1989 کے بی اے پروموشن ٹسٹ میں ایک عجیب سوال شامل تھا
سوال: 23 مارچ 1940 پر ایک مضمون تحریر کریں
میں نے اس کا جواب دینے کے لئے کافی سوچ و بچار کیا اور ایک مضمون تحریر کیا جس کی صرف ایک خوبی مجھے ورثہ میں ملی خوبصورت ہینڈ رائٹنگ تھی۔ مضمون کچھ یوں تھا ۔
23 مارچ 1940 کی صبح ویسے تو لاہور میں موسم بہار کی ایک روائتی صبح تھی لاہور کے شہری حالیہ گزری بسنت کے نشے سے تقریباً نکل آئے تھے کیونکہ ان کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی میزبانی کرنا تھی مگر آج لاہور کے رنگ نرالے تھے وہ جذبہ جو پہلے نہ دیکھا گیا اس جلسے کے لئے لاہور کی فرنگی انتظامیہ نے بڑی مشکل سے دی تھی وہ حالیہ اقبال پارک اس وقت کے منٹو پارک کے لئے اجازت نہیں دے رہے تھی ،مگر قائد اعظم کی رٹ دائر کرنے پر اجازت دے دی مگر جلسے سے قبل جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا گیا اور اطمینان سے بیٹھ گئے مگر زندہ دلان لاہور نے ہمت نہ ہاری اور بالٹیاں لا کر سارا پانی نکال دیا اور اور ہندو انگریز اتحاد پر گھڑوں پانی پڑ گیا
ادھر جلسے کی خوبصورت انتظامات کئے گئے تھے ، کیونکہ پورے برصغیر کے نامور شخصیات کی آمد متوقع تھی کئی ہزار کرسیاں لگا کر ، اور شاندار سٹیج عین زیر تعمیر مینار پاکستان لاہور کے نیچے بنا یا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ مینار پاکستان کا افتتاح بھی قائد اعظم کے دست مبارک سے کروا دیا جائے مگر مسئلہ ٹھیکیدار کی روائتی سستی تھی ادھر انگریز سرکار اس مینار کا افتتاح بھی کسی فرنگی افسر سے کروانا چاہتے تھے جبکہ مسلمان لیڈر شپ چاہتی تھی کہ لاہور میں مسلمانوں کی آخری تاریخی تعمیر نور جہاں کا مقبرہ تھا بعد میں انگریزوں نے کالج ، یونیورسٹیوں، اور ہسپتالوں پر تو توجہ دی مگر تاج محل جیسی کسی تاریخی یادگار کی دیکھ بھال کی توفیق ان کو نہ ہوئی تو اب مسلمان لیڈر شپ اس تاریخی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی تو ٹھیکیدار سے معاملات طے کرنے کے لئے ایک کمیٹی نے شبانہ روز محنت کی اور مینار پاکستان بھی افتتاح کے لئے تیار ہو گیا حالانکہ ٹھیکیدار نئے پلستر ہوئے پر سفیدی کرنے کے لئے آمادہ نہ تھا۔
اطلاع عرض ہے کہ مجھے حالیہ دورہ لاہور میں مینار پاکستان پر چڑھنے کا شوق تھا مگر ایک نوجوان کی اس مینار سے کود کر خودکشی کے بعد یہ تاریخی یادگار بند ہے۔
جلسے کے پنڈال کو مسلم لیگ کے جھنڈوں سے سجایا گیا تھا ،اور لاؤڈ اسپیکر اور خواتین کے لئے پردے کا انتظام تھا ، جلسے گاہ ایک طرف لاہور کی روائتی ڈشوں کے سٹال تھے جن میں سری پائے، پٹھورے، گول گپے ،لسی ، چائے ، چیکڑ چنے مختصراً لاہوری عوام نے دل کھول کر رکھ دئے۔
جلسے میں شرکت کرنے والوں کے لئے لاہور بھر میں استقبالیہ کیمپ لگائے گئے اور داتا دربار اور ریلوے اسٹیشن سے پک اینڈ ڈراپ سروس بھی تھی اس دوران اطلاع ملی کہ سکھوں کے گروپ جلسے کو خراب کرنا چاہ رہے ہیں اس مقصد کی لئے انوکی کو چاروں شانے چت گرانے والے جھارا پہلوان اور ناصر بھولو کے آ با و اجداد نے اپنی خدمات پیش کیں اور اشرف پہلوان گوجرانوالئے کی رستم زمان خاندان سے صلح کرواکر ایک مضبوط فورس تیار کی گئی جو ان مقامات پر سیسہ پلائی دیوار بن کر سامنے کھڑی ہوئی جہاں سے حملے کے خطرات تھے۔۔
جلسے سے پہلے تمام شرکا لیڈروں نے مزار اقبال پر حاضری دی اور ان کے خواب کی عملی تعبیر کے عہد کو دہرایا۔
جلسے کی صدارت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی نے کی آپ اس دن گرے رنگ کے تھری پیس میں بہت شاندار لگ رہے تھے ، ولائیت میں سلے سوٹ اور ولائتی چمڑے کے چمکیلے جوتے اور اوپر سے پرجوش چمکتا چہرہ ، اور جب آپ نے اپنی زبانی تقریر میں الگ وطن کا مطالبہ کیا اور قرارداد پاکستان پیش کی تو پنڈال میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا ،عوام دیوانہ وار قائد اعظم زندہ باد ، بٹ کہ رہے گا ہندوستان اور لے کر رہیں گے پاکستان کے نعرے لگانے لگے اسی دوران قائد اعظم نے مینار پاکستان پر لگی تختی کی نقاب کشائی کی اور عوام اس کے بعد اس قرارداد پاکستان کو لے کر گلی کوچے گئے اور 14 اگست 1947 کو پاکستان بن گیا۔
دوستو یہ مضمون شائد اتنا حیران کن نہیں تھا ۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب رزلٹ آیا مجھے 20 میں سے 16 نمبر ملے ۔ اور میں حیران ہو کر اس طویل اور لاحاصل مضمون کو دیکھ رہا تھا جس ایک خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں کاغذ کالے تھے اورملتان کی کھڑی اردو کا محاورہ
” دکھتی ہے تو بکتی ہے ” کی تصدیق کر رہا تھا
فیس بک کمینٹ