ملتان والے رنجیدہ ہیں اور بہت زیادہ نالاں بھی کہ نئے پاکستان کے قیام کے لئے انہوں نے پرانے بت کدوں کی رنجشیں مول لیں اور ’’خام مال ‘‘ تعمیر نو کے لئے اسلام آباد اور لاہور بھجوایا ۔ شاید ہی کسی ضلع سے اس قدر نتائج نکلے ہوں جیسے ملتان اور مضافات سے نکلے مگر جب وزارتیں تقسیم ہوئیں تب ہمارا نام کہیں آخری سطروں میں بھی نہ تھا۔ نئے پاکستان کی نئی پنجاب کابینہ میں ملتانی مٹی کی کوئی اینٹ نہ لگنے پر ملتان والے اداس ہیں ۔ مرکزی وزارتوں میں مخدوم شاہ محمود کو تو ہم ہاتھی کا پاؤں سمجھتے ہیں جس میں سب کا پاؤں ہوتا ہے اور ویسے بھی وہ تو سفید مٹی کے بنے ہیں جو ملتان سے زیادہ بیرون شہر کے ہوئے رہتے ہیں ۔
ملتان والے اس لئے بھی رنجیدہ ہیں کہ انہوں نے ملتان کوجدید شکل دینے والے یوسف رضا گیلانی کو اس کے خاندان سمیت ٹھکرا دیا ۔مخدوم جاوید ہاشمی، سکندر بوسن ، غفار ڈوگر اور احسان الدین قریشی نے جتنے ہمارے جنازے پڑھے اور فاتحہ خوانیاں کیں ہم نے وہ بھی سب بھلا دیں اور نئے پاکستان کے لئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے مگر صوبائی کابینہ میں ملتان کا کوئی بھی وزیر نہ دیکھ کر ہمارے وہ زخم بھی تازہ ہوگئے جو آزاد امیدوار سلمان نعیم کی جیت سے بھر چکے تھے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے امور خارجہ سے ملتان کا بھلا کیا تعلق ؟ ہمیں تو کوئی ایسی وزارت دی جاتی جس سے ہم ’’اساں قیدی تخت لاہور دے ‘‘ کے حصار سے نکل سکتے ۔ جنوبی پنجاب کے عوام کا ’’ مکو ٹھپنے ‘‘ کیلئے عثمان بزدار کا بہلاوا ناکافی ہے اور اسی برقی لوری کے سبب ملتان والے رنجیدہ بھی ہیں اور نالاں بھی۔وزارتوں کیلئے شفافیت اور تجربہ اگر میرٹ ہے تو چھ بار ممبر صوبائی اسمبلی بننے والے ڈاکٹر سید خاور علی شاہ کی دیانتداری پر تو اس کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے ۔ ملتان سے ایم پی اے ڈاکٹر اختر ملک بھی شاید مخدوم صاحب کے برگد تلے سانس لینے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کفایت شعار ی کا سارا بوجھ ملتان نے جھیلنا ہے ۔ سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو ملتان سے ملیں ، بدلے میں ایک سبق تحمل اور برداشت کا ، کفایت شعاری کا ، اسی لئے ملتان والے رنجیدہ ہیں ۔ مگر اتنی جلدی پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ہوسکتا ہے الگ صوبہ بنا کر پورا سیٹ اپ ہی الگ دیا جانا مقصود ہو۔ اگر ایسا ہے تو ایک سو دن گزرتے بھلا کتنا وقت لگے گا ؟ اور یوں بھی ملتان کی گرمی، گرد اور گورستان ہم سب گداؤں کو اوقات میں رکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ بہلاوا اور بہکاوا ہمارے اضافی کھلونے ہیں جو پرانے پاکستان میں بھی ہمیں کھیلنے کیلئے دیے جاتے رہے اور شاید وہی کھلونے نئی پیکنگ میں ’’ میڈ ان نیو پاکستان ‘‘ کی مہر کے ساتھ اب پھر آزمائے جائیں۔ماضی میں جنوبی پنجاب کیلئے صدارت ، وزارت عظمی ، گورنری بار بار اور اب پھر وزارت عالیہ کے جھولے ہمیں میٹھی نیند سلانے کیلئے تھے اور ہیں مگر اب بقول قمر رضا شہزاد :۔
کبھی عشقق و رزق کے جال میں نہیں آئے گا
یہ فقیر اب تری چال میں نہیں آئے گا
ملتان والوں کی محبت کا جواب اگر ان کے مسائل حل کرکے دینا مقصود ہے تو مکمل ایک بااختیار وزارت نہیں بلکہ اس خطے کو وزارتیں دی جائیں ، خوش بختی ہے کہ نئے پاکستان کیلئے جنوبی پنچاب سے منتخب ممبران اسمبلی نیب زدہ نہیں ہیں جس قدر حصہ نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے ملتان نے ڈالا ہے کم ازکم برابر ہی لوٹا دیا جائے کہ ملتان والوں کی رنجیدگی تو سکندر اعظم کو راس نہیں آئی تھی۔ ملتان کے ساتھ ساتھ خانیوال کی بھی کابینہ میں نمائندگی نہ ہونا وسیبی محرومی کا سبب بنے گی۔ سینئر پارلیمنٹیرین اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کا تجربہ اور قابلیت وزارتوں کے اس معیار پرپورا کیوں نہیں اترتی جس پر فہمیدہ مرزا ، زبیدہ جلال اور کئی ’’اتائی ‘‘ پورا اتر رہے ہیں ۔ نئے پاکستان میں بھی جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان ڈویژن کو نظر انداز کیا گیا اور اختیارات کا مرکز اسلام آباد یا لاہور رہے تویہ تبدیلی گرد ، گرما،گورستان کے گداؤں کے لئے قابل قبول نہ ہوگی ۔
فیس بک کمینٹ