تحریک انصاف کے چند ا ہم لوگوں سے گزشتہ ہفتے اتفاقاََ ہوئی چند ملاقاتوں کے بعد میں یہ سوچنے کو مجبور ہوا ہوں کہ موجودہ حکومت یہ طے کربیٹھی ہے کہ میڈیا اس کے خلاف ہوگیا ہے۔ اپنی آسانی کے لئے یہ بات بھی فرض کرلی گئی ہے کہ گزشتہ حکومت کی جا نب سے دئیے ا شتہا رات کے واجبات کی ادائیگی سے ا نکار یا تاخیرنے معا ملہ بگاڑدیا ہے۔اس تا خیر نے کئی ا داروں کو ڈاﺅن سائزنگ پر مجبور کیا۔حکومت بھی کچھ لچک دکھا نے کو آما دہ نظر نہیں آرہی ہے۔ ان سب عوا مل کے بعد کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومت کی شہرت کو زک پہنچا نے کے امکانات معدوم ہونا چا ہئیں تھے۔ حکومت مگر مطمئن نظر نہیں آرہی۔ وزیر اعظم کے چند بہت ہی پ±رخلوص اور وفادار افر اد اب یہ کوشش کررہے ہیں کہ ان کے قائد کی چند مشہور ا ور لوگوں کی ر ائے بنانے کا ہنر رکھنے وا لوں سے ون آن ون ملاقاتوں کا بندوبست ہو۔شاید ان ملاقاتوں کے نتیجے میں شاعر کی بتائی ”دلوں کی ا لجھنیں“ کم کر نے کی ر اہ نکلے۔
میں نے تحریک انصاف کے دوستوں کی گفتگو سنی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت یاد آگئی۔ ان دنوں بھی حکومتی حلقوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ میڈیا ہا تھ دھوکر ان کے پیچھے پڑگیا ہے۔24/7چینل ابھی متعارف نہیں ہوئے تھے۔ اخبارات میں چھپی خبریں اور کا لم بھی لیکن ضرورت سے زیادہ اذیت دہ تصور کئے جارہے تھے۔ایسے موقعوں پر حکومتوں کو اکثر کسی ایسے ”ما ہر“ کی بے تابی سے ضر ورت محسوس ہوتی ہے جو میڈیا میں رونق لگا نے کا ہنر جا نتا ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے محسوس کیا کہ ان کے پاس ایسا ”ہنرمند“ موجود نہیں۔حسین حقانی کی اس حو الے سے بہت شہرت تھی۔موصوف کو سیکرٹری اطلاعات لگادیا گیا۔عہدہ سنبھالنے کے چند ہی روز بعد موصوف نے میری شکایت اس اخبار کے مالک سے کی جس کے لئے میں ان د نوں کالم لکھ رہا تھا۔میں نے ڈھٹائی سے معاملہ سنبھال لیا۔چند مہینے بعد مگر وہ ”ماہر“ بھی اپنے مشن کے حصول میں ناکام نظر آئے۔انہیں وزارتِ اطلاعات سے ہٹاکر ہا ﺅس بلڈنگ کارپوریشن کا سربر اہ بنادیا گیا۔بعداز اں پا کستان کے سری لنکا میں ہا ئی کمشنر تعینات ہوگئے۔نام لئے بغیر میں ا نتہائی دیانت داری سے ا صرار کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو ا یک نہیں کم از کم تین ایسے افراد کی بھرپور معا ونت میسر ہے جو انگریزی زبان والی Perception Managementکے گرو تصور ہوتے ہیں۔ما رکیٹ میں ان کا بڑا نام ہے۔ان کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے پانچ ما ہ بعد ہی پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بات بظاہر مگر بن نہیں پارہی ہے۔
Perception Managementکی سائنس سے میں قطعی نابلند ہوں۔ساری زندگی صحافت کی نذر کردینے کے بعد مگر یہ جان چکا ہوں کہ ”ا?دمی نے کتے کو کا ٹ لیا “ والی انہونی”خبر“ بناتی ہے۔روزمرہّ ز ندگی کا معمول تصور ہوئی بات کا ذکر لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرپاتا۔حکومتوں کو میڈیا کو بے ا ثر بناناہو تو اپنی ساری توجہ روزمرہّ زندگی کے معمولات کو خوش گوا ر تر بنانے پر صرف کرنا چاہیے۔اس ہفتے سوئی گیس کے ”ناردرن “ صا رفین کو معمول سے کم از کم تین سے چا رگنابل وصول ہوئے ہیں۔لوگ وہ بل دیکھ کر بلبلاا±ٹھے۔میرے گھر کا بل بھی گزشتہ دو سال کی اوسط سے چار گنازیادہ تھا۔ہم صارفین کوز لزلے کی صورت نازل ہوئے اس اضافے کے لئے حکومت کی میڈیا ٹیم نے خلوص اور لگن کے ساتھ تیار نہیں کیا تھا۔وہ بل آئے تو وضا حتیں دینے گیس کے وزیر غلام سرور خان صا حب ایک ٹی وی پروگر ام میں نمودار ہوئے۔ وہاں ا نہوں نے بہت رعونت سے گیزر کو ضرورت نہیں لگڑری قر ار دیا۔لوگوں کو پتیلوں میں پانی ڈال کر چولہے پر گرم کر نے کے مشورے دئیے۔ایسے مشوروں کے بعد پر اپیگنڈہ کا حتمی ما ہر ٹھہر ایا ا ور ہٹلر کے ز ما نے میں مشہور ہوا گوئبلز بھی اگر قبر سے ا±ٹھ کر حکومت کی معاونت کرتا تو لوگوں کے طیش کو ہینڈل کر نے میں ناکام ہوجا تا۔ضرورت نہیں لگڑری وا لے فقرے نے پیغا م یہ دیا ہے کہ اس حکومت کے وزراءخلقِ خدا پر نازل ہوئی مہنگائی کے بارے میں سفاکانہ حد تک بے حس ہوچکے ہیں۔شاید اس تا ثر کی نفی کے لئے وز یر اعظم نے لاہوربیٹھ کر حکم دیا کہ انہیں سمجھایاجائے کہ گیس کے بلوں میں ایسا ناقابل برداشت اضافہ کیوں ہوا۔ انگریزی والا Damageمگرہوچکا۔کل وقتی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائرہوجانے کے با وجود میں اس بات پر مصر ہوں کہ آج کی رپورٹنگ ”آدمی نے کتے کو کاٹ لیا“جیسی ”خبروں“ کو پھیلا نے پر توجہ نہیں دے رہی۔ساہی وال میں ہوا واقعہ بھی شاید ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتا اگر اس واقعہ کی وڈیوبنانے وا لے کئی افرا د جی دار ی سے اس وا قعہ کو سوشل میڈیا پر ”سانحہ“ بنا ہوا نہ دکھاتے۔ کل وقتی رپورٹروں نے درحقیقت ا س ضمن میں Citizen Journalismپرتکیہ کیا۔ہمارے سٹا ر اینکرز نے ان کی جی داری کے سبب ہی مصرعہ اٹھاکر اپنی دکانیں چمکائیں۔Ratingsکی مجبوری نے انہیں ایسا کر نے پر مجبور کیا۔ بہت منطقی حوا لے سے غور کریں تو سا ہی وال کے و ا قعہ کو سا نحہ بنا نے میں ہم باقا عدہ صحافیوں کی ذاتی پیش قدمی ہرگز نظر نہیں آئی۔سوشل میڈ یا پر وا ئرل ہوئے وا قعات وسوا لات کو ٹی وی پر رو نق لگا تے ہوئے بھی ہم ”دیوا نہ بہ کارخویش“ ہوشیا ر وا لا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں خبر ہے کہ ا س ضمن میں Red Linesکیا ہیں۔یہ لکھنے کے بعد مجھے ٹھوس مثا لیں دے کر اپنی بات سمجھانے کی ضرورت نہیں۔اسے میری کوتا ہی ہمت شمار کرلیجئے۔میڈیا سے موجودہ حکومت کے شکوے شاید اپنی جگہ برحق ہوں گے۔را ولپنڈی کی لا ل حویلی سے ا±ٹھے بقراطِ عصر مگر وزیر اعظم عمران خان صا حب کے وفا داروں سے بھی زیادہ بڑے وفادار ہونے کے دعوے دار ہیں۔قومی اسمبلی کے سپیکر ا سد قیصر برسوں سے تحر یک ا نصاف کے باقاعدہ کا رکن ہیں۔انہیں اپنے ایوا ن کو معتبر بنانا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں مستقل شور شر ابے کے بجا ئے سنجیدگی سے قا نون سازی ہو۔ا س ا مر کو یقینی بنانے کے لئے ا نہوں نے ا سمبلی قوا عد میں موجود قا عدہ نمبر103کا اطلاق کرتے ہوئے شہباز شریف اور خو اجہ سعد رفیق کو اسمبلی کے اجلاسوں میں لا نے کا حکم جاری کیا۔قومی اسمبلی میں آنے کے بعد ان دونوں افرا د نے کافی دھیما ا نداز اپنایا۔خوامخواہ کے شور شر ابے سے پرہیز کیا۔عمران خان کے خیرخواہ ہونے کے دعوے دار بقر اطِ عصر کو مگر سپیکر کا یہ فیصلہ ہضم نہیں ہوا۔ ابھی وہ اس کے بارے میں ٹھنڈے نہ ہوپا ئے تھے کہ پبلک اکا ﺅنٹس کمیٹی کے سربر ا ہ کا سوال ا±ٹھ کھڑا ہوا۔پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی جیسے جید ”ا نصافیوں“ نے اس ضمن میں سپیکر کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کو رضامند کیا کہ یہ سربر اہی پا رلیمانی روا یات کے مطابق شہباز شریف کو د ے دی جائے۔
بقراطِ عصر مگر اب اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر نے کی دھمکی دے رہے ہیں۔یہ حقیقت فر اموش کر تے ہوئے کہ وہ ایک ا یسے ا یوا ن کے سربر ا ہ کے خلاف عدا لت سے ر جوع کریں گے جہاں ان کی اتحاد ی جماعت کو اکثریت حاصل ہے۔ان کے ”دوست“ عمران خان اس ایوان کے بطور وزیر اعظم ”قا ئد“ ہیں۔اس ایوا ن کی اکثریتی ا ور اجتما عی را ئے کے خلاف غیر پا رلیمانی فورم سے رجوع کرنا ”قا ئدِ ایوا ن“کی سبکی کا باعث بھی ہوگا۔
اپنے ”دوست“ کی ممکنہ سبکی کو نظر ا نداز کرتے ہوئے را ولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے بقر اط اب ”ڈیل نہیں ڈھیل“ کے خلاف دہائی مچا نا شروع ہوگئے ہیں۔”ڈھیل“ مگر کون دے رہا ہے۔اس سوال کی وضاحت موجود نہیں۔”ڈھیل“ ا گرحقیقت ثا بت ہوئی تو اس کا حتمی ذمہ دار کون ہوگا۔اگر وزیر اعظم عمران خان نہیں تو کیا خلقِ خدا اس صورت میں یہ تصور کر نے میں حق بجا نب نہ ہوگی کہ وہ اس ملک کے ”چیف ایگزیکٹو“نہیںہیں؟۔
میڈیا کے سرکردہ لوگوں سے ون آن ون ملاقا توں کے بجائے خان صاحب کو اپنے ”دوست“ کے ساتھ مذکورہ با لا سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لئے تنہائی میں ایک طویل ملاقات کرلینا چا ہیے۔شاید اس ملاقات کے بعد کئی روز تک ا نہیں میڈیا سے بر اہِ را ست کوئی شکوہ نہیں ہوگا۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ