وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ….ہاں مگریہ رنگ مرد اساس معاشرے میں مصنوعی، عارضی اور بعض حالات میں فرضی تصور کیا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس رنگ کا ڈسکورس پوری کائنات ہے۔ عمومی طور پر یہ قضیہ پیش کیا جاتا ہے کہ عورت، پدر شاہی نظام کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں مرد اور مردانہ اوصاف عمومی انسانی قدروں کا پیمانہ ہے جب کہ عورت انسانی اوصاف سے کہیں نیچے کی، کم تر مخلوق ہے۔بیسویں صدی سے پیشتر انسانی تاریخ میں صرف دو جگہوں پر عورت کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا۔ پہلی مرتبہ دراوڑی تہذیب میں جہاں پہلی اور آخری بار معاشرہ عورت کے زیر اثر نظر آیا جب کہ دوسری بار ظہور اسلام کے بعد جب حقیقی معنوں میں عورت کو اس کا جائز حق ملا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں سماجی، سیاسی اور سائنسی میدان میں ترقی ہو رہی ہے وہیں انسانی رویے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب نہ صرف عورت اپنے حق سے آشنا ہے بل کہ بہت سے مرد بھی ان کے لیے آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں اور تانیثیت ایک باقاعدہ تحریک کے طور پرتسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے۔ ڈاکٹر رغبت شمیم ملک کے بہ قول ”نسائی تحریک نے اپنی کوشش سے نہ صرف مرد اساس سماج کی مروجہ عمارت کو Subvert کرنے کی کوشش کی بل کہ عورتوں کی گھریلو زندگی کے حقائق کو سماجی حقائق کے بطور پیش کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ عورتوں کی بھی اپنی ثقافتی اور سماجی حیثیت ہوتی ہے، عورتیں ”جسم محض“ نہیں اور نہ ہی کوئی جنسی کموڈیٹی ہیں کہ مرد جس طرح چاہے اس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔ “عورت کے حوالے سے مثبت رویے ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کا خاص موضوع ہے، اسی لیے انھوں نے تانیثیت کا عہد بہ عہد تجزیہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نبیل احمد نبیل اس کی تعریف کچھ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں”حقوقِ نسواں عمومی معنوں میں عورتوں کے مساوی حقوق کا نظریہ ہے جس کی بنیاد یا انحصار اس نظریے یا اصول پر ہے کہ مرد اور عورت کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں ۔“ ڈاکٹر صاحب نسائی تحریک کے جائزے میں اس کے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ تاریخ ایسی خواتین کی نشاندہی ضرور کرتی ہے جو غیر معمولی طاقت، اختیارات، جرات اور دیانت کی مالک تھیں تاہم یہ خواتین بہ طور فرد اُن توقعات پر پوری نہیں اتر سکیں جو اُن سے عام عورت کی صورت حال میں تبدیلی لانے کے نقطہ نظر سے وابستہ کی گئی تھیں۔ اس صورتحال میں عورت کے بارے میں مردوں کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی آنا ناگزیر تھا جس کے اثرات اٹھارویں صدی میں سامنے آئے جب عورت کو مساوی حقوق دینے کی بجائے ان کی تعلیم کا اہتمام بھی ان خطوط پر ہونے کی باتیں ہونے لگیں کہ ” عورت کی تعلیم کی سطح اور تربیت کا منصوبہ مردوں سے تعلق کی بنیاد پر بنانا چاہیے۔ یعنی مردوں کو خوش رکھنا، ان کے لیے مفید ثابت ہونا، ان کا دل جیتنا اور ان سے عزت حاصل کرنا، وہ بچے ہوں تو ان کی پرورش کرنا، بالغ ہو جائیں تو ان کی خدمت کرنا وغیرہ۔“ یہ وہ تبدیلی تھی جس سے مرد اساس معاشرے میں عورت کا کردار صفر کی حد سے بھی نیچے جا گرا لیکن جس طرح ہر عروج کو ایک زوال ہے، اسی طرح ہر نظریے کی ایک دوسرے نظریے کے ذریعے موت بھی یقینی ہے۔ انسان صدیوں تک سمجھتا رہا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، لیکن یہ نظریہ باطل ہو گیا اور ثابت ہوا کہ سورج نہیں بل کہ زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ مرد نے عورت کو غلام بنانے کے لیے پابندیوں کی جو دیوار بنائی تھی آخر کار اس میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کے مطابق میری وول اسٹون کرافٹ کی کتاب The Rights of Women شعوری طور پر پہلی تانیثی کاوش ہے جس میں نہ صرف عورت کو سامان آرائش تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا بل کہ اسے مساوی حقوق دینے کی آواز بھی اٹھائی گئی۔انیسویں صدی کے اختتام تک عورتوں کے حقوق کی آواز بڑی تیزی سے تحریک میں بدلی اور خواتین کی کئی ہلکی پھلکی عسکری تنظیمیں بھی نظر آئیں جنھوں نے خواتین کے سماجی مسائل کا کھل کر پرچار کیا۔ ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں بیسویں صدی تک آتے آتے عورتوں پر ملازمتوں کے دروازے بھی کھل گئے اور گھٹن زدہ ماحول میں زندہ رہنے والی عورت نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کروا لیا۔جہاں تک ادب کی بات ہے تو ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کی باریک بین نظریں کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے Dame Rebecca West تک جا پہنچتی ہیں جس نے اپنے آرٹیکلز میں عورت کی آزادی کا ایک واضح اور قابل عمل تصور پیش کیا۔ مغرب میں عورت کے حقوق کی آواز بلند ہوئی تو مشرق میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی اور جوش ملیح آبادی، نیاز فتح پوری اور سجاد حیدر یلدرم نے رومانی جذبات کی تسکین کے لیے ہی سہی، عورت کو ادبی دنیا میں انٹری کی اجازت ضرور دی۔ آخرکار ڈاکٹر نبیل احمد نیبل کا مشاہدہ اور مطالعہ اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں عصمت چغتائی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مرد کی مکاریوں کا پردہ چاک کرتی ہے اور جنسی غلاموں کو اپنا موضوع بناتی ہے ۔ اسی طرح قراة العین حیدر اور تنویر فاطمہ اپنی تحریروں میں مرد اساس معاشرے کے دوہرے معیار پر احتجاج کی صدا بلند کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر مغرب میں ورجینا وولف کا نام قابل غور ہے جس نے عورت کو ہر زاویے سے مرد سے مختلف قرار دیا۔وہ پوری دیانت داری سے عورت کے صنفی انصاف کی طرف توجہ بھی دلاتی ہے جب کہ تعلیمی، معاشرتی، اقتصادی اور معاشی سطح پر معاشرے میں عورت کی پسماندگی کے اسباب بھی تلاش کرتی ہے۔ تانیثی متون کی اندھیری غلام گردوشوں میں ڈاکٹر نبیل احمد نبیل اپنے فہم کا دیا روشن کرتے ہیں تو انھیں چندہ بائی ماہ لقا، زاہدہ خاتون شیروانی، رابعہ پنہاں، بلقیس جمال، کنیز فاطمہ اور صفیہ شمیم ملیح آبادی سے لے کر ادا جعفری، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، فاطمہ حسن، عذرا عباس اور سارا شگفتہ شاعرات، جب کہ عصمت چغتائی، قراةالعین حیدر، جیلانی بانو، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، خالدہ حسین اور جمیلہ ہاشمی جیسی بڑی نثرنگار خواتین نظر آتی ہیں جو اپنے فن سے نہ صرف اپنے عورت ہونے کا احساس دلا رہی ہیں بل کہ اپنے حقوق کی جنگ بھی لڑ رہی ہیں۔ ڈاکٹر نبیل احمد نبیل اپنی تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عورت نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران مرد کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ شائد اسی طرف ہندستان کے معروف مفکر ڈاکٹر رغبت شمیم ملک نے بھی اشارہ دیا ہے۔ ان کے بہ قول ”اُردو میں بھی تانیثیت کا دائرہ تنگ نہیں ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ عورتیں اب کسی مرد نقاد و مورخ کی محتاج محض نہیں ہیں۔ وہ اپنی تاریخ اور اپنا ادب خود لکھ رہی ہیں….اُن کے پاس اب اپنی زبان، اپنا ڈکشن اور اپنا ادب ہے۔ وہ تانیثی ادب کے تاریخی حقائق کو بڑی بے باکی سے رقم کر رہی ہیں اور سابقہ متون میں غلطی اور تاریخ کے غلط رویوں کو بھی نشان زد اور Deconstruct کر رہی ہیں۔“
فیس بک کمینٹ