1991۔ 92 ء میں غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ۔اور ہماری تعیناتی ان کے شہر میاں چنوں میں تھی ۔ نواز شریف اس زمانے میں وزیر اعظم تھے اور اسلامیہ گرلز ڈگری کالج میاں چنوں کی سالانہ تقریبات میں شرکت کے لئے محتر مہ کلثوم صاحبہ کے ہمراہ اپنے ہیلی کاپٹر پر گرلز کالج کے میدان میں اُترتے تھے ۔۔۔۔کالج کی لائبریری وائیں صاحب کے خصوصی مہمانانِ گرامی کیلئے محفل آرائی کیلئے منتخب کی جاتی ۔۔۔تو ہمیں بھی محترمہ کلثوم نواز کیساتھ ملاقات کے مواقع ملتے ۔ وہ مجھے اور میری ساتھی اُستاد شعبہ اُردو میں ہمار ی فائنل کے طالبہ مس فوزیہ صدیقی کو اُردو ، ادب کے استاد ہونے کی حیثیت سے قریب کرلیتیں ۔۔۔ میری کمپیئرنگ کی تعریف کرتیں اور اشعار سنانے کی خواہش کا اظہار بھی ۔۔۔۔چائے پینے کے دوران ان کا اپنا ”ادبی موڈ“اپنی رعنا آنکھوں کی جولا نیاں ۔۔۔اور مسکراہٹ سے سجا ”سجیلا چہرہ “ان کی طرح جوان اور جوان ہوتا ہی چلا جاتا ۔۔۔ایسے میں ان کا حسن انتخاب …. نہ گنواﺅ ناوکِ نیم کش….جیسا کلام فیض، لب ولہجہ ، الفاظ، احساس کے کمال حق بیان سے آفرین آفرین ہوجاتا خوش لباسی خوش بیانی اور خوش کلامی سے مزین شخصیت کا حصار طلائی چار دیواری نے انتہائی نزاکت سے کررکھا تھا ۔۔۔۔انہوں نے فیض احمد فیض پر کتاب لکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا اور اپنے لکھے چند ابواب کا تذکرہ بھی ۔۔۔ ان دنوں نواز شریف فتح یابیوں کے موٹروے پر اطمینان کے ساتھ ر واں دواں تھے ۔۔۔ لہٰذا بیگم نواز شریف بھی شاداں و فر حاں تھیں مگر غیر محسوس انداز سے نواز شریف صاحب کا جی ٹی روڈ پر سیاسی سفر بے سمت ہو رہا تھا۔ مریم نواز میں معصومانہ رعونت اور پختہ سا تکبر تب بھی موجود تھا۔ حالانکہ کم عمری کے سبب مریم نواز کو اپنے حسن و جمال کا اندازہ نہ تھا ۔۔۔مگر اقتدار پرو ٹو کول اور سیاست کارگر ہوچکی تھی ۔ نواز شریف کی تقاریر اور مباحث سن کر اور محترمہ کلثوم کی گفتگوکی شائستگی سے جھلکتے شعور سے میں دو باتوں کا اندازہ لگا چکی تھی۔وہ اپنے گھرانے میں ذہنی بالیدگی اور علمی شعور کے امتیاز کے سبب ”اقلیت“کی طرح ہیں مو اقع ، وسائل اور اختیارات کے باوجود ان کی آ گہی کو اظہار کا کھل کر موقعہ نہ مل سکا ۔۔۔ وہ ایک دو کتابوں کی تخلیق سے بھی کہیں زیادہ پرواز کی طاقت رکھتی تھیں ۔ اور نہ ہی وہ اپنے تعلیم کی اپنے گھرانے میں بخوبی ترسیل کرسکیں ۔ شریف خاندانی گھریلو تنازعات اور دیگر کھٹنائیوں کو نہایت برد باری اور کمال ضبط سے انہوں نے بپھر نے نہ دیا ۔ انہوں نے اپنے شوہر کو ہی اپنا لیڈر مان لیا تھا۔ اور وہ ان کی تابع فرماں تھیں ۔ نواز شریف صاحب اور کلثوم نواز صاحبہ میں جتنی ذہنی تفاوت تھی اس سے کہیں قلبی لگاﺅ مضبوط تھا مشرقی طبیعت ہمیشہ غالب رہی ۔ ایسا ہی عدم توازن کا درجہ حرارت غلام حیدر وائیں اور بیگم غلام حیدر وائیں کے مابین نمایاں فرق کیساتھ موجود تھا۔ بیگم وائیں بھی ان کی مددگار اور حقیقی دم ساز رہیں! غلام حیدر وائیں کی بلند نگاہی، علم دوستی، قناعت پسندی اور سیاسی سفر کیلئے ایک الگ بھرپور تحریر درکار ہے!
آج بھی لاہور میں پھڑ پھڑاتے ہیلی کاپٹر کو پارک میں اُترتے دیکھتی ہوں تو مجھے میاں چنوں گرلز کالج کے بے بس درخت یاد آجاتے ہیں۔ جو تناور درختوں پہ شاخوں، کونپلوں اور پتوں کو بھونچال کی زد میں لے آتے تھے۔ H بلاک ماڈل ٹاﺅن کے اطراف بکھرے کوٹ لکھپت، بہار کالونی، تلہ سٹاپ اور بھابھڑا کے غریب لوگوں اور درختوں کے پتوں کی بے بسی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ محض اتنی ہی تبدیلی آئی ہے…. شہد کی مکھیوں کے چھتوں سے مشابہ سکیورٹی پہ مامور پولیس افسران اب شرفاءکے محلوں پہ دکھائی نہیں دیتے…. بات محلوں کی چھڑی تو پھر ہر پارٹی کے عشاق اور محبوب کے گالوں تک چلی جائے گی…. کسی دن یہ جسارت بھی کرکے دیکھیں گے!میں دعاگو ہوں۔ خدا تعالیٰ مرحومہ کلثوم نواز کے درجات بلند کرے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ نواز شریف کی اپنے جیون ساتھی کے بنا اور مریم کی ممتا کے بنا تنہائی سچ مچ قید تنہائی ہے۔خصوصاً ان کے پاکستانی لواحقین کو صبرو جمیل عطاءکرے۔ کیونکہ ان کے عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔
فیس بک کمینٹ