حالانکہ پاکستان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے بعد جس شخصیت کی سب سے زیادہ عزت ہے وہ ہیں جناح صاحب کی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح۔مگر محترمہ نے جب انیس سو چونسٹھ میں فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کو چیلنج کرتے ہوئے صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو فاطمہ جناح راتوںرات غدار ، بھارتی ایجنٹ اور امریکی پٹھو ہو گئیں۔ اخبارات میں محترمہ کی کردار کشی کے لیے بڑے بڑے اشتہار چھاپے گئے، ان کے سیاسی لطیفے گھڑے گئے۔ایوب خان کا سارا لبرل ازم دھرے کا دھرا رہ گیا اور انھیں سرکاری مساجد کے اماموںسے فتویٰ لینا پڑ گیا کہ عورت چونکہ امامت نہیں کر سکتی اس لیے عورت حکمران بھی نہیں بن سکتی ، اس لیے فاطمہ جناح کا ایوب خان کے مقابلے میں انتخاب لڑنا ہی حرام ہے۔جس نے ووٹ دیا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔وہ تو شکر ہوا کہ بہت سی مذہبی جماعتیں اور جید علماءفاطمہ جناح کے انتخابی کیمپ میں شامل تھے ورنہ تو محترمہ کو ہرانے کے چکر میں جانے کتنوں کے نکاح ٹوٹتے۔
جب بیگم نصرت بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بنیں تو جنرل ضیاءاور ان کے سویلین حامیوں میں سے کسی کے پر نہیں پھڑ پھڑائے۔ پیپلز پارٹی نے چونکہ انیس سو اناسی کے بلدیاتی اور انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا اس لیے فوجی جنتا اور اس کے کاسہ لیسوں کو بھٹو خواتین پر ذاتی حملوں اور ان کی کردار کشی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
مگر جیسے ہی پیپلز پارٹی نے انیس سو اٹھاسی کے جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو کردار کشی کے نلکے کھل گئے۔نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد نے چند اور ووٹ حاصل کرنے کی امید میں لاہور شہر پر چھوٹے ہوائی جہاز سے ایسی تصویریں گرائیں جن میں بیگم نصرت بھٹو سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کے ساتھ وائٹ ہاﺅس کی ایک پارٹی میں رقص کر رہی تھیں۔بے نظیر بھٹو کی زمانہ طالبِ علمی کی تصاویر سامنے لائی گئیں جن میں وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ جینز، شرٹ میں کھڑی ہیں یا بیٹھی ہیں یا گٹار بجا رہی ہیں۔مگر پوسٹرز اور ہینڈ بلز میں شایع کر کے ان تصاویر پر ایسے سستے تبصرے اور فقرے لکھے گئے کہ آئی جے آئی کے ووٹ تو خیر کیا بڑھتے ، الٹا کچھ اور کم ہوگئے اور بے نظیر بھٹو وزیرِاعظم بن گئیں۔
جیسے ہی بے نظیر وزیرِ اعظم بنیں تو مولانا فضل الرحمان کو اچانک یاد آیا کہ عورت تو ایک مسلمان ریاست کی وزیرِ اعظم بن ہی نہیں سکتی۔مگر جیسے ہی مولانا صاحب کو کشمیر کمیٹی اور خارجہ تعلقات سے متعلق پارلیمانی قائمہ کمیٹی کی سربراہی کی پیش کش ہوئی عورت کی حکومت بھی حلال ہو گئی۔بے نظیر جب پارلیمنٹ کے سیشن میں جاتی تھیں تو اپوزیشن بنچوں سے وزیرِ اعظم کے لباس اور چال ڈھال پر فقرے اچھالے جانے کی مشق جاری رہتی۔ایک بار بی بی سبز سوٹ اور سرخ دوپٹے میں اسمبلی آئیں تو شیخ رشید نے جملہ اچھالا ، آج تو محترمہ طوطا پری لگ رہی ہیں۔ایک اور ممبر نے کہا چال تو مردوں والی ہے، عورت والی تو کوئی بات ہی نہیں۔
لیکن پھر انھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ثابت کیا کہ پاکستان میں اگر اپنے ہم عصروں میں کوئی سب سے قابل اور بہادر لیڈر ہے تو وہ خود بے نظیر ہیں۔ ان کی شہادت نے تو سب کے ہی منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے۔
جب پنڈت نہرو لعل نہرو کے انتقال کے کچھ عرصے بعد اندرا گاندھی کانگریس کی رہنما بنیں تو انھیں بھی کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا اور پیٹھ پیچھے ان کی طوطے جیسی ناک اور دبلے پن کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔یہ تاثر کانگریسی کارکنوں میں عام تھا کہ اندرا گاندھی کامراج جیسے سینیر رہنماﺅں کی کٹھ پتلی بن کے رہیں گی۔مگر پھر سب نے دیکھا کہ کانگریس کی قیادت سنبھالے جانے کے ایک برس کے اندر ہی اس دھان پان سی عورت نے تمام بقراطی تاﺅ چاچو گھر پے بٹھا دیے یا تیر کی طرح سیدھے کر دیے۔بنگلہ دیش بننے کے بعد تو اٹل بہاری واجپائی سمیت اندرا کے کٹر مخالفین بھی انھیں درگا کے لقب سے مخاطب کرتے تھے۔
سونیا گاندھی جب مئی انیس سو اکیانوے میں راجیو گاندھی کی موت کے بعد گوشہ نشین ہو گئیں تو انھیں صرف ہمدردی اور ترس کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ جیسے ہی سونیا نے کچھ برس بعد کانگریس کی سربراہی سنبھالی اور دو ہزار چار کے لوک سبھا چناﺅ جیتے تو بی جے پی اور دیگر جماعتوں نے سونیاکی ہندوستان سے وفاداری پر سوالات اٹھا دیے۔ انھیں ودیشی بہو کہہ کہہ کر جینا دوبھر کر دیا۔بی جے پی کی خاتون رہنما سشما سوراج نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر سونیا جی پردھان منتری بنیں تو وہ اس دکھ میں سر کے بال منڈوا لیں گی۔مگر سونیا نے اپنی جگہ من موہن سنگھ کو وزیرِ اعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد سے سونیا جی کے بارے میں کوئی سستی بات سنائی نہیں دی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارتی سیاست میں یکایک عورت کا احترام بڑھ گیا یا سیاستداں کل کے مقابلے میں مہذب ہو گئے۔اب ترکش کے سارے تیر سونیا کی صاحبزادی پریانکا کے لیے مخصوص ہو گئے ہیں۔
چندہفتے پہلے ہی پریانکا نے بطور سیکریٹری جنرل کانگریسی سیاست میں باقاعدہ فعال ہونے کا جیسے ہی فیصلہ کیا تو وہ راتوں رات بی جے پی کی سیاسی ڈکشنری میں نفسیاتی مریض ، راون کی بہن ، خوبصورت چہرہ خالی کھوپڑی، رامائن کا شیطانی کردار مہیشا سورا اور مایوس کانگریس کا آخری سیاسی پتہ وغیرہ وغیرہ ہو گئیں۔
بس ایک بار آنے والا لوک سبھا چناﺅ گذر جائے تب تک پریانکا کو خطرے کی گھنٹی سمجھنے والے حریف بھی آہستہ آہستہ انھیں ایک نئی سیاسی حقیقت سمجھ کر قبول کرنے لگیں گے اور پھر سب کسی نئی شخصیت کو نشانے پر رکھ لیں گے۔
کردار کشی اور وہ بھی مردوں کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی خواہش مند عورت کی کردار کشی کے لیے کسی خاص خطے، نظریے، ترقی یافتہ و پسماندہ ہونے کی قید نہیں۔آگے بڑھنے والی اکثر خواتین کے ساتھ معاندانہ و امتیازی رویہ عالمگیر ہے۔ کہیں انگریزی و فرانسیسی میں تو کہیں عربی، فارسی، اردو ہندی میں۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ