علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال سے میری اپنی مدیر، رمیزہ بی بی کی رخصتی کی تقریب میں تعارفی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد کوئی رابطہ نہ ہوا۔ ہفتے کی شام اسی لئے خوش گوار حیرت ہوئی جب ہمارے لاہور آفس سے نمبر لے کر انہوں نے مجھے فون کیا۔ اپنا تعارف کروانے کے بعد انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ میں ”علامہ صاحب“ کی طرح جاوید کے ”وید“ کو وید (حکیم) کے وزن پر نہیں بلکہ دید (دیکھنا) کی صورت بولتا ہوں۔ چھوٹی ”ی“ کی صوتی اعتبار سے مکمل ادائیگی کے ذریعے۔
ان کے فون کا اصل مقصد مگر گزشتہ جمعہ کی صبح چھپے میرے اس کالم کو سراہنا تھا جس میں مردان یونیورسٹی میں بہکائے نوجوانوں کے ایک غول کے ہاتھوں مشال خان کی وحشیانہ ہلاکت کا ذکر تھا۔ اس ہلاکت کے ذمہ دار چند افراد کو اب عدالت نے پھانسی کے علاوہ دیگر سزائیں بھی سنادی ہیں۔ مجھے پریشان اس حقیقت نے کیا تھا کہ مذکورہ مقدمے میں رہائی پانے والوں کے استقبال کے لئے مقامی سطح کے چند ”مذہبی سیاسی“ رہ نماﺅں نے کافی لوگوں کو محض سوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے جمع کرلیا۔
رہا ہونے والے افرادجب وہاں آئے تو گرمِ جوش نعروں سے ان کی پذیرائی ہوئی۔رہائی پانے والے دو تین لوگوں نے اس اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ وہ مشال خان کے واقعے پر ہرگز شرمندہ نظر نہیں آئے۔ پیغام بلکہ یہ ملا کہ ”مجرم“ ٹھہرائے افراد کو سزاﺅں سے بچانے کے لئے کوئی تحریک چلائی جائے گی۔ اس تحریک کا انجام کیا ہوگا۔ اس کے بارے میں فی الوقت قیاس آرائی مناسب نہ ہوگی۔ یہ حقیقت مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں آج سے 8سال قبل دن دہاڑے ہوئے ایک قتل نے مجرم کو پھانسی تو دلوائی مگر اس پھانسی کے بعد قاتل ہمارے کئی لوگوں کی نظر میں ہیرو بن گیا۔ اس کے حوالے سے اب ایک سیاسی جماعت بھی نمودار ہو چکی ہے۔ گزشتہ برس کے آخری ایام میں اس جماعت نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان روزمرہّ کی آمدورفت کو دھرنا دے کر مسلسل 22دنوں تک مفلوج کئے رکھا۔ بالآخر ہماری ریاست کے ایک طاقت ور ترین دائمی ادارے کی وساطت سے عباسی حکومت مظاہرین کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوئی۔ وزیر قانون زاہد حامد کی قربانی دے کر اس دھرنے کو ختم کرایا گیا تھا۔
اس دھرنے کے اختتام کے بعد چکوال میں پنجاب اسمبلی کی خالی ہوئی ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہوا۔ دھرنے والی جماعت نے اس میں حصہ لینے کے لئے ایک نسبتاً گمنام اور کم وسیلہ شخص کوچنا۔ دھڑے، برادری اور سرمایے کی قوت سے محروم امیدوار نے سولہ ہزار کے قریب ووٹ لے کر چکوال کے مختلف سیاسی جماعتوں میں کئی برسوں سے متحرک کارکنوں کو حیران کردیا۔
مردان میں ”مذہبی سیاسی جماعتوں“ کا تاریخی طور پر ایک مضبوط ووٹ بینک ہے۔ خان غفار خان کی سوچ سے متاثر قوم پرست بھی یہاں بہت طاقت ور ہیں۔ 2013کے انتخابات میں عمران خان کی تحریک انصاف کو اس شہر میں خیبرپختونخواہ کے دوسرے علاقوں کی طرح مکمل کامرانی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ مجھے خدشہ ہے کہ مشال خان کے قتل اور اس کے نتیجے میں سنائی سزاﺅں کو 2018کے انتخابات کے دوران مردان میں بھی ”دینی سیاسی جماعتوں“ کی جانب سے بھرپور انداز میں استعمال کیا جائے گا۔لوگوں کے جذبات بھڑکاکر ووٹ لینے کی کوشش ہوگی۔
عمران خان کو ان کے سیاسی مخالفین ”طالبان خان“ کہتے رہے ہیں۔ وہ ”مذہبی جماعتوں“ کے خوف کی وجہ سے مولانا سمیع الحق کی مسلسل دلجوئی میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔ مشال خان کے قتل کا باعث ٹھہرائے افراد کی سزاﺅں کے خلاف بھڑکائے غصے کو مگر انہوں نے نے بروقت پہچان لیا۔ واضح الفاظ میں فریاد کی کہ مشال خان کے ساتھ ہوئے سلوک کی پذیرائی ہمارے ملک میں جنگل کا ماحول پیدا کرے گی۔ اندھی نفرت میں تقسیم ہوئے غول جوبھیڑیوں کی مانند اپنے مخالفین کو بھنبھوڑ ڈالنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
میری بہت خواہش تھی کہ مردان میں مشال خان کے حوالے سے رہا ہوئے افراد کی ”پذیرائی“ فقط عمران خان کی پریشانی کا باعث ہوئی نظر نہ آتی۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی جنہیں Mainstream کہا جاتا ہے اس کا نوٹس لیتیں۔ خاص طورپر بلاول بھٹوزرداری کی پیپلز پارٹی۔ ان جماعتوں نے مگر عمران خان کی اس ضمن میں ”تقلید“ سیاسی طورپر مناسب نہ سمجھی۔ خاموشی کو ترجیح دی۔
اس خاموشی ہی نے گزشتہ جمعے کے روز چھپے کالم کے ذریعے مجھے سیاسی تفریق سے بالانظر آتی ایک بھرپور فکری تحریک کی ضرورت کا احساس دلانا پڑا۔ ویسے ہی ایک تحریک جس کا آغاز سرسید کے ذریعے ہوا تھا۔اقبال نے جسے گہرائی اور گیرائی عطا کی اور سیاسی طورپر اس کا اجر ہمیں قائداعظم کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں قیامِ پاکستان کی صورت ملا۔
طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے میں ولید اقبال کے ساتھ طویل اور گرم جوش گفتگو نہ کرپایا۔ مجھے یہ بھی خوف لاحق ہے کہ موصوف نے شاید میرے رویے کو مغرور یا خشک سمجھا ہو گا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ مجھے گماں تھا کہ علامہ اقبال کا پوتا شاید ممی ڈیڈی مارکہ ہے۔ اُردو اخبارات میں چھپے کالموں کو دیکھتا بھی نہ ہو گا۔ اپنے ابتدائی کلمات ہی سے اس نے مجھے حیران کر دیا۔ ”جاوید“ کے صحیح تلفظ کی پہچان اور میرے کالم سے اس کی جانب دئیے کئی حوالے بتاتے ہیں کہ موصوف نے اپنے ادبی ورثے کو بھی سنبھال رکھا ہے۔
وراثت سے لگاﺅ سے کہیں بڑھ کر ولید اقبال کے لہجے کی تڑپ تھی جو مکمل طورپر اس تجویز کی حامی تھی کہ آج کے پاکستان کو ایک بھرپور فکری تحریک کی ضرورت ہے۔ سوچتے سمجھتے اور غور کرتے نوجوانوں کے ذہنوں میں ابلتے سوالات کو برملا اٹھانے کی گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔ ان سوالات کا Mob Furyکے خوف سے رک جانا ہمارے ہاں فکری جمود کو توانا تر بنادے گا۔ سوالات اٹھانے اور ان کے مدلل مباحثوں اور مکالموں کے ذریعے جوابات ڈھونڈنے کی گنجائش کسی معاشرے میں ختم ہوجائے تو اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے غول وحشی جانوروں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف تخت یا تختہ والی ”بقائے جہد“ میں خرچ ہو جائیں گے۔ ہمیں اس وحشت سے بچنے کا بروقت بندوبست کرنا ہو گا۔
( بشکریہ نوائے وقت )