ڈاکٹربیدل حیدری کا انتقال 7 مارچ 2004 ء کو ہوا۔ انہیں ہم سے بچھڑے 13 برس بیت گئے۔ بیدل حیدری اپنی زندگی میں بھی شاگردوں کے حوالے سے متنازعہ رہے،کون ان کا شاگرد تھا اور کون نہیں؟ کسے وہ غزلیں عطا کرتے تھے اور کسے اپنی مطبوعہ غزلیں معمولی ردو بدل کے بعد دان کر دیتے تھے؟ یہ سب ہم نے ان کی زندگی میں ان سے بارہا سنا۔ اس بارے میں وہ خود بھی انٹرویوز اور خطوط میں اظہارخیال کرتے رہتے تھے ۔ان کی وفات کے بعد بھی اس حوالے سے بحثیں جاری رہتی ہیں اور وہ اپنی شاعری اور شاگردوں کے حوالے سے وفات کے 13برس بعد بھی زیربحث ہیں ۔گزشتہ دنوں پرانے اخبارات کے انبار سے 1988ء کے روزنامہ امروز کے دو ادبی ایڈیشن سامنے آ گئے، 29 برس قبل بیدل حیدری کی زندگی میں بھی یہ بحث عروج پر تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ان دو ایڈیشنوں میں شائع ہونے والے خطوط بیدل صاحب کی برسی پر سامنے لا رہا ہوں۔ ایک خط بیدل حیدری کے شاگردِ خاص اور میرے عزیز دوست اطہر ناسک کا ہے، اور دوسرا خط اُس کے جواب میں بہاولپور سے فیضان عارف نے تحریرکیا تھا یقیناً یہ خطوط اس حوالے سے دلچسپ بھی ہیں اور ان کے نتیجے میں کئی سوالات بھی جنم لیں گے۔دس مارچ 1988ء کو شائع ہونے والے خط میں اطہر ناسک رقم طراز ہیں۔
’’آج 25 فروری کے ادبی ایڈیشن میں کسی عابد مخدوم پوری کے نام سے ایک خط شائع ہواہے جس میں ڈاکٹر بیدل حیدری پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کلینک پر آنے والے ہر شاعر کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ان سے اصلاح لینے کی غرض سے آیا تھا، نیز یہ کہ خادم رزمی، سلیم کوثر اور عباس تابش میں سے کوئی بھی بیدل حیدری کا شاگرد نہیں ہے۔ اس خط کی اشاعت سے کم ازکم مجھے تو دلی خوشی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو بیدل حیدری کے بینچوں پر بیٹھ کر علم عروض اور گرامر کا درس لیتے رہے ہیں اور آج کل اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بیدل حیدری کی نفی کر رہے ہیں، وہ کھل کر سامنے آ گئے ہیں، کیونکہ مجھے خبر ہے کہ عابد مخدوم پوری کے پردے میں کون چھپا ہوا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بیدل حیدری کی 30 سالہ ادبی خدمات کو تسلیم کرایا جائے اور یہ کام اسی قسم کے خطوط سے تحریک ملنے پر ہی مکمل ہو سکتا ہے۔دراصل یہ بیدل حیدری کی بدنصیبی ہے کہ انہوں نے 20 سال قبل لاہور جیسے ادبی مرکز کو چھوڑ کر کبیروالا جیسے بنجر علاقے میں بسیرا کیا۔ لیکن یہ اس علاقے کی خوش قسمتی ہے کہ بیدل حیدری کی وجہ سے اسے نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک بھی شہرت ملی ۔
شائد میں اور اختر شمار، بیدل حیدری صاحب کے’’ واحد‘‘ دو شاگرد ہیں جنہیں ان کا شاگرد ہونے پر ہمیشہ فخر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب بھر کے اکثر نوجوان شعراء اپنی غزلیں بیدل حیدری کو اصلاحات کے لئے بھیجتے رہتے ہیں اور حتی المقدور اُن کی خدمت بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن یہ بیدل صاحب کا ظرف ہے کہ انہوں نے کبھی بھی استاد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ جہاں تک میرے علم میں ہے کہ بیدل صاحب کے کلینک پر قمر رضا شہزاد اورحسنین اصغر تبسم سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔ اس دوران مختلف ادبی مسائل کے علاوہ فنِ شعر پر بھی بحثیں ہوتی رہتی ہیں لیکن بیدل حیدری نے کبھی بھی ان دونوں نوجوان شاعروں کو اپنا شاگرد نہیں کہا بلکہ اپنے بیٹوں کی طرح سمجھا ہے۔حالانکہ مجھے بیدل صاحب کے حلقہء تلمذ میں لانے والوں میں یہ دونوں نوجوان بھی شامل تھے۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ خادم رزمی، سلیم کوثر اور عباس تابش بیدل صاحب کے شاگرد ہیں یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بیدل حیدری نے استادی کا ان پر دعویٰ ہی نہیں کیا، اور دوسری بات یہ کہ حقیقت میں بیدل صاحب نے کسرِ نفسی سے کام لیا ہے۔ کیونکہ شعرائے تلمبہ پر مشتمل ایک کتاب ’’تاروں کی برات‘‘ ایک مدت قبل شائع ہوئی تھی۔ اس میں خادم رزمی صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ کیفی جام پوری کے بعد میں نے بیدل حیدری سے مشورہ سخن کیا۔ میں اسے خادم رزمی صاحب کی اعلیٰ ظرفی سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ نے انہیں جو مقام ومرتبہ عطاء کیا ہے اس میں ان کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی شامل ہے۔
کبیروالا کے بہت سے لوگ جانتے ہیں اور مجھے میرے محترم بزرگ ناظم حیدری نے بتایا تھا کہ جب سلیم کوثر بہت چھوٹے تھے تو بیدل صاحب کے پاس ہی رہتے تھے۔ ان کی ابتدائی تربیت بیدل صاحب کے گھر میں ہی ہوئی تھی، باقی جہاں تک عباس تابش کا تعلق ہے تو میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہوں گا کہ بات ’’ظرف ‘‘ پر آ کرختم ہو گی۔
میں اپنی معلومات کی حد تک دو وضاحتیں مزید کرنا چاہتا ہوں، ایک تو یہ کہ بہت سے لوگ خصوصاََ نوجوان شعراء ایسے ہیں جو بیدل حیدری کی فنی عظمت سے متاثر ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں لیکن ان کے شاگرد ہرگز نہیں ہیں۔ ان میں چیچہ وطنی کے ادریس قمر، اکرام الحق سرشار اور مقبول گوہر، تلمبہ کے رفیق رائے، خانیوال کے عطاء شہزاد،مقبول حیدری، طاہر نسیم، شفقت منیر، لودھراں کے مبشر وسیم لودھی، بہاولپور کے سرور ناز اور فیضان عارف، بھکر کے کردار صدیقی،ملتان کے شوذب کاظمی،مصدق اقبال، اظہر علی، ازرق ادیم، عباس ملک، شفیق آصف، شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی، نوازش علی ندیم، طاہر عاقب وغیرہ شامل ہیں اور جو نوجوان شاعر بیدل صاحب کو اپنا مرشد اور استاد تسلیم کرتے ہیں ان میں اطہر ناسک، اختر شمار، کیف عرفانی (گجرات) مظہر قلندرانی (مظفرگڑھ) اقبال جاوید، حمید الزماں راز (بہاولپور) عقیل رحمانی، شام جعفری، شوکت مہدی، قمر بشیر، شہزاد فیضی (خانیوال) شکیل سروش (چیچہ وطنی ) ارشاد جالندھری (عبدالحکیم ) مظہربخاری (میاں چنوں ) محبوب عالم شاہد، صادق راہی (مخدوم پور) مبین مرزا، شاہین کہروڑی، ناصربشیر راٹھور (ملتان ) شامل ہیں۔مظہرندیم نے اپنی ڈائری میں جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل بیدل حیدری کے ایک طویل انٹرویو سے اخذ کی گئی ہیں یہ انٹرویو میں نے رضی الدین رضی اور طفیل ابن گُل کے ہمراہ ریکارڈ کیا تھا۔ اس انٹرویو کی بہت سے باتیں آف دی ریکارڈ ہیں اور مجھے بیدل صاحب نے حکم دیا ہے کہ ان کی زندگی میں انہیں منظر عام پر نہ لایا جائے تاہم اس انٹرویو کے بہت سے حصے شائع ہوں تو بہت سے چہرے بے نقاب ہو سکتے ہیں‘‘
یہ تو ہوگیا اطہر ناسک کاخط اور اس خط میں جس انٹرویو کا ذکر ہے اس میں بلاشبہ بیدل صاحب نے بہت سنسنی خیز انکشافات کئے تھے اور یہاں تک کہا تھا کہ کشور ناہید کی پہلی کتاب میں میری دی ہوئی غزلیں شامل ہیں۔ یہ انٹرویو ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے کچھ قابل اشاعت حصے اس زمانے میں کہیں شائع بھی ہوئے۔ لیکن بعد ازاں انٹرویو کی کیسٹوں کے بارے میں اطہر ناسک نے اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا کہ وہ کہیں گم ہوگئی ہیں۔ یہ تو تھا اطہر ناسک کا خط۔۔ اب اسی خط کے جواب میں7 اپریل 1988ء کو شائع ہونے والا فیضان عارف کا خط ملاحظہ کیجئے وہ لکھتے ہیں
’’10 مارچ کی اشاعت میں برادرم اطہر ناسک کا مراسلہ نظر سے گزرا۔ انہوں نے جس بے باکی سے محترم ڈاکٹر بیدل حیدری اور ان سے متعلقہ لوگوں کا احاطہ کیا وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔ گزشتہ چار پانچ برس سے بیدل صاحب اور ان کے شاگردوں کا مسئلہ خاصا متنازعہ ہے۔ چلیں اطہرناسک نے اس سلسلے میں بات تو کچھ واضح کی۔ ہاں اگر وہ ان باتوں کو بھی تحریر کر دیتے جو بیدل صاحب کے ایک انٹرویو میں آف دی ریکارڈ ہیں تو مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔میرا خیال ہے سچ اورحق بات کو پوشیدہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ ایک فنکار کو یہ زیب نہیں دیتا۔ اطہر ناسک سے معذرت کے ساتھ
جس سے حق بات کا اظہار نہیں ہو سکتا
کچھ بھی ہو سکتا ہے فنکار نہیں ہو سکتا
زیرِنظر مراسلے میں اطہر ناسک ایک دو جگہوں پر ڈنڈی مار گئے۔ مثلاََ بیدل حیدری کے شاگردوں میں سلیم کوثر کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ تقریباََ ایک سال پہلے میں کراچی گیا تھا تو سلیم کوثر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور یہ مسئلہ بھی زیربحث آیا۔ مگر انہوں نے تو واضح طور پر کہا کہ بیدل حیدری ان کے استاد ہیں اور میرا خیال ہے سلیم کوثر جھوٹ نہیں بول سکتا۔
اسی طرح انہوں نے بہاولپورکے زمر ے میں اقبال جاوید اور حمید الزماں راز کو بیدل صاحب کا شاگرد کہا ہے۔جہاں تک اقبال جاوید کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ یہ شخص شاعر نہیں اسی مراسلے میں قمر رضا شہزاد اور حسنین اصغر تبسم کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ان دونوں نوجوانوں کا مسئلہ بھی بڑا عجیب ہے تقریباََ چار سال پہلے یہ لوگ طاہر تونسوی کے ساتھ ایک مرتبہ بہاولپور آئے تھے، قمر رضا شہزاد نے خود مجھے کہا تھا کہ یار ہمیں جو کچھ بنایا ہے طاہر تونسوی نے بنایا۔ جہاں تک بیدل صاحب کے فنی حوالوں کا تعلق ہے اس کا میں ہی کیا ہر وہ شخص معترف ہے جس نے بیدل حیدری کے اشعار کو پڑھا یا سنا ہے۔ ان کی ایک ایک غزل بعض شاعروں کے پورے پورے دیوان پر بھاری ہے۔ مگر معلوم نہیں بیدل صاحب کس غلط پالیسی کا شکار ہیں کہ ان کو بحیثیت شاعر وہ پذیرائی، مقام اور شہرت نصیب نہیں ہوئی جس کے وہ مستحق ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ بیدل صاحب سے کوئی مس انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے۔ بقول خود ان کے
بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا‘‘
فیس بک کمینٹ