آج سے چند ماہ قبل اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں اپنے ہر دن کے تقریباََ 6گھنٹے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہوں۔ اس عادت سے بچت کی کوئی صورت نکالنا ہوگی۔ وقت کی اہمیت کا احساس بنیادی طور پر جان کر ہوا کہ میرے بستر پر رکھی کتابوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ انہیں بہت شوق سے خریدا گیا تھا مگر کسی ایک کتاب کو کھولنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ تھوڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ سوشل میڈیا سے قطعی لاتعلقی میرے لئے ممکن نہیں۔ ذات کا رپورٹر رہا ہوں۔”خبر“ ڈھونڈنا جبلت کا حصہ بن چکا ہے اور آج کے دور میں کوئی بھی صحافی کم از کم ٹویٹر اکاؤنٹ کے بغیر مقامی اور عالمی معاملات کے بارے میں ”تازہ ترین“ جان ہی نہیں سکتا۔ میں اس اکاؤنٹ سے مگر تین دن بچے رہنے کا رسک لے سکتا تھا کیونکہ ہفتے کے آخری ایام میں نہ تو مجھے یہ کالم لکھنا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے ٹیلی وژن کے لئے ”تازہ ترین“ تلاش کرنے کی مجبوری سرپر سوار رہتی ہے۔فیصلہ ہوگیا مگر اس پر عملدرآمد بہت مشکل ہوگیا۔ انٹرنیٹ کی دریافت کے بعد سے مجھے کمیونی کیشن کے جدید ترین ذرائع کو استعمال کرنے کی عادت ہوچکی تھی۔ ان سے دوری کے مراحل میں نشے کی لت میں مبتلا افراد کی طرح Withdrawal سے جڑی کیفیات سے گزرنا پڑا۔ اکثر بے بسی میں کمپیوٹر کھول لیتا اور تھوڑی دیر بعد خود پر ملامت کرتا اسے بند کردیتا۔لیپ ٹاپ بند کرنے کے باوجود سمارٹ فونز سے موبائل ڈیٹا والی سہولت کو ان تین دنوں میں مفلوج کرنے کی جرا¿ت نہ دکھاپایا۔ چونکہ یہ جرات نہیں دکھائی تھی لہذا فون کو محض بات چیت کے لئے استعمال کرنے کے بعد فوراََ ٹویٹر وغیرہ کا رُخ کرلیتا۔ احساس ہوا کہ فقط کتابیں پڑھنے کی لگن اس ضمن میں مددگارثابت نہیں ہوگی۔ گھر سے نکل کر فطرت سے گھلنا ملنا ہوگا۔ اس کی جانب رُخ ہوا تو دوتین گھنٹے پیدل گھومنے کے بعد گھرلوٹتا تو بستر پر لیٹتے ہی نیند آجاتی۔ جو وقت کتابوں کے لئے بچانے کی کوشش کی تھی سونے میں خرچ ہونا شروع ہوگیا۔ تھکن کی وجہ سے شام میں آئی نیند کی وجہ سے معمول کی گہری رات والی نیند سے محروم ہونا شروع ہوگیا۔ بہرحال کافی مشقت اور کئی ہتھکنڈے اختیار کرنے کے بعد میں ہفتے کے آخری تین دن سوشل میڈیا سے دوری کی عادت اپنانے کے قابل ہوچکا ہوں۔اس عادت کی جانب رُخ ہوا تو اچانک دریافت کیا کہ دُنیا بھر میں کئی افراد اپنے چند مخصوص دنوں کو سوشل میڈیا سے دور رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لت سے جان چھڑانے کے لئے چند نامور لکھاریوں نے اپنے روزمرہّ سے طویل رخصت کا بندوبست بھی کیا۔ کسی دور دراز ملک چلے گئے اور وہاں فون کو صرف اپنے پیاروں سے رابطے کے لئے استعمال کیا۔ ان لوگوں نے سوشل میڈیا سے دوری کی وجہ سے جو اطمینان دریافت کیا وہ دیگر لوگوں کے سامنے آیا تو کئی ملکوں میں ایسے گروہ نمودار ہونا شروع ہوگئے جو ایک ”فرقے“ کی مانند تصور کئے جاسکتے ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر سے پرہیز کرنے والا فرقہ۔ ایک نئی طرز کاتصورِ حلال وحرام۔گزشتہ جمعہ نیویارک ٹائمز میں ایک ایسے شخص کے بار ے میں ایک مضمون چھپا ہے جو مذکورہ فرقے میں ابھرتی ”انتہا پسندی“ کی نشاندہی کرتا ہے۔ امریکہ میں خود کو فٹ رکھنے کے عادی لوگوں کے لئے جوتے اور کپڑے وغیرہ بیچنے والی ایک نامور کمپنی کے کامیاب افسر نے فیصلہ کیا کہ وہ سوشل میڈیا ہی نہیں خود کو اخبارات اور ٹیلی وژن سے دور رکھ کر ”تازہ ترین“ سے اجتناب برتے گا۔ اپنی نوکری برقرار رکھتے ہوئے اسے اپنے فیصلے پرعمل درآمد ناممکن نظر آیا تو اس نے استعفیٰ دے کر اپنے شہر کے قریبی حصے میں زمین خرید کر وہاں فارم ہاؤس بنا لیا۔ وہ اکیلا رہتا ہے۔ صرف اپنی ماں اور بہن سے وقت طے کرکے ملتا ہے اور ان سے ملاقات کے دوران کسی ”خبر“ کو زیر بحث نہ لانے کا شرطیہ اہتمام ہوتا ہے وہ شخص اپنی زندگی کے بارے میں اب بہت ہی مطمئن ہے۔ اس کے بارے میں پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ ”تازہ ترین“ جانے بغیر زندگی بہت جان دار ہی نہیں خوش وخرم انداز میں بھی گزاری جاسکتی ہے۔میری مجبوری مگر یہ ہے کہ صحافت کے علاوہ رزق کمانے کے کسی اور طریقے سے واقف ہی نہیں۔ اپنے گھر کی تعمیر مکمل کرنا بھی سرمائے کی کمی کی وجہ سے جان لیوا محسوس ہو رہا ہے۔ خاندانی ذمہ داریاں ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔ کسی دور دراز قصبے میں چند کینال زمین لے کر خود کو مطمئن کرنے والی گوشہ نشینی اختیار کر ہی نہیں سکتا۔ ”درمیانِ کا رِدریا “ہی کسی نہ کسی صورت زندہ رہنا ہوگا۔ ہفتے کے ابتدائی چار دن رزق کمانے کی مجبوری کی وجہ سے اخبارات،ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا کی نذر کردینے کے باوجود آخری تین دن ان سے دوری نبھا سکتا ہوں۔ یہ سہولت بھی تقریباََ عیاشی ہے۔ربِ کریم کی مہربانی سے ملی نعمت جو میرے کئی ساتھیوں کو ہرگز میسرنہیں۔سوشل میڈیا سے میرے تین روز کے اجتناب سے قطع نظر آج کے دور کی حقیقت دنیا بھر میں طاقت ور وخوش حال لوگوں کے خلاف اُبلتا ہوا غصہ ہے جس کا اظہار ان دنوں فقط فیس بک وغیرہ کے ذریعے ہی ممکن نظر آرہا ہے۔ ذاتی حوالوں سے ارب پتی ڈونلڈٹرمپ امریکی سفید فام اکثریت کے دلوں میں موجود خدشات اور تعصبات کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بیان کرتا ہوا وائٹ ہاؤس پہنچ چکا ہے۔ صدارت سنبھالنے کے بعد مگر اس سے معاملات سنبھالے نہیں جارہے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے وہ ٹویٹر پیغامات کے ذریعے غصے کے اظہار میں مصروف رہتا ہے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایٹمی جنگ کے ٹھوس امکانات کے ہوتے ہوئے بھی وہ شمالی کوریا کے صدر کے ساتھ صرف ٹویٹر کے ذریعے سخت پیغامات کے تبادلے میں مصروف رہا۔ مزید حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ موصوف کی بدکلامی نے حالات کو بگاڑا نہیں۔ اس امر کے امکانات روشن ہورہے ہیں کہ آنے والے مئی کے کسی روز اس کی شمالی کوریا کے صدر سے ملاقات ہوجائے اور شاید وہ دونوں اس ملاقات کے بعد امریکہ اور کوریا کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑجانے کے امکانات کو معدوم کرسکیں۔شمالی کوریا کے ساتھ محض ٹویٹر کی وجہ سے امریکہ کے لئے روشن ہوئے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے خیال مجھے یہ بھی آیا ہے کہ اس سال کے آغاز میں اس نے پاکستان کے خلاف جو ٹویٹ لکھی تھی، ہمارے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی اس کے جواب میں ہذیانی ٹویٹ لکھنا شروع ہوجاتے۔ اسے بار بار ہمارے ”عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت“ ہونے کا احساس دلایا جاتا۔ افغانستان میں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔ ہمارے خطے میں کسی ایٹمی جنگ کا خدشہ ان کے لئے بھی پریشان کن ہونا چاہیے۔شاید ان کو لاحق خطرات کا تذکرہ ہوتا تو امریکی صدر اور ہمارے وزیر اعظم کے درمیان براہِ راست مذاکرات کی کوئی صورت نکل آتی۔ ہمارے وزیر اعظم مگر اخبارات تک نہیں پڑھتے۔ اپنے دفتر سے انہوں نے ٹیلی وژن بھی اٹھوادیا ہے۔ سنا ہے کہ صرف Whatsappکے ذریعے چند لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ان روابط کی وجہ سے مگر امریکہ نہیں بلکہ ہماری وزارتِ خارجہ کے چند افسر اور ریاست کے دیگر دائمی اداروں میں موجود افراد بہت پریشان ہوئے ہیں۔ امریکی نائب صدر سے میرا یہ کالم لکھنے تک وزیر اعظم پاکستان کی مبینہ ملاقات مذکورہ افسروں اور اداروں سے بالابالا ہوئی ہے۔ جمعرات کی دو پہر سے مجھے Whatsappکی بدولت ایسے پیغامات ملنا شروع ہوگئے تھے جو بہت پریشانی سے یہ جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ شاہد خاقان عباسی امریکہ کیوں چلے گئے۔ میرے ایک دیرینہ ساتھی صالح ظافرصاحب نے ایک نہیں دو خبروں کے ذریعے بہت تفصیل کے ساتھ یہ بیان کیا تھا کہ وزیراعظم صرف اپنی ہمشیرہ کے آپریشن کے دوران موجود رہنے کے لئے امریکہ گئے ہیں۔ ان کا دورہ قطعی ذاتی نوعیت کا ہے۔ اس کا سفارتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔Whatsappکے ذریعے مجھ سے رابطہ کرنے والوں کو مگر اعتبار نہیں تھا۔ جبلی انداز میں محسوس کیا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم کی ”ذاتی مصروفیات“ اپنی جگہ لیکن ان کے امریکہ میں قیام کے دوران کسی نہ کسی اہم امریکی عہدے دار سے ان کی ملاقات بھی ضرور ہوگی۔ اس ملاقات کے لئے جو روابط ہورہے تھے ان کی خبر امریکہ میں موجود ہمارے ریاستی نمائندوں تک پہنچ گئی تھی۔ تفصیلات البتہ میسر نہیں تھیں۔ عباسی صاحب کی امریکی نائب صدر سے ملاقات اگر واقعتا ہوگئی ہے تو اس کے بعد وزیر اعظم اور ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے مابین بدگمانیاں مزید گہری ہوں گی۔اچھا ہوا میں گزشتہ تین دن سوشل میڈیا اور سمارٹ فون سے دور رہا وگرنہ دل میں نامعلوم کا خوف مسلسل بے کلی میں مبتلا رکھتا۔
(بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ