پہلے افضل خان گئے اور اب منّو بھائی بھی۔ دونوں اکثر ساتھ بیٹھے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ طے کرتے پائے جاتے کہ ان دونوں میں سے پہلے کون مرے گا اور تعزیتی کالم لکھتے وقت کون کسے ’’بے نقاب‘‘ کردے گا۔ دونوں ہی کو مہلت نصیب نہ ہوئی۔ مجھ ایسے کئی ’’چھوٹے‘‘ البتہ یک دم بے آسرا ہو گئے ہیں۔ کڑی دھوپ کے سفر میں فرحت دیتی چھائوں سے محروم۔میری بیوی کو منّو بھائی کے رخصت ہو جانے کی خبر مجھ سے پہلے ملی۔ گھبرا کر میرے کمرے میں آئی اور پریشان ہو کر کہا: ’’نصرت آپ کے سارے… (اس کے بعد شاید سہارے کہنا چاہ رہی تھی) لڑھکنا شروع ہو گئے ہیں۔ آپ ڈر گئے ہوں گے۔‘‘ میں جواباً کچھ کہہ نہیں پایا۔
یادوں کے ہجوم میں سے لپک کرایک منظر ذہن میں اٹک گیا ہے۔ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ ہم بنگلہ دیش میں تھے۔ ڈھاکا میں کوئی شاپنگ مال کھلا تھا۔ وہاں بنگال کی ’’سوغاتیں‘‘ فروخت ہوتی تھیں۔ نودولتیوں کا وہاں جانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مجھے شاپنپہلے افضل خان گئے اور اب منّو بھائی بھی۔ دونوں اکثر ساتھ بیٹھے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ طے کرتے پائے جاتے کہ ان دونوں میں سے پہلے کون مرے گا اور تعزیتی کالم لکھتے وقت کون کسے ’’بے نقاب‘‘ کردے گا۔ دونوں ہی کو مہلت نصیب نہ ہوئی۔ مجھ ایسے کئی ’’چھوٹے‘‘ البتہ یک دم بے آسرا ہو گئے ہیں۔ کڑی دھوپ کے سفر میں فرحت دیتی چھاؤ ں سے محروم۔میری بیوی کو منّو بھائی کے رخصت ہو جانے کی خبر مجھ سے پہلے ملی۔ گھبرا کر میرے کمرے میں آئی اور پریشان ہو کر کہا: ’’نصرت آپ کے سارے… (اس کے بعد شاید سہارے کہنا چاہ رہی تھی) لڑھکنا شروع ہو گئے ہیں۔ آپ ڈر گئے ہوں گے۔‘‘ میں جواباً کچھ کہہ نہیں پایا۔
یادوں کے ہجوم میں سے لپک کرایک منظر ذہن میں اٹک گیا ہے۔ صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ ہم بنگلہ دیش میں تھے۔ ڈھاکا میں کوئی شاپنگ مال کھلا تھا۔ وہاں بنگال کی ’’سوغاتیں‘‘ فروخت ہوتی تھیں۔ نودولتیوں کا وہاں جانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مجھے شاپنگ مالز سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ دوستوں کو مگر غچہ نہ دے پایا۔ وہاں پہنچتے ہی تمام ساتھی دکانوں میں گھس گئے۔ میں درمیانی ہال کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیزاری سے سگریٹ پھونکتا رہا۔اچانک منّو بھائی پر نگاہ ٹک گئی۔ مردانہ کپڑوں کی ایک دکان تھی۔ اس میں داخل ہوتے ہی نظر گہرے نیلے رنگ کے ایک کرتے کی طرف جاتی جسے جوان دِکھتے لڑکے کے مجسمے نے پہن رکھا تھا۔ منّوبھائی مبہوت ہوئے اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک دوبار اُنگلیوں سے کپڑے کا جائزہ بھی لیا۔ دکان سے باہرآکر کسی فلم کے ڈائریکٹر کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے مختلف زاویوں سے اس مجسمے کا جائزہ لیتے رہے۔ پھر اچانک مجھے دیکھا اور پوچھا میری قمیض کا سائز کیا ہے۔ میں نے بے دلی سے بتا دیا تو کہا کہ ذرا میرے ساتھ چل کر یہ کرتا Try کرو۔ بخدا میں یہ سمجھا کہ اپنے کسی عزیز کے لئے خریدنا چاہ رہے ہیں۔ سائز کے بارے میں مطمئن نہیں ہو رہے۔ انہیں کسی بات پر ناں کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ ساتھ ہو لیا۔ ٹرائی روم میں گیا۔ کرتا پہنا۔ انہیں دکھایا۔ وہ کھل اُٹھے۔ کرتا خرید لیا۔ وہ پیک ہوا تو اسے میرے حوالے کرتے ہوئے بولے ’’تیرے لئی خریدیا‘‘۔ میں شکریہ بھی ادا نہ کر پایا۔ہوٹل لوٹے تو حکم ہوا کہ ڈنر کی دعوت کے لئے مجھے وہ کرتا پہننا ہو گا۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ دعوت میں گئے تو میرے ساتھ میز پر بیٹھے رہے۔ ہمارے ساتھ گئے دوستوں کو مسلسل بتاتے رہے کہ وہاں موجود لوگ ’’ساڈے منڈے‘‘ کو سراہ رہے ہیں۔ فخر بھری مسرت اور شدید اطمینان کہ ان کا میرے لئے وہ کرتا خریدنا ایک بہت ہی زبردست فیصلہ تھا۔
تعلق میرا ان کے ساتھ 1970ء کی دہائی میں بن چکا تھا۔ وہ لاہور ٹیلی وژن کے لئے ایک کھڑکی توڑ رش لینے والی ڈرامہ سیریز لکھ رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان کی دیوار کے سائے میں دھوپ ڈھلنے کے وقت لوہے کی کرسیاں ڈال کر ایک شخص چائے بیچتا تھا۔ استاد امانت علی خان اکثر وہاں آ جاتے۔ وجیہہ امانت علی خان محض اپنے شعبے کے استاد گلوکار ہی نہیں دل موہ لینے والی گفتگو کرنے میں بھی بے بدل تھے۔ ’’وہ کہے اور سناکرے کوئی‘‘ والا معاملہ۔اپنی نشست سنبھالتے ہی مگر وہ ’’منّو کتھے وے‘‘ پر اٹک جاتے۔ ان کے بغیر خود میں کھوئے ماچس کو انگلیوں میں دبا کر تال کے سہارے سے کوئی سر لگا کر بتانا شروع ہو جاتے کہ راگ مالکونس کیسے چندرکونس ہو جاتا ہے۔ لیکچر مگر ختم نہ ہوتا۔ ’’منّو کتھے وے‘‘ کا سوال برقرار۔ بالآخر وہ آ جاتے تو امانت علی خان کو روانی نصیب ہو جاتی۔ استاد عاشق علی خان کا ذکر۔ فریدہ خانم اور زاہدہ پروین کی کہانیاں اور ان کی سنگت کے حوالے سے مشہور ہوئے چند طبلہ نواز اور سارنگی نوازوں کے قصے جو ان خواتین کے یک طرفہ عشق میں مضحکہ خیز بن گئے۔ میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ امانت علی خان کو اپنی گفتگو کی روانی کے لئے منّو بھائی کی موجودگی کیوں درکار تھی۔
پھر میں اسلام آباد آ گیا۔ میری شادی ہو گئی۔ اس کے چند ماہ بعد لاہور گیا تو ملاقات ہوئی۔ بہت دھڑلے سے مجھے اطلاع دی کہ وہ میرے ’’سسرائیلی‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں مجھے اپنی اوقات میں رہنا ہو گا۔ اپنے سکول کے چند ایام میرے سسرنے ان کے ساتھ گزارے تھے۔ میری ساس گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کے دیرینہ دوست جاوید شاہین کی ہم جماعت تھیں۔ لہٰذا میں اب ان کا داماد ہو چکا تھا۔ وہ سسرال والی شفقت دیں گے مگر ’’اسرائیل‘‘ کی طرح میری ’’خباثتوں‘‘ پر کڑی نگاہ بھی رکھیں گے۔میری بیوی اور بچیوں سے ان کی تین یا چار سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ جب بھی ان کے ساتھ مگر کسی سفر پر روانہ ہوتا تو ہر ایک کا نام لے کر فرداً فرداً تفصیلی احوال دریافت کرتے۔ سفر سے گھر لوٹتے ہوئے سوال صرف ایک کہ ان تینوں کے لئے کیا لیا ہے۔ میں اکثر گول کرتا نظر آتا تو فکرمند ہو کر سمجھاتے کہ باپ کو خالی ہاتھ گھر واپس نہیں لوٹنا چاہئے۔ بیٹیاں بڑی نعمت اور بھرپور پیار کی حق دار ہوتی ہیں۔ ’’نجانے ان کے نصیب میں کون (یہاں ایک موٹی سی گالی) لکھا ہے‘‘۔ بلاغرض شفقت تو صرف باپ ہی فراہم کر سکتا ہے۔ دنیا کے ہر شہر کی ایک خاص سوغات ہوتی ہے۔ وہاں جانے کا موقعہ ملے تو گھر لوٹتے ہوئے وہ سوغات ضرور ساتھ لے کر جاؤ ۔ بچیاں خوش ہو جاتی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا جاتی اور میں حیران کہ ایک ’’ترقی پسند انقلابی‘‘ کی شہرت رکھنے والا منّو بھائی درحقیقت کتنا قدامت ور وایت پرست ہے۔
منّو بھائی کو اپنے پیشے کے اعتبار سے بہت مشہوری اور کامرانی نصیب ہوئی۔ مستقل عاجزی مگر ان کی جبلت بن چکی تھی۔ ذکر ہمیشہ اپنی محرومیوں کا کرتے۔ اپنی کوتاہیوں کا تمسخر اڑاتے۔ انہیں پہلا عشق ہوا تو محبوبہ کا ہاتھ تھاما۔ اس نے پنجابی میں وعدہ لیا کہ اب وہ یہ ہاتھ کبھی چھوڑیں گے نہیں۔ سینکڑوں بار انہوں نے یہ واقعہ سنایا ہے۔ ہر بار مگر ان کے لہجے اور اندازِ بیان نے اسے ایک نیا Shade دیا۔ تاسف، ملال، بچپن کی سادگی اور معصومیت۔ Shades ہی Shades۔ان کے والد ریلوے کے ایک چھوٹے سٹیشن کے ہیڈ تھے۔ سالانہ معائنے کے لئے ایک انگریز افسر آیا تو منّو بھائی سمیت تمام گھر والوں نے ان کی والد کی وردی اس پر لگے بٹن اور جوتے چمکائے تھے۔ لش لش کرتے سٹیشن سے انگریز افسر واپس جا رہا تھا تو وہاں کے کمرۂ آرام میں موجود ایک تیل سے جلائے لیمپ کو دیکھا۔ اس لیمپ میں اپنی انگلی ڈالی اور چمنی پر کسی نہ کسی طرح باقی رہ گئی سیاہی کو اپنی انگلی پر لگا کر ان کے والد کی سفید وردی پر سزا کے نشان کی صورت لگا کر رخصت ہو گیا۔
مجھے یقین ہے کہ منّو بھائی کی زبان میں آئی ہکلاہٹ کی اصل وجہ وہ واقعہ تھی۔ اس واقعے نے زندگی کی ابتداء ہی میں انہیں طاقت وروں کے رُعب اور استبداد سے آشنا کر دیا تھا۔ خواہش ان کی تاعمر یہ رہی کہ ذلتوں کے مارے لوگ اپنی خوشی کے امکانات ڈھونڈتے رہیں۔ مال وزر اورریاستی قوت والے مگر بہت تگڑے ہوتے ہیں۔ ان سے نجات شاید ممکن نہیں۔ اپنی فتح کا مکمل یقین نہ رکھنے کے باوجود مگر کمزوروں اور بے وسیلہ لوگوں کو مزاحمتی رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے برقرار کھنا چاہئے۔
منّو بھائی کی عاجزی حقیقی تھی۔ تصنع سے پاک۔ مزاح درحقیقت ان کا مزاحمتی ہتھیار تھا۔ اپنی بے کسی اور محرومی کا مستقل مذاق اڑاتے ہوئے انہوں نے زندگی کو ڈٹ کر گزارنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ اس ہنر نے انہیں قناعت بخشی اور مجھ ایسے چھوٹوں کو حوصلہ۔ ان کی شخصیت اور رویے نے سمجھایا کہ دُکھی لوگ اکیلے نہیں ہوتے۔ وہ بے شمار ہیں۔ انہیں یک جا ہو کر اپنے مقصد پر رونے کی بجائے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کا ڈھنگ سیکھنا چاہئے۔ کھال مست اور حال مست والا صوفیانہ استغنائ۔ منّو بھائی اس کا مجسم اور بہت ہی خوب صورت اظہار تھے۔گ مالز سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ دوستوں کو مگر غچہ نہ دے پایا۔ وہاں پہنچتے ہی تمام ساتھی دکانوں میں گھس گئے۔ میں درمیانی ہال کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیزاری سے سگریٹ پھونکتا رہا۔
اچانک منّو بھائی پر نگاہ ٹک گئی۔ مردانہ کپڑوں کی ایک دوکان تھی۔ اس میں داخل ہوتے ہی نظر گہرے نیلے رنگ کے ایک کرتے کی طرف جاتی جسے جوان دِکھتے لڑکے کے مجسمے نے پہن رکھا تھا۔ منّوبھائی مبہوت ہوئے اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک دوبار اُنگلیوں سے کپڑے کا جائزہ بھی لیا۔ دکان سے باہرآکر کسی فلم کے ڈائریکٹر کی طرح کمر پر ہاتھ رکھے مختلف زاویوں سے اس مجسمے کا جائزہ لیتے رہے۔ پھر اچانک مجھے دیکھا اور پوچھا میری قمیض کا سائز کیا ہے۔ میں نے بے دلی سے بتا دیا تو کہا کہ ذرا میرے ساتھ چل کر یہ کرتا Try کرو۔ بخدا میں یہ سمجھا کہ اپنے کسی عزیز کے لئے خریدنا چاہ رہے ہیں۔ سائز کے بارے میں مطمئن نہیں ہو رہے۔ انہیں کسی بات پر ناں کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ ساتھ ہو لیا۔ ٹرائی روم میں گیا۔ کرتا پہنا۔ انہیں دکھایا۔ وہ کھل اُٹھے۔ کرتا خرید لیا۔ وہ پیک ہوا تو اسے میرے حوالے کرتے ہوئے بولے ’’تیرے لئی خریدیا‘‘۔ میں شکریہ بھی ادا نہ کر پایا۔
ہوٹل لوٹے تو حکم ہوا کہ ڈنر کی دعوت کے لئے مجھے وہ کرتا پہننا ہو گا۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ دعوت میں گئے تو میرے ساتھ میز پر بیٹھے رہے۔ ہمارے ساتھ گئے دوستوں کو مسلسل بتاتے رہے کہ وہاں موجود لوگ ’’ساڈے منڈے‘‘ کو سراہ رہے ہیں۔ فخر بھری مسرت اور شدید اطمینان کہ ان کا میرے لئے وہ کرتا خریدنا ایک بہت ہی زبردست فیصلہ تھا۔
تعلق میرا ان کے ساتھ 1970ء کی دہائی میں بن چکا تھا۔ وہ لاہور ٹیلی وژن کے لئے ایک کھڑکی توڑ رش لینے والی ڈرامہ سیریز لکھ رہے تھے۔ ریڈیو پاکستان کی دیوار کے سائے میں دھوپ ڈھلنے کے وقت لوہے کی کرسیاں ڈال کر ایک شخص چائے بیچتا تھا۔ استاد امانت علی خان اکثر وہاں آ جاتے۔ وجیہہ امانت علی خان محض اپنے شعبے کے استاد گلوکار ہی نہیں دل موہ لینے والی گفتگو کرنے میں بھی بے بدل تھے۔ ’’وہ کہے اور سناکرے کوئی‘‘ والا معاملہ۔
اپنی نشست سنبھالتے ہی مگر وہ ’’منّو کتھے وے‘‘ پر اٹک جاتے۔ ان کے بغیر خود میں کھوئے ماچس کو انگلیوں میں دبا کر تال کے سہارے سے کوئی سر لگا کر بتانا شروع ہو جاتے کہ راگ مالکونس کیسے چندرکونس ہو جاتا ہے۔ لیکچر مگر ختم نہ ہوتا۔ ’’منّو کتھے وے‘‘ کا سوال برقرار۔ بالآخر وہ آ جاتے تو امانت علی خان کو روانی نصیب ہو جاتی۔ استاد عاشق علی خان کا ذکر۔ فریدہ خانم اور زاہدہ پروین کی کہانیاں اور ان کی سنگت کے حوالے سے مشہور ہوئے چند طبلہ نواز اور سارنگی نوازوں کے قصے جو ان خواتین کے یک طرفہ عشق میں مضحکہ خیز بن گئے۔ میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ امانت علی خان کو اپنی گفتگو کی روانی کے لئے منّو بھائی کی موجودگی کیوں درکار تھی۔
پھر میں اسلام آباد آ گیا۔ میری شادی ہو گئی۔ اس کے چند ماہ بعد لاہور گیا تو ملاقات ہوئی۔ بہت دھڑلے سے مجھے اطلاع دی کہ وہ میرے ’’سسرائیلی‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں مجھے اپنی اوقات میں رہنا ہو گا۔ اپنے سکول کے چند ایام میرے سسرنے ان کے ساتھ گزارے تھے۔ میری ساس گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کے دیرینہ دوست جاوید شاہین کی ہم جماعت تھیں۔ لہٰذا میں اب ان کا داماد ہو چکا تھا۔ وہ سسرال والی شفقت دیں گے مگر ’’اسرائیل‘‘ کی طرح میری ’’خباثتوں‘‘ پر کڑی نگاہ بھی رکھیں گے۔
میری بیوی اور بچیوں سے ان کی تین یا چار سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ جب بھی ان کے ساتھ مگر کسی سفر پر روانہ ہوتا تو ہر ایک کا نام لے کر فرداً فرداً تفصیلی احوال دریافت کرتے۔ سفر سے گھر لوٹتے ہوئے سوال صرف ایک کہ ان تینوں کے لئے کیا لیا ہے۔ میں اکثر گول کرتا نظر آتا تو فکرمند ہو کر سمجھاتے کہ باپ کو خالی ہاتھ گھر واپس نہیں لوٹنا چاہئے۔ بیٹیاں بڑی نعمت اور بھرپور پیار کی حق دار ہوتی ہیں۔ ’’نجانے ان کے نصیب میں کون (یہاں ایک موٹی سی گالی) لکھا ہے‘‘۔ بلاغرض شفقت تو صرف باپ ہی فراہم کر سکتا ہے۔ دنیا کے ہر شہر کی ایک خاص سوغات ہوتی ہے۔ وہاں جانے کا موقعہ ملے تو گھر لوٹتے ہوئے وہ سوغات ضرور ساتھ لے کر جائو۔ بچیاں خوش ہو جاتی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا جاتی اور میں حیران کہ ایک ’’ترقی پسند انقلابی‘‘ کی شہرت رکھنے والا منّو بھائی درحقیقت کتنا قدامت ور وایت پرست ہے۔
منّو بھائی کو ٓاپنے پیشے کے اعتبار سے بہت مشہوری اور کامرانی نصیب ہوئی۔ مستقل عاجزی مگر ان کی جبلت بن چکی تھی۔ ذکر ہمیشہ اپنی محرومیوں کا کرتے۔ اپنی کوتاہیوں کا تمسخر اڑاتے۔ انہیں پہلا عشق ہوا تو محبوبہ کا ہاتھ تھاما۔ اس نے پنجابی میں وعدہ لیا کہ اب وہ یہ ہاتھ کبھی چھوڑیں گے نہیں۔ سینکڑوں بار انہوں نے یہ واقعہ سنایا ہے۔ ہر بار مگر ان کے لہجے اور اندازِ بیان نے اسے ایک نیا Shade دیا۔ تاسف، ملال، بچپن کی سادگی اور معصومیت۔ Shades ہی Shades۔
ان کے والد ریلوے کے ایک چھوٹے سٹیشن کے ہیڈ تھے۔ سالانہ معائنے کے لئے ایک انگریز افسر آیا تو منّو بھائی سمیت تمام گھر والوں نے ان کی والد کی وردی اس پر لگے بٹن اور جوتے چمکائے تھے۔ لش لش کرتے سٹیشن سے انگریز افسر واپس جا رہا تھا تو وہاں کے کمرۂ آرام میں موجود ایک تیل سے جلائے لیمپ کو دیکھا۔ اس لیمپ میں اپنی گلی ڈالی اور چمنی پر کسی نہ کسی طرح باقی رہ گئی سیاہی کو اپنی انگلی پر لگا کر ان کے والد کی سفید وردی پر سزا کے نشان کی صورت لگا کر رخصت ہو گیا۔
مجھے یقین ہے کہ منّو بھائی کی زبان میں آئی ہکلاہٹ کی اصل وجہ وہ واقعہ تھی۔ اس واقعے نے زندگی کی ابتداء ہی میں انہیں طاقت وروں کے رُعب اور استبداد سے آشنا کر دیا تھا۔ خواہش ان کی تاعمر یہ رہی کہ ذلتوں کے مارے لوگ اپنی خوشی کے امکانات ڈھونڈتے رہیں۔ مال وزر اورریاستی قوت والے مگر بہت تگڑے ہوتے ہیں۔ ان سے نجات شاید ممکن نہیں۔ اپنی فتح کا مکمل یقین نہ رکھنے کے باوجود مگر کمزوروں اور بے وسیلہ لوگوں کو مزاحمتی رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے برقرار کھنا چاہئے۔
منّو بھائی کی عاجزی حقیقی تھی۔ تصنع سے پاک۔ مزاح درحقیقت ان کا مزاحمتی ہتھیار تھا۔ اپنی بے کسی اور محرومی کا مستقل مذاق اڑاتے ہوئے انہوں نے زندگی کو ڈٹ کر گزارنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ اس ہنر نے انہیں قناعت بخشی اور مجھ ایسے چھوٹوں کو حوصلہ۔ ان کی شخصیت اور رویے نے سمجھایا کہ دُکھی لوگ اکیلے نہیں ہوتے۔ وہ بے شمار ہیں۔ انہیں یک جا ہو کر اپنے مقصد پر رونے کی بجائے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کا ڈھنگ سیکھنا چاہئے۔ کھال مست اور حال مست والا صوفیانہ استغنائ۔ منّو بھائی اس کا مجسم اور بہت ہی خوب صورت اظہار تھے۔
فیس بک کمینٹ