ٹی وی کی Liveنشریات میں طیش میں آکر میرے منہ سے کوئی ”تخریبی“ فقرہ نکل جاتا تو بریک پر پہنچتے ہی اس کا فون آجاتا۔ ”توں“ سے میں ”تسی“ہوجاتا۔ جبر کی علامت بنے کئی طاقتور سورماﺅں سے لڑنے کو ہر وقت تیار اسماء (جسے میں نے ہمیشہ اسماءجیلانی لکھا) کا لہجہ میری ماں جیسا ہوجاتا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ”میں ہوں ناں“۔ اس کے ہوتے ہوئے ”حساس معاملات“ کے بارے میں ضرورت سے زیادہ بے باک ہونے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ مصلحت نہیں حکمت درکار ہے۔عذر گھڑنے کی مجھے عادت نہیں۔ اس کی پریشانی سے گھبرا جاتا۔ جلد ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کے بعد مگر جارحانہ انداز اختیار کرلیتا۔ ”قربِ قیامت ہے کہ میرے لاہور کی ککے زئی عورت اندرونِ شہر میں جوان ہوئے مرد کو مصلحت سمجھا رہی ہے“۔میں جھلا کر کہہ دیتا۔ وہ ہنس دیتی اور ”دفعہ ہو“ کہہ کر فون بند کر دیتی۔
اتوار کی منحوس دوپہر مجھ ایسے سینکڑوں کے سرپر آئی بلا کو اپنے سر لینے کو ہمہ وقت آمادہ اس دنیا میں نہ رہی۔بہت سوں کے حصے کی جنگ اپنے ذمہ لے کر لڑنے والی کو موت نے اچانک ہی دبوچ لیا تھا۔ربّ کریم نے اسے بے بسی کی موت مرنے سے محفوظ رکھا۔آخری فون جو اسے آیا تھا اس کے ذریعے بھی اسے ایک ایسے مقدمے کے دفاع کے لئے آمادہ کرنا تھا جسے لینے کو کئی پاٹے خان بنے وکلاءگھبرا رہے ہوں گے۔ ذاتی دُکھ میرا یہ بھی ہے کہ اپنی موت سے وہ مجھے اس مان سے محروم کرگئی کہ طیش کی ہذیانی کیفیات میں شاید میں ان معدودے چند افراد میں سے ایک تھا جو اسے ”لیڈر بہت ہوگئی۔ ہن جان دیو“ کہتے ہوئے چپ کروا دیتا تھا۔تعلق ہمارا ان کے جی دار والد ملک غلام جیلانی کے توسط سے تھا۔ ایک شاندار آدمی جس نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت کے دورِ استبداد میں ثابت کیا کہ لاہور کے خاندانی رئیسوں سے اُٹھی نام نہاد ”پنجابی اشرافیہ“میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو استحصالی نظام کے شراکت دار نہیں۔ حق بات کہنے کی جرات سے مالا مال ہیں۔ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی ناراض قیادتوں کی ڈٹ کر مہمان نوازی کرتے ہیں۔ پاکستان کواپنی جرات اور محبت سے ہر صورت یکجا رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی بقاءکو یقینی بنانے کے لئے جمہوری نظام کی ضرورت کو پورے خلوص سے محسوس کرتے ہیں۔ایسی آوازوں کو مگر ”غداری“ شمار کیا گیا۔ لاہور سے اُٹھی آوازیں”گھر کے بھیدی“ کی ڈالی واردات شمار ہوتی ہیں۔ ”اپنوں“ کی بغاوت کو برداشت کرنا ناممکن ہوتا ہے۔اسماءنے اپنے والد سے ملی اس باغیانہ وراثت کو شعار کی صورت جبلی طورپر اپنا لیا تھا۔ثابت کیا کہ وقت کڑا ہو تو بیٹیاں ہی درد کے رشتے کی اصل وارث ثابت ہوتی ہیں۔پنجاب کی ماﺅں کو مزاروں پر دھاگے باندھ کر ”منڈے“ کی فریاد کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔
اسماءجیلانی کی اچانک آئی موت نے مجھے بوکھلا دیا ہے۔ میری بیوی اور بیٹیوں کا خیال ہے کہ میں پتھر دل ہوں۔ اپنی ماں کی موت پربھی رویا نہیں تھا۔ میری آواز میں گھبراہٹ، پریشانی اور اداسی انہوں نے کبھی سنی نہیں۔ بری سے بری خبر سن کر بھی متوحش نہیں ہوجاتا۔ اتوار کی دوپہر سے مگر وہ بہت حیران ہیں۔ میں نے یہ کالم لکھنے تک بھی خود میں یہ حوصلہ نہ پایا کہ فون اٹھاکر اسماءکی بیٹی منیزے جہانگیر سے افسوس کا اظہار کر سکوں۔ دانتوں کی تکلیف نے جبڑے کے آپریشن تک پہنچا دیا ہے۔ مختلف مراحل میں ہوتا یہ علاج کافی تکلیف دہ ہے۔ درد کی شدت سے نبردآزما ہونے کے لئے مختلف النوع ادویات درکار ہیں۔ ان کے استعمال نے ذہن وجسم کو مفلوج بنا رکھا ہے۔اسماءکی ”وقت سے پہلے“ اور اچانک آئی موت نے مگر ایک حوالے سے مجھے اطمینان بھی دلایا ہے۔ اس کی موت کا ”خیرمقدم“ جس وحشیانہ انداز میں انٹرنیٹ پر حاوی ہمارے سلامتی کی دعائیں مانگتے دین کے چند خودساختہ ٹھیکے داروں اور ”قومی مفاد“ کے محافظوں نے کیا، اس نے مجھے چونکادیا ہے۔ خیال آتا ہے کہ اسماءکی موت شاید بروقت تھی۔ اس کے بعد مرنے والوں ”غداروں“ کو شاید اس زمین میں قبر کے لئے جگہ بھی نہ ملے۔ خاموشی سے کہیں دفن بھی کردئیے گئے تو اندھی نفرتوں میں مبتلا کئے وحشی ان کی قبروں کو ڈھونڈ کر انہیں کھود ڈالیں گے۔ ”غداروں“ کی ہڈیاں فضاءمیں بکھیری جائیں گی۔ وہ ایسا وقت دیکھ نہ پانے کی وجہ سے خوش نصیب رہی۔
بچپن سے ”دشمن مرے تے….“ سنتا چلا آیا ہوں۔ میرے محلے میں حجاموں ا ور حلوائیوں کی چند دُکانیں تھیں۔ وہاں روزانہ کوئی ا خبار آتا تھا۔ میں وہاں سے گزرتا تو اکثر فرمائش ہوتی کہ ان دُکانوں کے تھڑوں پرموجود افراد کو اخبار پڑھ کر سناﺅں۔میں آج بھی وہ منظرفراموش نہیں کرسکتا جب لاہور کے ”امروز“ اخبار میں عطااللہ شاہ بخاری کے جنازے کی روئیداد چھپی تھی۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو تھڑے پر بیٹھے افراد دھاڑیں مار کر رونا شروع ہوگئے۔ حیرت مجھے اس حقیقت کے بارے میں آج تک بھی ہے کہ اس دن غم واندو ہ کا شکار ہوئے کئی افراد مرتے دم تک مجھے بتاتے رہے کہ ”مجلسِ احرار“ قیامِ پاکستان کے خلاف رہی تھی۔ اس جماعت کے مولانا مظہر علی اظہر نے قائدِاعظم کو کافرِاعظم کہا تھا۔اندرونِ لاہور کی چھوٹی مساجد کی اکثریت کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے تھا۔ شیرانوالہ دروازے کی طرف سرکلر روڈ سے جانے والی گھاٹی کے کنارے پر لیکن مولانا احمد علی لاہوری کی مسجد بھی تھی۔ ان کے عقیدے کو اکثر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا۔ مولانا احمد علی لاہوری کی لیکن جب موت کی خبر آئی تو سارا شہر اداس ہوگیا۔ اپنے بچپن میں جو جنازے دیکھے ان کا جنازہ ان میں سے ”بہت بڑے“ کی صورت اب تک یاد ہے۔عطااللہ شاہ بخاری اور مولانا احمد علی لاہوری تو مسلمان تھے۔ تاریخ ساز مقرر اور عالم۔ برطانوی سامراج کے خلاف مستقل مزاج جدوجہد کی علامتیں۔ پنڈت جواہرلال نہرو تو ہمارے ازلی دشمن بھارت کا وزیراعظم تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ کشمیر کو ہتھیانے کی اصل سکیم اس کے میکاولی ذہن نے تیار کی تھی۔میرے بچپن میں شیخ عبداللہ پاکستان آئے تھے۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت کو شک تھا کہ نہرو کی ایماءپر یہ کشمیری رہنما ایوب خان سے مذاکرات کے ذریعے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو قانونی یا مستقل صورت دینے کی خاطر پاکستان آیا ہے۔ شیخ عبداللہ کے قیامِ پاکستان کے دوران ممکنہ سازش کے خلاف احتجاجی جلوس نکلے۔ ان جلوسوں میں نہرو کے فرضی جنازے کی ”ارتھی“ بھی ایک چارپائی پر رکھی جاتی۔شیخ عبداللہ کی پاکستان موجودگی کے دوران ہی نہرو کی موت کی خبر آ گئی۔ لوگ مگر اداس ہوگئے۔ دلوں میں شاید یہ امید بھی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ نہرو ”تم ہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا“ کی صورت حل کرسکتا ہے۔میرے شہر اور وطن کے لوگوں میں موجود یہ کشادگی اب نہیں رہی۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک حقیقتاََ مجھے انٹرنیٹ پر اسماءجیلانی کی موت کی خبر کی پرجوش ”پذیرائی“ سے پہلی بار ہوا ہے۔ مشال خان کی موت کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے ہمارے کئی ذہنوں پر حاوی ہوئی وحشت کو عیاں کیا ہے۔ دل گھبرا گیا ہے۔ فیض احمد فیض نے لکھا تھا:”یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا“۔ مجھے اس مصرعے میں تحریف کرتے ہوئے فریاد بس یہ کرنا ہے کہ ہم ایسے ظالم تو ہرگز نہیں تھے۔ وہ گداز کیا ہوا جو صوفیوں نے ”ہور توفیق نئی کجھ میرے“ کا ورد کرتے ہوئے ہمارے دلوں میں جاگزیں کرنے کی کوشش کی تھی۔
طیش میں سنگ دل ہوئے لوگ کیوں بھول گئے کہ اسماءجیلانی واحد آواز تھی جس نے ڈٹ کر یہ مطالبہ کیا کہ سوات آپریشن کے بعد گرفتار ہوئے افراد جنہوں نے وہاں ”خونی چوک“ آباد کیا تھا،عدالتوں کے روبرو لائے جائیں۔انہیں اپنے دفاع کا بنیادی حق فراہم کیا جائے۔ سوات آپریشن کے ہر لمحے کو میں نے زمین پرموجود رہ کر رپورٹ کیا تھا۔ میں اس کی سوچ سے تلملا گیا۔ اسے اپنے ٹی وی پروگرام میں لیا۔ شاید یہ پہلا اور آخری موقعہ تھا کہ جب Mass Media پر ہم ایک دوسرے سے تلخ ترین گفتگو کرتے نظر آئے۔اپنے بدترین دشمنوں کے لئے فیئر ٹرائل کی دہائی مچانے والی اسماءجیلانی کی موت کی خبر نے پتھر ہوئے دلوں کو جس انداز میں ”شاداں“ کیا ہے وہ حیران کن ہے۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی۔ اسماءجیلانی کا معاملہ اپنے ربّ کے سپرد کریں۔ دُعا فقط یہ مانگیں کہ اس کا معاملہ طے کرتے ہوئے دونوں جہانوں کا مالک ہمارے دلوں میں تھوڑی برداشت اور رحم کی گنجائش بھی پیداکردے۔
( بشکریہ نوائے وقت)