میں کرکٹ کا ہرگز شیدائی نہیں کبھی کبھار ٹی وی سکرین پر کوئی میچ دیکھ لیتا ہوں حال ہی میں جو PSL-2 ہوا ہے میں نے فائنل سمیت اس کا ایک میچ بھی نہیں دیکھا۔
یہ کہنے کے باوجود میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ لاہور میں ہوئی ایک ہولناک دہشت گردی کے بعد بھی اس کا فائنل لاہور میں ہر صورت کروانے کا فیصلہ ایک بالکل درست فیصلہ تھا اس کے ذریعے پاکستان کی ریاست نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس کے پاس وہ تمام وسائل ہر صورت موجود ہیں جو کسی میگا ایونٹ کو جہاں ہزار ہا افراد شامل ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں، دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے محفوظ رکھ سکے۔ اصل بات صرف ارادہ ہے جسے جدید زبان میں Political Will کہا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا بھی ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے ریاست کے تمام ادارے باہم مل کر اپنی قوت وتوانائی کو بھرپور انداز میں استعمال کریں۔ PSL-2 کے فائنل کو ہر صورت لاہور میں منعقد کرنے کے ریاستی فیصلے کے بارے میں اگر ہمارے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات موجود ہوتے تو ان کی ایک کثیر تعداد علی الصبح اس بینک کی شاخوں کے باہر لمبی قطاریں ہرگز نہ بناتی جہاں اس فائنل کی ٹکٹیں بیچی جا رہی تھیں۔ قذافی سٹیڈیم میں 26 ہزار سے زائد تماشائیوں کو بٹھانے کی گنجائش نہیں ہے۔ قطاروں میں لگے تمام افراد کو لہذا ٹکٹ ملنے کا ہرگز امکان نہیں تھا۔ اطمینان بخش بات مگر یہ ہے کہ ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود شائقین کی بے پناہ اکثریت نے اپنی مایوسی کا توڑ پھوڑ کے واقعات کے ذریعے اظہار نہیں کیا۔ خوش دلی سے اس حقیقت کو جبلی طور پر مان لیا کہ فائنل دیکھنے کے خواہاں ہر شخص کو ٹکٹ یا پاس فراہم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ فائنل کی ٹکٹوں کے حصول کے لئے قطاروں میں کھڑے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے میرے نوجوان صحافیوں نے ان دو پہلوؤں پر کماحقہ توجہ نہیں دی۔ PSL-2 کے فائنل کے حوالے سے Hype Build کرتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات روکنے کی حامل ریاستی قوت پر اطمینان کی کہانی لوگوں کے سامنے نہ آ پائی نہ ہی یہ حقیقت کہ اس میچ کو سٹیڈیم میں دیکھنے کے امکان سے محرومی کو بھی خوش دلی سے نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ٹیلی وژن کو مگر Idiot Box بھی کہا جاتا ہے۔ شاید اس کے ذریعے مذکورہ بالا پہلوؤں کو مناسب انداز میں پیش کرنے کی گنجائش موجود نہیں تھی اگر موجود تھی بھی تو اسے تخلیقی طریقے سے بیان نہیں کیا جا سکا۔ ٹی وی چینلوں پر ٹکٹوں کے حصول کے لئے برپا ہل چل کے مقابلے میں گزشتہ جمعہ کی شام سے مجھے اپنے سمارٹ فون پر تواتر کے ساتھ پیغامات موصول ہونا شروع ہوگئے۔ یہ پیغامات بھیجنے والوں کو میں نہیں جانتا تھا۔ وہ سب مگر یہ بات پھیلانے میں مصروف رہے کہ پنجاب حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مختلف النوع ہتھکنڈے اختیار کررہی ہے کہ قذافی سٹڈیم میں PSL-2 کا فائنل دیکھنے کے لئے صرف PML-N کے ’’گلوبٹ‘‘ جیسے حامی موجود ہوں مجھے یہ بات بھی تواتر کے ساتھ ملے پیغامات کے ذریعے بتائی گئی کہ بینکوں کو اس فائنل کی بہت کم ٹکٹیں فراہم کی گئی ہیں۔ لاہور کے دو مختلف پریسوں کا نام لیا گیا ان دونوں کے مالک کشمیری نژاد تھے مجھے یہ بتایا گیا کہ فائنل کی ”ساری‘‘ ٹکٹیں درحقیقت ان دو پریسوں میں چھاپ کر مسلم لیگ (نون) کی مقامی قیادت میں بانٹ دی گئی ہیں۔ قذافی سٹیڈیم کو مسلم لیگی کارکنوں سے بھر کر اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ جب نواز شریف صاحب وہ میچ دیکھنے آئیں تو پورا سٹیڈیم ان کے استقبال کے لئے کھڑا ہو کر والہانہ انداز میں نعرے لگاتا نظر آئے۔ ٹیلی فون کے ذریعے آئے ان پیغامات کی بھرمار اور تواتر نے میرے اندر دفن ہوئے رپورٹر کو تجسس میں مبتلا ہو کر کچھ لوگوں سے رابطہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان دنوں بھی اگر ایک متحرک رپورٹر ہوتا تو سب سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا کہ لاہور میں وہ دو پریس موجود بھی ہیں یا نہیں جہاں مبینہ طور پر PSL-2 کے فائنل کی ٹکٹیں صرف مسلم لیگی کارکنوں کے لئے چھاپی جا رہی ہیں۔ بجائے تفصیلی اور تحقیقی رپورٹنگ کی مشقت سے گزرنے کے میں نے صرف یہ معلوم کرنا چاہا کہ پنجاب حکومت مبینہ طور پر PSL-2 کے فائنل کے روز قذافی سٹیڈیم کو مسلم لیگی کارکنوں سے بھر کر اپنے قائد کا ’’والہانہ استقبال‘‘ کیوں کروانا چاہ رہی ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکلا تو مجھے بتایا گیا کہ لاہور میں PSL-2 کے فائنل کے ذریعے سپریم کورٹ کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اس نے پانامہ کے حوالے سے متوقع فیصلے میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لئے صادق اور امین نہ ہونے کی بناء پر نااہل قرار دیا تو ’’عوام‘‘ ناراض ہوجائیں گے۔ وہ بپھرگئے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ فیصلے لکھتے ہوئے عزت مآب ججوں کو لہذا احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ PSL-2 کے فائنل کے دوران نواز شریف کے ممکنہ استقبال کے لئے مبینہ طور پر بنائے منصوبے کی تفصیلات اور وجوہات جب مجھے بتائی گئیں تو میرا پنجابی والا ’’ہاسا چھوٹ گیا‘‘ صرف اتنا کہہ کر بحث سے گریز کیا کہ کاش مسلم لیگ اتنی ہی منظم اور منصوبہ ساز ہوتی جتنا فرض کر لیا گیا ہے مجھ سے بات کرنے والے مگر اپنی بات پر ڈٹے رہے۔
اتوار کا پورا دن میں اخبارات پڑھنے کے بعد روسی زبان کے شہرہ آفاق ادیب میخائیل چیخوف کے ڈرامے پڑھنے میں مصروف رہا رات سونے سے پہلے تھوڑی دیر کو ٹیلی وژن دیکھا اور انٹرنیٹ پر جا کر اپنی میل وغیرہ چیک کی میں نے جب ٹی وی کھولا تو اس وقت کوئٹہ کی پشاور زلمی کے ہاتھوں شکست دیوار پر لکھی نظر آرہی تھی کریز پر کھڑے کسی ایک کھلاڑی میں بھی مجھے اس شکست کے روکنے کے لئے کوشش ہوتی نظر نہ آئی۔ تقریباً یک طرفہ نظر آتے مقابلے سے اُکتا کر میں نے ٹویٹر اور فیس بک دیکھنا شروع کر دیا۔
ان دونوں Apps پر عمران خان کے متوالوں کی طرف سے ایک کلپ کی بھرمار تھی جس کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا جا رہا تھا کہ نجم سیٹھی کی تقریر کے دوران قذافی سٹیڈیم ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا کچھ پیغامات میں دعویٰ یہ بھی ہوا کہ ان نعروں سے گھبرا کر نواز شریف میچ دیکھنے کے لئے قذافی سٹیڈیم آنے کی ہمت نہ کر سکے مایوس ہو کر اپنے جہاز میں بیٹھ کر بلکہ اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں۔ شہباز شریف مگر میچ سٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھ رہے تھے۔ مجھے خبر نہیں کہ ان کی موجودگی میں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے کیوں جاری نہ رہے اس کے بعد میچ ختم ہو گیا اور تماشائی خیرو عافیت سے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے وہ سب کچھ نہیں ہوا جسے دیکھنے کے لئے مجھے گزشتہ جمعہ کی شب سے تیار کیا جا رہا تھا۔ چونکہ وہ سب نہیں ہوا جس کی توقع باندھی جا رہی تھی اس لئے مجھے قوی امید ہے کہ پانامہ کیس کے بارے میں اب سپریم کورٹ وہی فیصلہ لکھے گی جو اس موضوع پر ایک طویل اور مسلسل سماعت کے بعد لکھا جانا چاہیے وہ فیصلہ کیا ہو گا؟ میں یہ طے کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔ ایک بات البتہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حقائق عمومی طور پر اس دنیا سے قطعاََ مختلف ہوتے ہیں جو اپنے تعصبات کی بدولت ہم نے اپنے خیالوں میں بنائی ہوتی ہے۔ بہتر یہی تھا کہ اندھی نفرت اور عقیدت پر مبنی تعصبات کو PSL-2 کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے استعمال نہ کیا جاتا۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ