واٹس ایپ کے ذریعے پیغامات آتے رہتے ہیں۔ میں ان میں سے شاید پانچ فی صد سے زیادہ پیغامات کو غور سے نہیں دیکھتا۔ سرسری نگاہ ڈال کرڈیلیٹ کردیتا ہوں۔ جمعرات کی شب مگر ایک مہربان سینئر نے جن سے ٹیلی فون پر رابطہ بھی بہت کم ہوتا ہے،ایک پیغام بھیجا۔ اس کے ذریعے حبیب جالبؔ کے گنگنائے تین اشعار فارورڈ کئے۔
’’گنگنائے‘‘ کا لفظ میں نے بہت احترام سے استعمال کیا ہے۔سکول میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا جب ایک سیاسی جلسہ میں جالبؔ صاحب کو پہلی بار سنا تھا۔’’ایسے دستور…‘‘ والی نظم جس میں ’’میں نہیں مانتا‘‘ کی تکرارعجب حقارت سے بغاوت کا اظہار کرتی سنائی دیتی ہے۔مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ وہ کس ’’دستور‘‘ کی بات کررہے ہیں۔جالب صاحب کے ترنم نے مگر قائل کردیا کہ وہ کوئی قابلِ نفرت شے ہے۔
بعدازاں مجھے عصر کا وہ وقت ہرگز نہیں بھولا جب ایوب خان نے اپنی حکومت بچانے کے لئے راولپنڈی میں ایک گول میز کانفرنس منعقد کروانے کا اعلان کیا تھا۔ راولپنڈی جاتے ہوئے اس وقت کے مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ ایک جہاز میں کراچی سے لاہور آئے تھے۔شیخ مجیب کو عوامی لیگ کے چند مقامی رہ نما اسماء جیلانی کے والد کے ہاں لے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو مگر ایک جلوس کی صورت پنجاب اسمبلی کے سامنے والے چمن تک لے جانے کا فیصلہ ہوا۔
حبیب جالب صاحب نے اپنے کئی مداحین کی تمام تر خواہشوں کے باوجود پیپلز پارٹی میں شرکت سے انکارکردیا تھا۔ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی سے چپکے رہے۔ بھٹو صاحب پنجاب اسمبلی کے سامنے پہنچ کر جو تقریر کررہے تھے اسے سننے کے لئے مجمع میں لیکن موجود تھے۔بھٹو صاحب نے وہاں ایک دھواں دھار تقریر فرمائی تھی۔ اعلان کردیا کہ وہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے‘‘ کی خاطر رچائی گول میز کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس خطاب کے جوش میں ہونے کے باوجود انہوں نے جالبؔ صاحب کو دیکھ لیا ا ور ان سے درخواست کی کہ وہ ٹرک پر آکر اپنا کلام سنائیں۔
بھٹو صاحب کی تقاریر کے بعد کسی مقرر یا شاعر کے لئے سماں باندھنا ناممکنات میں سے تھا۔جالبؔ صاحب نے درویشانہ بے اعتنائی سے ’’خطرہ ہے زرداروں کو…‘‘ والی نظم شروع کردی۔ ہجوم نے تالیوں کی تھاپ سے اس نظم کو ردھم مہیا کردیا۔ قوالی والا وہ ماحول بن گیا جو وجد کی کیفیت سے مالا مال کردیتا ہے۔عصرکے وقت نے اسے مزید سحر آمیز بنادیا۔ اس سحر کو بھلانا میرے لئے تاحیات ناممکن ہے۔
اس سحر کے اثر ہی میں 1970کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم ہوتے ہوئے دوستوں کے ہمراہ مال روڈ پر آوارہ گردی کرنے نکلتا تو بے تابی سے جالبؔ صاحب کی تلاش لاحق ہوجاتی ۔ وہ پاک ٹی ہائوس یارگل چوک پر مل جاتے تو ہم مریدوں کی طرح ان کے گرد حلقہ بناکر ان کے اشعار اور باتیں سنتے رہتے ۔ اسی باعث جالبؔ صاحب کا کوئی شعر مجھے ’’نیا‘‘ محسوس نہیں ہوتا۔
جمعرات کی شب جو اشعار وصول ہوئے یہ کالم لکھنے تک ان کے اثر سے لیکن باہر نہیں آپایا ہوں۔میرے مہربان سینئر کو شاید ان اشعار میں سے ’’علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں‘‘ والا مصرعہ پسند آیا تھا۔ جس ’’تقریر‘‘ نے انہیں غالباََجالبؔ صاحب کی یاد دلائی اس کا ذکر بھی ان اشعار میں تھا۔ وہ شعر ہے: ’’حسین آنکھوں، مدھرگیتوں کے سندردیس کو کھوکر – میں حیران ہوں کہ وہ ذکر وادیٔ کشمیر کرتے ہیں‘‘۔
میرے ذہن میں لیکن اس غزل کا مطلع اٹک گیا ہے ۔ ترنم کے ڈرامائی Potential کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے جالبؔ صاحب اس مطلع میں انتہائی بے بسی سے ’’اعتراف‘‘ کرتے ہیں کہ ’’ہمارے درد کا جالبؔ مداوا ہو نہیں سکتا…‘‘
جالبؔ صاحب کے مطابق ہمارا درد ناقابل علاج اس لئے ہوچکا ہے کیونکہ ’’ہر قاتل کو ہم چارہ گر سے تعبیر کرتے ہیں‘‘۔ عمر کے آخری حصے کی جانب لڑھکتے ہوئے گزشتہ چند مہینوں سے انتہائی دیانتداری سے میں بھی یہ طے کرچکا ہوں کہ ہمارے درد کا مداوا ہونہیں سکتا۔ یہ بات مگر سمجھ نہیں پارہا تھا کہ ’’مداوا‘‘ ناممکن نظر آنا کیوں شروع ہوگیاہے۔جالب صاحب کے مطلع نے بات سمجھادی۔ ’’ہر قاتل‘‘ کو ’’چارہ گر‘‘ تعبیر کرتے رہیں گے تو شفاء کیسے نصیب ہوگی؟
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل غلام محمد ہمارے ملک کے پہلے ’’چارہ گر‘‘ کی صورت اُبھرے تھے۔ لاہور کے محلہ ککے زئی سے نمودارہوئے یہ چارہ گر انگریزوں کے سدھائے افسرتھے۔ نظم ونسق کے پابند۔ مختار کامل ہوتے ہوئے بھی آخری عمر میں مفلوج ہوگئے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ موصو ف غصے میں آکر اول فول بکا کرتے تھے۔ان کا کہا کوئی لفظ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ان کی ایک گوری سیکرٹری ’’ترجمانی‘‘ کے فرائض سرانجام دیا کرتی تھی۔بڑے طرم خان افسر اور سیاست دان سرجھکائے ان کے منہ سے جھڑتی تھوک کی بوچھاڑ نہایت ادب سے اپنے سوٹوں اور شیروانیوں پر وصول کرتے۔
ملک غلام محمد کے بارے میں پڑھتا ہوں تو لاہور کے کئی مجذوب یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔وہ اپنے چاہنے والوں کو مغلظات سے نواز تے تھے۔ ان کے ہاں حاضری دینے والے مگر ان میں سے اپنے لئے ’’خوش خبریاں‘‘ تلاش کرلیتے۔ قدرت اللہ شہاب بھی لیکن انگریز ہی کے سدھائے ایک اور افسر تھے۔ ان سے ’’ضعیف الا عتقادی‘‘ کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ایک دن انہوں نے لیکن قرۃ العین حیدر کو بتایا کہ وہ ملک غلام محمد کی یاد میں ایک مضمون لکھ رہے ہیں۔ یہ اعلان کرتے ہوئے انکشاف یہ بھی فرمایا کہ ’’مرحوم (ملک غلام محمد) ولی اللہ تھے‘‘۔ قرۃ العین حیدر نے ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں یہ واقعہ بیان کررکھا تھا۔
غلام محمد کے بارے میں جو لکھا گیا ہے اسے پڑھتے ہوئے میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ ایوب خان کے دور سے جاری ’’جمہوری جدوجہد‘‘ نے ہمارے ہاں جو سوچ پھیلائی ہے اس کی وجہ سے دورِ حاضر میں ملک غلام محمد جیسے ’’سائیں لوگ‘‘ چارہ گروں کے روپ میں ہمارے ’’جابرمائی باپ‘‘ ہو نہیں سکیں گے۔ خود سے وعدہ یہ بھی کرتا رہا کہ وطن عزیز پر اگر ایک اور ملک غلام محمد ’’چارہ گر‘‘ کی صورت مسلط ہوا تو اس کی پوری لگن سے مزاحمت کروں گا۔ ’’چارہ گروں‘‘ سے اجتناب برتنے میں جرمن زبان کے شہرہ آفاق ڈرامہ نگار -بریخت- کے اس فقرے نے بھی بہت مدد فراہم کی جس کے ذریعے اس نے اس قوم پر افسوس کا اظہار کیا جو ہمیشہ ہیرو یعنی چارہ گروں کی تلاش میں رہتی ہے۔
’’چارہ گروں‘‘ کو اپنے تئیں خوب پہچان لینے کا دعوے دار ہونے کے باوجود آج یہ اعتراف کرنے کومجبور ہوں کہ 2007کے اپریل سے کئی مہینوں تک میں بدنصیب بھی ایک ’’چارہ گر‘‘ کے سحر میں مبتلا ہوگیا تھا۔ افتخار چودھری اس ’’چارہ گر‘‘ کا نام تھا۔ اعتزاز احسن جیسے بہت ہی پڑھے لکھے ’’انقلابی‘‘ نے مجھ جیسے بے وقوفوں کو قائل کیا کہ جنرل مشرف کو ’’انکار‘‘ کرنے والا یہ ’’چارہ گر‘‘ اپنے عہدے پر بحال ہوگیا تو ہماری ریاست ’’ماں‘‘ جیسی ہوجائے گی۔
بالآخر ’’چارہ گر‘‘ اپنے منصب پر بحال ہوگیا۔ ریاست اس کی بحالی کے بعد ’’ماں‘‘ تو نہ بنی۔اگربنی تو بتدریج سوتیلی ماں جیسی ظالم وسفاک ہونا شروع ہوگئی۔ ’’چارہ گر‘‘ مگر ’’ارسلان کا ابو‘‘ ضرور ثابت ہوا۔میرے ممدوح اعتزاز احسن اس کی بابت خاموش رہے۔ ہمیں ’’نہر والے پل تے بلا کے‘‘ خود نہ جانے کہاں غائب ہوگئے۔ شاید ان کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افتخار چودھری کی چھوڑی کرسی پر بیٹھے ثاقب نثار صاحب بھی ’’چارہ گری‘‘ کے جلوے دکھاتے رہے۔ ’’ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے‘‘ ان کی ’’چارہ گری‘‘ کے خوف سے کونوں میں دبک کر بیٹھے رہے۔ ان دنوں میڈیا پر چھائے متحرک ترین ’’اندر کی خبر‘‘ ڈھونڈ کے لانے والوں کو بھی ہرگز خبر نہیں کہ ثاقب نثار نامی ’’چارہ گر‘‘ ان دنوں کہاں ہوتے ہیں۔ جس ڈیم کا انہوں نے ’’پہرہ‘‘ دینا تھا اس کا کیا ہوا۔ ہمارے درد کا واقعتا مداوا ہو نہیں سکتا۔
جالبؔ مرحو م نے یہ حقیقت جان لی تھی۔میری ماں چٹی اَن پڑھ تھی۔ اکثر ایک محاورہ بولتیں جس کا اُردو مفہوم ہے کہ ’’چکنی چپڑی باتوں میں لگاکر مجھ سادہ لوح کو کوئی بھی اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے‘‘۔ یہ کالم ختم کرتے ہوئے یاد یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے ایک اور ممکنہ ’’چارہ گر‘‘ ان دنوں ’’سعودی عرب‘‘ جیسے اختیارات مانگ رہے ہیں تاکہ ’’بے رحم احتساب‘‘ سے مثبت نتائج برآمد کرپائیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)