آج کے بہت دھانسو وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب کو ان کے تایا چودھری الطاف حسین مرحوم کے ساتھ بہت ہی گہرے ذاتی تعلق کی وجہ سے کئی برسوں تک میں نے اپنے خاندان کا فرد ہی سمجھا۔ وقت مگر ایک سا نہیں رہتا۔ اور بسا اوقات اس کی وجہ سے ”تو ،تونہ رہا۔ میں، میں نہ رہا“ ہوجاتا ہے اور زندگی کا اعتبار ا±ٹھ جاتا ہے۔
ذاتی معاملات سے قطع نظر جب بحیثیت صحافی وزیراطلاعات کا ایک حالیہ بیان دیکھا تو حیرت ہوئی۔ عمران صاحب کے بارے میں لکھی ایک کتاب کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے بے ساختہ اعتراف کردیا کہ تحریک انصاف کی حکومت متوسط طبقے کے لئے کچھ نہیں کرپارہی۔ وجہ حکومت کی بدنیتی نہیں بلکہ ان کی نظر میں یہ ”حقیقت“ ہے کہ گزشتہ دس برس اقتدار میں رہنے والوں نے قومی خزانہ ”خالی“ کردیا ہے۔
شاید وہ درست کہہ رہے ہوں گے۔ شہباز شریف کو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹاکر مگر یہ خزانہ بھرا نہیں جاسکتا۔ جس ڈیل یا ڈھیل کا بہت دنوں سے چرچا ہے وہ بھی اس ضمن میں کوئی مدد نہیں کر پائے گی۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے ا±ٹھے بقراطِ عصر کی فراست پر تکیہ کرتے ہوئے تحریک انصاف مگر ان دو معاملات ہی پر ساری توجہ مبذول کئے بیٹھی ہے۔حتیٰ کہ لاہور کے قریب شجرکاری کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم بھی ہفتے کے روز NROنہ دینے کا تہیہ کئے نظر آئے۔”NRO”میری ناقص رائے میں لیکن اس وقت کا اہم ترین مسئلہ ہی نہیں ہے۔اصل سوال متوسط طبقے میں روز افزوں بڑھتے اس خوف کا ازالہ ہے کہ وہ اپنا موجودہ معیارِ زندگی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔
متوسط طبقے میں جاگزیں ہوئے اس خوف کو دل دہلادینے والی سنگینی گیس کے ان بلوں نے فراہم کی ہے جو گزشتہ ماہ کے آغاز میں ہمارے گھر آئے۔ہر بل میں تین سے چار گنااضافہ دیکھنے کو ملا۔ ہر صارف یہ سمجھا کہ شاید اسے ”غلط“ بل بھیجا گیا ہے۔ سوئی گیس والوں کے دفاتر کے باہر حواس باختہ ہوئے لوگوں کے ہجوم نظر آئے۔ افاقہ مگر نصیب نہ ہوا۔ غلام سرور خان نے اگرچہ ان بلوں کی اقساط کردینے کی پیش کش کی۔ساتھ ہی بہت رعونت سے مگر گیزرکو ”لگڑری“ قرار دے کر زخموں پر نمک چھڑکتے سنائی دیئے۔
ان بلوں کے بعد سے سوئی گیس والے ایک تشہری مہم چلائے ہوئے ہیں۔ اس مہم کے ذریعے گرافکس کے استعمال سے ہمیں سمجھانے کی کوشش ہورہی ہے کہ گیس کے بلوں میں ناقابلِ برداشت ہوئے حالیہ اضافہ کی وجہ کوئی اور نہیں مگر اس ”سہولت“ کے استعمال کے ضمن میں اپنایا ہمارا غیر ذمہ دارانہ یا ”عیاش“ رویہ ہے۔”چولہے کو کم از کم استعمال کیجئے اور دکھ سے نجات پائیے“ اس تشہیری مہم کا بنیادی پیغام ہے۔
مجھ ایسے صارف کو اگرچہ اس تشہیری مہم سے پیغام یہ ملا ہے کہ تمامتر احتیاط کے باوجود جو گیس ہمارے ہاں جنوری میں خرچ ہوئی ہے اس کا بل بھی برسوں کے بنے معمول سے تین یا چار گنازیادہ ہوگا۔ وزراءکو اس خوف کی مگر پروا نہیں۔دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ اس ملک کی آبادی کا فقط 23فی صد پائپوں کے ذریعے فراہم ہوئی گیس استعمال کرتا ہے۔
”23فیصد“ پر زور دیتے ہوئے تحریک انصاف کے وزراءیہ فراموش کئے بیٹھے ہیں کہ اس Segmentکے بے پناہ لوگوں نے جولائی 2018ءکے انتخابات میں شمالی پنجاب کے اٹک، ٹیکسلا، راولپنڈی، اسلام آباد اور مری جیسے شہروں میں ان کی جماعت کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیئے تھے۔ اس بار سردی کی شدت نے ان ہی شہروں کے مکینوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔
جنوری کے بعد فروری میں بھی انہیں ناقابل یقین دِکھتے اضافے والے بل وصول ہوئے تو ان کی پریشانی مایوسی کی صورت میں ڈھل کر بالآخر غصہ کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ اس غصے کے سڑک پر اظہار کے لئے محض ایک چنگاری ہی کافی ہوگی۔لوگوں کی معاشی مشکلات سے گھبرائی حکومت اپنے چندا قدامات سے مگر ”چنگاریاں“ فراہم کئے چلی جارہی ہے۔ کاش میں ان ”چنگاریوں“ کو ٹھوس مثالوں کے ذکر سے بیان کرسکتا۔ اپنی Limitsکو مگر خوب جانتا ہوں۔ مقصد ویسے بھی اپنی بات کو سمجھانا ہے کسی سے جھگڑا نہیں۔
صحافتی تحقیق میں مختلف لوگوں کی روزمرہّ زندگی میں آئی مشکلات کو واقعاتی(Anecdotal)حوالوں سے سمجھنے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔گزشتہ دو مہینوں میں اپنی گوشہ نشینی کے باوجود کم ازکم دس افراد سے ملنے کا موقع ملا۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سے وہ اپنے کاروبار چلانے میں بہت دِقت محسوس کررہے ہیں۔ تین ایسے لوگوں سے بھی اتفاقاََ تفصیلی ملاقات ہوئی جو کئی برسوں سے پراپرٹی کے کاروبار سے متعلق ہونے کی وجہ سے نسبتاََ راحت بھری زندگی بسرکررہے تھے۔ میں نے انہیں اسلام آباد کے نواحی دیہات میں یہ تحقیق کرتے دیکھا کہ وہ اگر بھینسیں یا گائیں خرید کر دودھ بیچنے کا دھندا شروع کردیں تو روزمرہّ اخراجات سنبھالنے کی کوئی صورت میسر ہوپائے گی یا نہیں۔کئی بے روزگار ہوئے صحافی بہت سنجیدگی سے ”دھابے“ وغیرہ کھولنے کی ترکیب سوچتے بھی نظر آئے۔ میں بذاتِ خود 1975سے صحافت سے مسلسل تعلق رکھنے کے باوجود اپنی عمر کے آخری حصے میں کئی بار رزق کمانے کا کوئی اور ذریعہ سوچنے کومجبور ہورہا ہوں۔
”23فیصد “ مگر صحافیوں ہی پر مشتمل نہیں۔بے روزگار ہوئے صحافی شایداس تعداد کا ایک فی صدبھی نہیں ہوں گے۔ اس Segmentکی کثیر تعداد تنخواہ داروں پر مشتمل ہے۔ ان کی ماہانہ آمدنی طے شدہ ہوتی ہے۔کئی صورتوں میں ایسا بھی ہوا ہے کہ تنخودار کے گھر گزشتہ ماہ گیس کا جو بل آیاوہ اس رقم کے برابریا اس سے بڑھ کر تھا جو مکان کے کرائے پر صرف ہوتا ہے۔
متوسط طبقے کا سب سے بنیادی خوف اپنے بندھے ٹکے معیار سے پھسل کر نچلے طبقے کی طرف لڑھکنا ہوتا ہے۔نریندر مودی Demonetization (نوٹ بندی)کی وجہ سے اپنے متوسط طبقے کو ناراض کر بیٹھا۔فرانس میں پیلی جیکٹوں والے ایسے ہی خوف کا شکار ہوئے۔ برطانوی پارلیمان Brexitکے حوالے سے بوکھلاچکی ہے تو وجہ اس کی بھی متوسط طبقے میں اپنے موجودہ مقام سے نیچے لڑھک جانے کا خوف ہے۔ اٹلی، پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک میں اسی خوف نے طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ پاکستان اس ضمن میں استثنیٰ کی صورت محفوظ نہیں رہ سکتا۔
شہباز شریف کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی چیئرمینی سے ہٹاکر کنویں میں بھی پھینک دیں تو متوسط طبقے میں جاگزیں ہوا یہ خوف دور نہیں ہوگا۔ ٹی وی سکرینوں پر توجہ تھوڑی دیر کو بھٹکانے میں مدد ضرور کرے گا۔فقط تھوڑی دیر کے لئے۔ اس سے زیادہ نہیں۔
یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ حکومت میں متوسط طبقے کو ریلیف پہنچانے کی سکت باقی نہیں رہی۔ یہ سکت میسر نہ ہوتی تو وزیر خزانہ گزشتہ ماہ ”منی بجٹ“ متعارف نہ کر پاتے۔ اس ”بجٹ “ کے ذریعے سٹاک ایکس چینج کے چند نمایاں سیٹھوں کے منظم گروہ کو ٹھوس ریلیف مہیا کی گئی ہے۔ معیشت کے بارے میں کئی لکھنے والوں نے حساب لگایا ہے کہ مذکورہ بجٹ میں دی گئی اس ریلیف سے حکومت اپنی ممکنہ آمدنی سے کئی ارب روپے قربان کردینے کو تیار ہوئی۔ ایسی ”ریلیف“ کے بنیادی حق دار مگر ”23فیصد“ شہریوں کا وہ حصہ تھا جس کی اکثریت نے شمالی پنجاب کے شہروں اور قصبات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیئے۔ انہیں سفاکانہ دِکھتے رویے سے نظرانداز کرنا سیاسی اعتبار سے خودکشی کے مترادف ہے۔ کاش فواد چودھری اس پہلو کا ادراک کر پائیں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ