بالآخر پی ایس ایل کا گردن توڑ بخار پشاور زلمی کی فتح پر اختتام پذیر ہوا۔ اہل پاکستان نے عموماً اور لاہوریوں نے خصوصاً ایک ایسا ماحول بنایا جو دہشت گردی کے خلاف نہ صرف قومی یکجہتی کا مظہر تھا بلکہ دہشت گردوں کی حالیہ کارروائیوں کے خلاف عوام کا جوابی ریفرنڈم بھی تھا۔ اس ریفرنڈم میں عوام کامیاب ٹھہرے مگر کیا یہ کامیابی کافی ہے؟ کیا دہشت گردوں کے لیے یہ جواب حتمی ہے؟ کیا اس کے بعد ہر طرف سکون اور امن ہوگا؟ کیا یہ ردعمل حرف آخر ہے؟ اور کیا راوی اب چین لکھتا ہے؟ نہیں! یہ ایک ابتدا ہے۔ ایک اور ابتدا۔ نئے سرے سے ایک پہلا قدم۔ فائنل سے پہلے رانا قنوطی ملا۔ کہنے گلا یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے پوچھا یہ ایک انتہائی مبہم اور نامکمل سوال ہے۔ کہنے لگا، یہی پی ایس ایل کا فائنل۔ سرکار کیا کر رہی ہے۔ میں نے کہا لاہور میں فائنل کروا رہی ہے۔ پھر پوچھنے لگا اس کا فائدہ؟ میں نے کہا دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ پاکستان میں امن و امان کا زمانہ لوٹ رہا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کا دروازہ نئے سرے سے کھل رہا ہے اور پاکستانی عوام دہشت گردی کو مسترد کرتی ہے۔ رانے نے نہایت ”کھچرے‘‘ انداز میں سر ہلایا، پھر نہایت مشکوک سی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا، تمہیں کسی بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر محاذ جنگ کے فرنٹ مورچے میں دبکا کر بٹھایا جائے، پھر ہدایت کی جائے کہ سر باہر نہ نکالنا ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، پھر آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ یہاں اس وقت مکمل امن و امان ہے، سکون ہے، شانتی ہے اور آپ مکمل محفوظ ہیں تو کیا تم یقین کر لو گے؟ عزیزم! ویسے بھی بندے کا محفوظ ہونا اور بات ہے اور ماحول کا محفوظ ہونا اور بات ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگاؤ؟ بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر آگے پیچھے مسلح موبائل کی نگرانی میں راستے بند کر کے گزرنے کے عمل کے دوران آپ خود تو محفوظ ہو سکتے ہیں مگر یہ سارا کھڑاک باقی لوگوں کو ضرور یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ جگہ محفوظ نہیں۔ اگر محفوظ ہوتی تو آپ کو بلٹ پروف گاڑی کی، مسلح حفاظتی دستے کی اور راستے بند کرانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جب حکمران سڑک پر آزادی سے سفر نہ کر سکیں، گورنر پنجاب جو ملتان میں مزے سے سڑکوں پر گھوما کرتے تھے اب اکیڈمی آف لیٹرز کے ملتان آفس کا افتتاح نہ کر سکیں کہ ان کو سکیورٹی کلیئرنس نہیں دی گئی، وہ باوجود وعدہ کرنے کے ملتان ٹی ہاؤس کی افتتاحی تقریب میں نہ آ سکیں کہ ان کو ایجنسیوں نے وہاں آنے سے منع کر دیا ہے اور وہ ملتان میں ہی سرکٹ ہاؤس میں بیٹھے رہیں تو آپ امن و امان کا کون سا پیغام دے رہے ہیں؟ تم خود انصاف کرو۔ کھیل کے میدان کے گرد پانچ حفاظتی حصار قائم کر کے، تیس ہزار شائقین کے لیے چونتیس ہزار اہلکار متعین کر کے، ارد گرد کے ہوٹل”سیل” کر کے قذافی سٹیڈیم کے اندر والی مسجد سمیت تین مسجدیں اور اردگرد کی ساری دکانیں بند کر کے، شادی گھروں کو خالی کروا کے، کھلاڑیوں کو سربراہ مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کر کے میچ مکمل کروا کر آپ دہشت گردوں کو تو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ ریاست ان بزدلوں سے بہرحال زیادہ طاقتور ہے لیکن دنیا کے سامنے یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل فائنل نے پاکستان میں امن و امان کی کوئی مثبت صورتحال پیش کی ہے۔ حکومت ایک پہلو پر ضرور کامیاب ہوئی ہے اور بڑے دھوم دھڑکے سے کامیاب ہوئی ہے کہ عوام نے خوف اور دہشت کو شکست فاش دی ہے اور دہشت گردوں کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا ہے لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ آپ حفاظتی انتظامات جتنے بڑھاتے جاتے ہیں اسی حساب سے اپنے عدم تحفظ کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ خود کو محفوظ رکھنے کا اہتمام جتنا زیادہ کرتے ہیں، آپ حالات کے اتنے ہی خراب ہونے اور اپنے غیر محفوظ ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ میں نے کہا، توکیا تم اس کامیابی سے یکسر انکار کر رہے ہو؟ وہ کہنے لگا، میں نے ایسا کب کہا ہے؟ میں اندرونی حالات کے تناظر میں اسے ایک بڑی فتح سمجھتا ہوں۔ حکومت اور خاص طور پر پنجاب حکومت کو اس سارے منظر نامے میں قومی حوالے سے مبارکباد دیتا ہوں، لیکن یہ سب کچھ ابتدا ہے۔ ایک بڑی اور طویل جنگ کی ابتدا جو بالکل نئے سرے سے شروع کی جائے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے اور ان کی نرسریوں کی بربادیوں تک ان کے ظاہر اور چھپے ہوئے ہمدردوں کا نام و نشان مٹانے تک۔ اقتدار کی راہداریوں میں موجود ان کے حواریوں کے تائب ہونے تک۔ جیلوں میں موجود مجرموں کو کیفر کردار کو پہنچانے تک اور سول اور ملٹری منصوبہ سازوں کے ایک پیج پر آنے تک۔ ویسے یہ ایک پیج پر ہونا کیا مزیدار اصطلاح ہے۔ ہم مزے سے اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں اور جتنا اس پر زور دیتے ہیں لوگوں کی بے اعتمادی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ جس دن کوئی وزیر یا حکمران بیان دیتا ہے کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہے، سارے عوام کو پتہ چل جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے اور اپنے اعمال اور نیت سے مشکوک لوگ جھوٹ بول کر دوسرے فریق کو مطمئن کرنے کی سعی ناکام کر رہے ہیں، جب تک یہ واقعی ایک پیج پر نہیں آتے کامیابی ممکن نہیں۔ یہ جنگ اتحاد اور یقین کے بغیر جیتنا تو ایک طرف، لڑنا بھی ممکن نہیں۔ اب بھلا ملٹری کورٹس پر حزب اختلاف کی پارٹیوں کے تحفظات اور مخالفت کی کیا وجہ ہے؟ آخر ان کو دہشت گردوں اور ان کے حواریوں سے کیا ہمدردی ہے؟ حالت جنگ میں غیر معمولی اقدامات معمول کی بات ہیں، آپ محاذ جنگ پر اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک محاذ جنگ کے پیچھے عوام میں لڑی جانے والی جنگ نہیں جیت جاتے۔ دشمن آپ کو بے یقینی کی سمت دھکیل رہا ہے۔ آپ کے اندر شکوک پیدا کر رہا ہے۔ آپ کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ اب تم دیکھو، پرسوں ملتان میں آپ کے عزیز دوست کے برادر نسبتی عمر جیلانی کو جس بے دردی اور بے رحمی سے شہید کرنے کے بعد ملتان شہر میں اس کی لاش سڑک کنارے پھینکی گئی ہے یہ کیا ہے؟ اسے دہشت گردوں کی دیدہ دلیری کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ وہ اسے آج سے تقریباً دو سال نو ماہ پہلے شہر سے اغوا کر کے لے گئے اور اب اسے شہر میں ہی واپس چھوڑ کر غائب ہو گئے۔ اوپر سے کنفیوژ کرنے کی غرض سے اسے گوانتا نامو بے والے قیدیوں جیسے کپڑے پہنا کر اس لباس کی پشت پر لکھا الداعش(الباکستان) الجاسوس، آئی ایس آئی انسپکٹر عمر مبین جیلانی، تاریخ اغوا 16جون2014ء ۔
اب یہ ساری تحریر میرے خیال میں گمراہ کرنے کے لیے ہے۔ اسے عربی داعش کا روپ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخ عربی کے بجائے انگریزی ہندسوں میں ہے۔ خوامخواہ داعش کے ساتھ”ال‘‘ لگا کر اسے عربیانے کی بھونڈی کوشش اغوا کاروں کے عربی سے نابلد ہونے کا ثبوت ہے۔ صرف دہشت زدہ کرنے، داعش کا خوف پھیلانے اور عالمی سطح پر کمپنی کی مشہوری کے لیے کی جانے والی یہ حرکت بنیادی طور پر پنجابی طالبان کی ہے۔ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان والے ایک نئی طرز کا محاذ کھولنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا ان لوگوں کے ہمدردوں میں کمی واقع ہوئی ہے؟ کیا پاکستان عام آدمی کے لیے محفوظ بن چکا ہے؟ آخر ہر دھماکے کے بعد ہی ماسٹر مائنڈ کیوں مارا جاتا ہے؟ ہمیں کیا پتہ کہ وہ ماسٹر مائنڈ تھا یا محض آلہ کار؟ آخر ہم دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے زبانی بیان سے آگے کب جائیں گے؟ سول ملٹری سٹریٹیجی ایک پیج پر کب آئے گی؟ یہ سوالات اپنے جوابات تک اٹھتے رہیں گے۔
افواہوں پر پابندی کون لگائے گا؟ سوشل میڈیا کو ضابطے کا پابند کون کرے گا؟ اب دیکھو، اسی پی ایس ایل کے فائنل کی ٹکٹوں بارے کیا لکھا گیا؟ ن لیگ کے گلو بٹوں کی قذافی سٹیڈیم میں بڑی تعداد کا سارا پراپیگنڈہ صرف پراپیگنڈہ ہی ثابت ہوا۔ گو نواز گو کے نعرے مارنے والی منجائی اور دھلائی کی ساری افواہیں صرف افواہیں ہی ثابت ہوئیں۔ گو نواز گو والوں نے اپنی موجودگی ثابت کی اور زور دار طریقے سے ثابت کی۔ کسی کی پھینٹی نہ لگی۔ جعلی ٹکٹوں والے ہزاروں متوالے کہیں نظر نہ آئے۔ ممکن ہے دبک گئے ہوں مگر بہرحال دکھائی تو نہ دیے۔
میں نے تنگ آ کر کہا، رانے تم کس کے ساتھ ہو اور کیا کہنا چاہتے ہو؟ رانا کہنے لگا میں حقائق کے ساتھ ہوں، سچائی کے ساتھ ہوں اور سچ بولنا چاہتا ہوں۔ پی ایس ایل فائنل پاکستانیوں کا دہشت گردوں کے خلاف ریفرنڈم تھا جو وہ جیت گئے، اب باقی جنگ سرکارنے لڑنی ہے کہ پاکستان کو محفوظ بنانا ان کا کام ہے۔ عوام نے اپنے حصے کا کام نہ صرف کیا ہے بلکہ خوب کیا ہے۔ اگر حکومت اس سے آدھے جذبے سے بھی آپریشن کرے تو کامیابی ان کے قدم چومے گی، حکومت کو محض عوام کی فتح پر خوشی منانے اور اس ریفرنڈم میں فتح کے بعد ستو پی کر سو نہیں جانا چاہیے،ان کا کام اب شروع ہوا ہے۔ یہ ایک اچھے آغاز کی شروعات ہیں اختتام نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ