بخدا پوری رات سو نہیں پایا۔ آنکھ لگنے سے قبل ٹویٹر دیکھنے کی حماقت کر بیٹھا تھا۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی کی جانب سے جو سکھر ملتان موٹروے پر کام کررہی ہے،ایک پریس ریلیز جاری ہوئی۔ اس کے ذریعے خود پر لگائے ’’بے بنیاد الزامات‘‘ کی تردید ہوئی۔ساتھ ہی ملفوف انداز میں اس امر پر دُکھ کا اظہار بھی کہ مذکورہ الزامات ایک وفاقی وزیر کی جانب سے اچھالے گئے ہیں۔
مزید بات کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ تمام کاروباری معاہدے صاف،ستھرے اور شفاف نہیں ہوتے۔کاروبار کا بنیادی مقصد ہی کم سے کم سرمایہ کاری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔چند معاہدوں پر منافع کی ہوس لیکن بہت نمایاں ہوتی ہے اور معاملہ میگا پراجیکٹس کا ہو تو کمیشن اور کک بیک کی سچی جھوٹی کہانیاں بھی گردش کرنا شروع ہوجاتی ہیں۔
چین کے ساتھ ہوئے کاروبار کے حوالے سے مگر ہمیں بہت محتاط رہنے کی اشدضرورت ہے۔ہمارے ہاں اس کی کمپنیاں CPECکی چھتری تلے جن منصوبوں پر کام کررہی ہیں وہ روایتی معنوں میں ’’نجی کمپنیاں‘‘ نہیں ہیں۔ چینی حکومت کی نمائندہ ہیں۔ان کا یہاں کام کرنا چینی صدر کے سوچے ایک بہت بڑے خواب One Belt One Roadکو حقیقت کا روپ دینے والا ’’مشن‘‘ہے۔
امریکہ کئی مہینوں سے اس ’’مشن‘‘ پر سوالات اٹھارہا ہے۔Debt Trapکی اصطلاح متعارف کروائی گئی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے دئیے جارہے ہیں اور چین اس پراپیگنڈے کے بارے میں بہت متفکر ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ اگر پاکستان میں لگائے اس کے منصوبے بھی ’’متنازعہ‘‘ بن گئے تو دنیا میں اس کے بارے میں بہت منفی پیغام جائے گا۔ ’’ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی‘‘ کے دعوے دار ممالک میں بھی اگر کاروباری تعلقات ’’متنازعہ‘‘ تصور ہوں تو چین PRکی جنگ ہار جائے گا۔
میری پریشانی مگر چین کا Good Imageنہیں۔پلوامہ کے بعد پاک -بھارت تعلقا ت میں خوفناک حد تک بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں منگل کی شام آئی پریس ریلیز کو ایک اہم ترین معاملے سے نتھی کرکے دیکھنے کو مجبور ہوا۔
بدھ کی صبح چھپے اس کالم میں تفصیل سے بیان کرچکا ہوں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے دورئہ پاکستان کے اختتام پر جاری ہوئے مشترکہ اعلامیہ میں "Avoiding Politicisation of UN listing Regime” والے فقرے کی کیا اہمیت ہے۔ بھارت مسلسل شکوہ کررہا ہے کہ چین جیش محمد کے بانی مسعود اظہر کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچارہا ہے۔
منگل ہی کی سہ پہر خبر یہ بھی آئی ہے کہ بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے فرانسیسی ہم منصب نے عندیہ دیا ہے کہ ’’آئندہ چند دنوں میں‘‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہوتے ہوئے فرانس مسعود اظہر والے معاملے کو باقاعدہ انداز میں دوبارہ اٹھائے گا۔
فرانس کی جانب سے ممکنہ پیش قدمی کا بنیادی سبب بھی کاروباری مفادات ہیں۔زیادہ تفصیل میں جائے بغیر فقط وہ سکینڈل یاد کرلیجئے جو بھارت کی اپوزیشن فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری کے بارے میں ان دنوں اچھال رہی ہے۔مسعود اظہر کے معاملے پر پیش قدمی لیتے ہوئے فرانس خود کو بھارت کا ’’حقیقی‘‘ دوست ثابت کرنا چاہیے گا۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ فرانس کے مشیر برائے قومی سلامتی نے اپنے بھارتی ہم منصب کو فون کرنے سے قبل ’’خاموش سفارت کاری‘‘ والے رابطے بھی کئے ہوں گے۔ ان رابطوں کی بدولت ہی بھارت میں اب یہ امید پھیلائی جارہی ہے کہ شاید اب کی بار اگر مسعود اظہر پر پابندیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اُٹھے تو چین اس کی مخالفت کرنے کے بجائے خود کو اس معاملہ سے لاتعلق کرلے گا۔ اس ’’امید‘‘ کے تناظر میں چینی پریس ریلیز نے مجھے پریشان کیا۔
یہ پریشانی مگر میری نیند چرانے کے لئے کافی نہ تھی۔ اس کے بارے میں غور کرہی رہا تھا تو لندن کے ایک باخبر صحافی نے جو جنوبی ایشیاء اور افغانستان کا ماہر گردانا جاتا ہے مجھے Whatsappپر کچھ پیغاماتForwardکئے۔
یہ پیغامات دلی کے کئی مستند صحافیوں کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔ ان کے ذریعے معلوم یہ ہوا کہ پلوامہ واقعہ گزرنے کے تقریباََ ایک ہفتہ بعد بھی کشمیری دلی کی نسبتاََ خوش حال مڈل کلاس تصور ہوتی بستیوں میں موجود اپنے فلیٹس میں واپس نہیں لوٹے ہیں۔ کثیر المنزلہ عمارات میں موجود یہ فلیٹس Gated Communitiesکہلاتے ہیں۔ وہاں رہنے والے خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔
مختلف علاقوں اور ان میں رہائش پذیر افراد کے نام لے کر مجھے بتایا گیا ہے کہ پلوامہ کے فوری بعد رات گئے ان عمارتوں کے کمپائونڈز میں بجرنگ دل اور دیگر ہندو انتہا پسندوں کے گروہ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اس عمارت میں اگر ایک کشمیری بھی کسی فلیٹ میں رہائش پذیر تھا تو اس کا نام لے کر فحش گالیاں بکی گئیں۔ ان عمارتوں کے مکینوں اور ’’محافظوں‘‘ سے مطالبہ ہوا کہ مذکورہ شخص کو ان کے حوالے کیا جائے۔ پولیس سے مدد کی درخواست ہوئی تو انہوں نے ہنگامہ کرنے والے گروہ سے ’’درخواست‘‘ محض یہ کی کہ وہ بجائے عمارت کے کمپاؤنڈ میں نعرے لگانے کے ان عمارتوں کے قریب کھلی جگہوں پر جمع ہوکر اپنا ’’احتجاج‘‘ جاری رکھیں۔
میرے پاس آئی مصدقہ اطلاعات کے مطابق سینکڑوں کشمیری اپنی بنیادی ضرورتوں کا سامان جمع کرکے بیوی بچوں سمیت دلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پناہ ڈھونڈرہے ہیں۔
دلی کے جغرافیے سے ناواقف لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس شہر کے مسلم اکثریتی علاقے قدیمی اور گنجان آباد ہیں۔ دویا تین کمروں پر مشتمل ان کے گھروں میں اوسطاََ دس کے قریب افراد پہلے ہی سے موجود ہیں۔نسبتاََ بہتر اور جدید گھر خواجہ نظام الدین کے مزار کے نواح میں قائم بستیوں میں ہیں۔پناہ گزینوں کو کھپانے کی گنجائش مگر وہاں بھی موجود نہیں۔مجھے خدشہ ہے کہ بھاری بھرکم بینک قرضوں سے حاصل کئے فلیٹس سے خوف کے مارے بے دخل ہوئے کشمیریوں کو شاید اب کھلے میدان میں لگائے کیمپوں یا سکولوں میں پناہ لینا ہوگی۔
ربّ کریم سے فریاد ہے کہ دلی جیسے شہروں میں مقیم کشمیریوں پر نازل ہوئی یہ آفت عارضی ہو۔ اگرچہ بھارتی میڈیا اسے ’’مستقل‘‘ بنانے پر تلا بیٹھا ہے۔ ’’سول سوسائٹی ‘‘ کو بھی اس ضمن میں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ برکھادت جیسی صحافی بھی اپنے ٹویٹر پر مسلسل فریاد کناں ہے کہ اسے فون پر غلاظت بھری دھمکیاں دی جارہی ہیں۔اس نے سینکڑوں ٹیلی فون نمبر بھی اس ضمن میں اپنے اکائونٹس پر ڈالے۔ افاقہ مگر نصیب نہیں ہوا۔ ٹویٹر انتظامیہ بلکہ اسے Hateپھیلانے کی مرتکب ٹھہرارہی ہے۔
دہلی میں مقیم جن کشمیریوں کی بپتا میرے تک پہنچی ہے ان میں سے کم از کم 30خاندانوں کو میں ذاتی طورپر کئی برسوں سے اپنے خاندان کی صورت لیتا ہوں۔ تمام رات خوفزدہ ہوئی عورتوں اور بچیوں کے چہرے میرے ذہن میں امڈتے رہے۔ لندن میں مقیم دوستوں کی معاونت سے کئی ایک کی خیروعافیت کے بارے میں تازہ ترین جاننے کی جستجومیں لگارہا۔
مزید دُکھ یہ سوچتے ہوئے بھی ہوا کہ ٹویٹر کے محتاج ہوئے آج کے میڈیا میں "Human Interest”کی مد میں یقینا شمار ہوتی بھارتی شہروں میں مقیم کشمیریوں پر نازل ہوئی آفت کا کماحقہ ذکر ہی نہیں ہورہا۔
آفت کی اس گھڑی میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کشمیری خود کو بے یارودمددگار محسوس کررہے ہیں۔
فرض کیا بالآخر وہ اپنے وطن لوٹنے کو مجبور ہوگئے تو اپنے گھروں پر ترنگا لہراتے ہوئے بندے ماترم الاپنا تو نہیں شروع ہوجائیں گے۔اس حقیقت کو مگر جنونی سمجھ ہی نہیں پارہے۔فسطائی سوچ نے انہیں وحشی بناڈالا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ