عوام کے ووٹوں سے ایوانوں تک پہنچنے والے ممبران اسمبلی ایک خاص معیار پر پورا اترنے کے بعد ہی کابینہ میں شامل کیے جاتے ہیں اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس خاص معیار میں سیاسی شعور اور قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں ۔پاکستانی تاریخ میں وزارتوں کےلئے خوشامد ، ابن الوقتی اور قومی اداروں کی خوشنودی ہی معیار رہا ہے ۔ این او سی دینے والے الیکشن سے قبل ہی اپنے خاص بندوں کو اشارہ دے دیتے ہیں کہ آئندہ ”ان “ کی پارٹی کونسی ہوگی۔ الیکشن ۔ 2018 میں ایک سیاستدان ایسا بھی پنجاب اسمبلی میں پہنچا جس نے پاکستان کی انتخابی سیاست میں انوکھا ریکارڈ بنایا مگر چونکہ وہ کسی خاص لسٹ میں شامل نہیں تھا اس لئے اس کا یہ ریکارڈ صرف اسمبلی کے ریکارڈ روم تک ہی محدو د رہا۔2018کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے چھٹی بار منتخب ہونے والے ایم پی اے ڈاکٹر سید خاور علی شاہ پانچ بار آزاد ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ۔ چھ بار الیکشن جیت کر اسمبلی تک پہنچنا شاید اہمیت کا حامل نہ ہو مگر پانچ بار آزاد منتخب ہوکر پنجاب کے ایوان تک پہنچنا واقعی ایک ریکارڈ ہے۔ 1970کے الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کراپنی عملی انتخابی سیاست کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر خاور علی شاہ اس وقت پاکستان کے سینئر ترین سیاستدان ہیں جو 2018 کی اسمبلی میں بھی موجود ہیں ۔ جب خاور علی شاہ نے پہلا الیکشن 1970ء میں لڑا تو اس وقت سینئر سیاستدان کا لقب پانے والے مخدوم جاوید ہاشمی سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑ رہے تھے۔اس 74سالہ سیاستدان کے ہم عصر ملک غلام مصطفی کھر ، سردار ذوالفقار خان کھوسہ اور بلخ شیر مزاری بھی ان کے ساتھ ہی میدان سیاست میں وارد ہوئے تھے۔
ضلع ملتان کی بلدیاتی سیاست میں خاور شاہ گروپ و ہ واحدطاقت تھی جنہوں نے ملتان کے قریشی، گیلانی اور ہاشمی خاندانوں کو مشکلات سے دوچار کیا اور یہ سب مخادیم خاور شاہ گروپ کے مقابلے میں اکٹھے ہوگئے۔ فخر امام کا چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوجانا خاور شاہ گروپ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا تھا ۔ ضلع خانیوال بننے کے بعد یہ بزرگ سیاستدان عوامی مقبولیت کے ریکارڈ توڑتا گیا مگر کابینہ کی تشکیل میں ہمیشہ نظر انداز ہوتا رہا۔ 1977، 1985، 1988اور 1990کے انتخابات میں آزاد حیثیت میں ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ 1996 کا الیکشن وہ واحد انتخاب تھا جب سید خاور علی شاہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے اسمبلی میں پہنچے ۔ 2018میں الیکشن تو آزاد حیثیت میں جیتا مگر پھر سید فخر امام کے پرزور مطالبے پر تحریک انصاف سے جاملے ۔ عمران خان نے جب پارٹی پرچم ان کے گلے میں ڈالنا چاہا تو انہوں نے کہاکہ خان صاحب میں پہلے ہی اسی پارٹی میں تھا مگر آپ کے تھنک ٹینک نے مجھے نان الیکٹیبلز سمجھتے ہوئے پارٹی ٹکٹ کسی اور کو دے دیا ۔ کبیروالا کی تو تاریخ ہی ایسی ہے کہ الیکٹیبلز کو قبول ہی نہیں کرتی۔
2018ء کے الیکشن کے نتائج کے بعد سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جب سیدخاور علی شاہ کو ن لیگ میں شمولیت کی دعوت دینے قتال پور آنا چاہتے تھے تو ڈاکٹر خاور نے ا نہیں یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اور ان کا داماد سید باسط سلطان بخاری آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں مگر پہلے دیگر آزاد اراکین کو تو اپنے ساتھ ملالیں ۔ میاں شہباز شریف سے خاور علی شاہ نے ایک جائز گلہ کیا کہ خانیوال میں ن لیگ کی تنظیم سازی سٹریٹ سطح پر انہوں نے کی مگر جب ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو سید فخر امام کو الیکٹیبلز سمجھا گیا ۔ اس کے بعد پھر فخر امام کے مقابلے میں جیتنے والے رضا حیات ہراج کو تین ارب روپے کا فنڈ جاری کرکے اپنے ہی الیکٹیبلز سید فخر امام کو کونے سے لگا دیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ ز غلام جعفر سرگانہ کو دیے گئے مگر اب غلام جعفر سرگانہ اور رضا حیات ہراج کہاں ہیں؟عوامی سطح پر مقبولیت اور حلقے میں مسلسل موجودگی کی وجہ سے سید فخرامام منتخب ہوتے رہے اور سپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزارتوں سمیت اہم عہد ے بھی لئے ۔سیدہ عابدہ حسین کو امریکی سفیر تک لگایا گیا اور خاور علی شاہ کے وسیع تجربے کے باوجود انہیں یہ کہہ کر چپ کروادیا جاتا کہ” اب ایک ہی خاندان میں تو پوری حکومت تقسیم نہیں کرسکتے“ انتخابی سیاست کے اس اہم نام میں صرف ایک خامی تھی کہ وہ کمیشن کی سیاست کے بجائے خدمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور یہاں خدمت پر خوشامد کو ہمیشہ زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ اب نئے پاکستان میں بھی وہی پرانی روش برقرار رکھی گئی ۔ تجربہ کار سیاستدانوں کے بجائے نئے گھوڑے آزمائے گئے مگر جو پرانے چہرے کابینہ میں شامل ہوئے ان کی تو بات ہی الگ ہے کہ وہ سیاست سے زیادہ این او سی پر دوڑنے والے گھوڑے ہیں جہاں کارکردگی نہیں صرف ”جی حضوری“ دیکھی جاتی ہے۔
فیس بک کمینٹ