات سمجھانے کے بعد جانے لگتے تو بستی سے نکلتے ہوئے خدمت گار سے کہا کرتے تھے کہ میں حیران ہوں ،انہیں اپنی سیدھی سادی بات سمجھاتا ہوں لیکن لوگ سمجھتے ہی نہیں۔آج کے رویّوں اورطرز عمل پر غور کریں تو خیال ہوتا ہے، ان ہزاروں برسوں میں سب کچھ بدل گیا، لوگ نہیں بدلے۔ کیا اچھا شعر ہے:
وہ بات ذرا سی جسے کہتے ہیں غمِ دل
سمجھانے میں اک عمر گزر جائے ہے پیارے
ہے تو دل کو دہلانے کی بات لیکن بات سچ ہے۔سائنس دانوں نے کہہ دیا ہے کہ قدرت کے ساتھ کھلواڑ نہ کرو، مزید دس سال کی بات ہے، زمین کی ، اس کی فضا کی اور اس کے ماحول کی حفاظت کرو ورنہ کھانا پینا تو دور کی بات ہے، سانس لینے کے لئے ہوا بھی نہیں ملے گی۔انہوں نے خاص طور پر پٹرول ،ڈیزل اور کوئلے کی نشان دہی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ تین بلائیں زمین کی فضا میں زہر گھول رہی ہیں۔ نیچے زمین پر لوگوں نے پیدل چلنا چھوڑ دیا ہے اور اوپر فضا میں ہوائی جہاز جس کثرت سے اڑائے جارہے ہیں ،اگر یہ ہی حال رہا تو دس سال بعد لوگ صاف ہوا کو ترسیں گے۔سائنس دانوں نے اعداد وشمار کی مدد سے بتایا ہے کہ ماہ مئی سنہ دو ہزار اٹھارہ تک دنیا میں انسانوں کی آبادی سات ارب ساٹھ کروڑ ہوچکی تھی اور ابھی ماہ ستمبر تک سات ارب ستر کروڑ تک جاپہنچی ہے۔ اس کے آگے ہمارے سامنے جو بھیانک ہندسہ دانت نکوسے کھڑا ہے وہ ہے دس ارب انسانوں کا جم غفیر۔ کہتے ہیں کہ دنیا کی استعداد اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ لوگ کھانا نہیں چھوڑ سکتے اور زمین کی پیدا واری صلاحیت کو آزمائش میں ڈالنے سے باز نہیں آسکتے۔ اگر اس بات میں اطمینان محسوس ہو تو یہ بھی سن لیجئے کہ ہماری یہ زمین جانداروں کا بوجھ مزیدپونے دو ارب سال تک سہار سکتی ہے۔
ویسے یہ بات کو مذاق میں اڑانے کا وقت نہیں۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ ہماری دنیامیں حیوانات کی تعداد بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ ان حیوانات میں ہاتھی سے لے کر شہد کی مکھی تک سب ہی شامل ہیں۔چرند کم ہورہے ہیں، پرند تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ جو غول کے غول اڑا کرتے تھے، وہ دکھائی نہیں دیتے۔ جو پرندے لمبی اڑان پر جاتے ہوئے سستانے کے لئے راہ میں اترا کرتے تھے وہ خدا جانے کیا ہوئے۔ چار ٹانگوں پر چلنے والی سب سے بڑی مخلوق ہاتھی ہے جو ہمیشہ افریقہ میں بڑی تعداد میں ہوا کرتا تھا، خبر یہ ہے کہ انہیں مار کر ان کے دانت کاٹ لینے والے شکاری وہا ں ہر روز سات سے دس ہاتھیو ں کی جان لے رہے ہیں۔اسی سلسلے میں شہد کی مکھی کا ذکر ہوا تھا۔ اس کے بارے میں سائنس دانوں کا بیان ڈرانے والا ہے۔ یہ تو سب کو نظر آرہا ہے کہ دنیا میں شہد کی مکھیاں کم ہوتی جارہی ہیں اور شہد کی پیداوار گھٹتی جارہی ہے۔لیکن سائنس دانوں کا کہناہے کہ ہماری زمین پر جس وقت انسان نمودار ہوا تھا ،اسی وقت شہد کی مکھی بھی وارد ہوئی تھی۔ ڈر یہ ہے کہ دونوں جس طرح بیک وقت نمودار ہوئے تھے اسی طرح دونوں کی آبادی کو جھٹکا لگ سکتا ہے مگر دل اس فلسفے کو یوں نہیں مانتا کہ جب سے میڈیکل سائنس نے ترقی کی ہے، لوگوں کی عمریں بڑی ہونے لگی ہیں ۔ اعداد و شمار رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دنیامیں ہر ایک گھنٹے میں پندرہ ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں اور ایک گھنٹے ہی میں چھ ہزار سے کچھ زیادہ لوگ نئے آنے والوں کے لئے جگہ خالی کرتے، یعنی جان سے جاتے ہیں۔جنگلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح وہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں،انہیں دنیا کے پھیپھڑے تصور کرنا چاہئے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ہم اپنا سر چھپانے کے لئے جب تک گھروندے بناتے رہیں گے، عمارتی لکڑی بے دریغ استعمال ہوگی، اس کی طلب بڑھے گی تو آفت پہلے جنگلوں پرآئے گی پھر حضرتِ انسان پر۔ دکھ سارا اس بات کا ہے کہ قدرت نے یا جس نے بھی یہ دنیا اور اس میں بسنے والی مخلوق بنائی اس کا سب سے بڑا کمال تھا کہ اس نے ذرا ذرا سی چیز میں حیرت انگیز تواز ن قائم رکھا۔ اس کی چھوٹی سی مگر دل چسپ مثال یورپ والوں کی ہے جنہیں مینڈک کی ٹانگوں کا سوپ پسند آگیا۔ بس پھر کیا تھا۔ بنگال کے ندی نالوںمیں تو مینڈک کثرت سے پیدا ہوتے ہیں، وہاں لوگوں نے مینڈکوں کا شکار کرکے اور ان کی ٹانگیں کاٹ کر یورپ والوں کی خدمت میں پیش کرنی شروع کردیں ۔ نتیجہ کیا ہوا، پورے علاقے میں مچھر اس شدت سے پیدا ہونے لگے کہ لوگوں کا سونا حرام ہوگیا ایک اور مثال پرانے امریکہ کی ہے جہاں جب انسان کم تھے،جنگلی بھینسوں کی بھرمار تھی۔ ان کے غول کے غول بیابانوں میں دیوانہ وار دوڑتے نظر آتے تھے۔ اتفاق سے ان زمینوں کوآباد کرنے والوں کو جنگلی بھینسوں کی زبان کا سوپ پسند آگیا۔ لوگوں نے بھنیسوں کو مار کر اور ان کی زبانیں کاٹ کر نکالنے کی کارروائی شروع کردی۔کہنے کے مقصد یہ ہے کہ ان تمام جانداروں کا وجود قدرت کے اُس تواز ن کو قائم رکھتا ہے جو اس نے ہمیں وجود میں لاتے ہوئے قائم کیا تھا۔
مجھے تو ان بزرگ کی بات یاد آتی ہے جو سنہ نوّے کے لگ بھگ مجھے ایک سفر کے دوران مانسہرہ کے پہاڑوں میں ملے تھے او ر اپنی دھن میں مگن بیٹھے اپنی زبان میں کچھ گارہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ بابا جی، آپ کی عمر کتنی ہے؟ کہنے لگے، مجھے چھوڑو اور اس زمین کی فکر کرو جو تیزی سے بوڑھی ہوتی جارہی ہے۔
بات کتنی چھوٹی سی تھی، کتنی ذراسی، مگر کتنی گہری ،کتنی سچ۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ