وقت نے اپنے بہاؤ میں صرف موسم ہی نہیں بدلے بلکہ خون کے رنگ بھی تبدیل کیے ، بے نیازی اور لاپرواہی کی چادروں کی جگہ خود غرضیوں کے لحافوں نے لی تو بادشاہی مزاجوں کو فقیری میں ڈھلنا پڑا ۔ جسے ہم جدت اور ترقی سمجھتے رہے وہ ایک دھوکہ تھا جس کی نذر ہمارا سنہرا عہد بچپن اور جوانی کردیا گیا ۔محبتوں کی جگہ سمجھوتوں نے لے لی اور حیران کن حد تک ہم جتنی خوبصورتی سے ان سمجھوتوں کو نبھا رہے ہیں ایسے کبھی محبتوں کو نہیں نبھایا ۔ دسمبر کی یخ بستہ صبحوں میں گیلی لکڑیوں پر لالٹین الٹا کر مٹی کا تیل چھڑکنے کے بعد سلگائی جانے والی آگ پر بننے والا پراٹھا کبھی تاخیر کا شکار نہیں ہوتا تھا مگر اب سنگ مرمر سے بنے کچن اور ان میں رکھے جدید چولہے ”یہ بھی کوئی کھانے کا وقت ہے“ کا درس دیتے ہیں اور ہم بڑی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ”چلو کوئی بات نہیں“ سے پیٹ بھر کر اپنی محبتوں کو برقرار رکھنے کےلئے دنیاداری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
زندگی جس روانی سے ہمیں گزاررہی ہے ہم اسے ترقی کا نام دیتے ہیں مگر دراصل اپنے وجود کو کئی قسطوں میں تقسیم کرتے جارہے ہیں ۔دعائے نیم شبی سے گڈ نائٹ اور گٍ مارننگ تک کا سفر ہمیں کھوکھلا کرچکا ۔ سہولتوں کی فراوانی نے درحقیقت راحتیں چھین لی ہیں ۔ نلکے کے پانی سے گیزر، مٹی کے چولہوں کے گرم کھانوں سے اوون کی لذت، سادہ چارپائیوں سے ڈبل بیڈ کی نیند، مخلص محبتوں سے پیار کی اداکاریوں تک کا سفر ہم سے بہت بڑی قیمت وصول کرچکا ہے اور اس قیمت کے عوض ہم گروی رکھ دیے گئے ہیں۔
انسان کے لئے سب سے زیادہ مقطر اور طیب محبت کی ضرورت ہوتی ہے مگر ضرورتوں کے سبب اصلی اور صادق محبت کا چشمہ قریب قریب سوکھ گیا، جابہ جاہوس منڈلاتی ہے ۔ گھریلو زندگی سے دفتر ی ماحول تک ”بارگیننگ “ کے گرد گھومتا ہے ۔شام کو خالی ہاتھوں گھر لوٹنے والوں کو ان کے معصوم بچے بھی نفرت سے دیکھتے ہیں اور اپنے ابا جی کا موازنہ دوستوں کے ابوؤ ں سے کر کے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ دلوں میں داخل ہونے والی محبت منہ کی مٹھاس اور ذائقہ کے ذریعے اپنا راستہ بناتی ہے اس لئے بھوک سے تنگ لوگ کبھی دلوں میں محبتوں کے روگ نہیں پالتے ، جب بھوک بڑھتی ہے تو تخریب کے علاوہ کچھ جنم نہیں لیتا۔ سکون قلب کےلئے ٹیلی پیتھی ، وجدان ، ہیپنا ٹیزم ، مسمریزم کا عمل کافی نہیں بلکہ ایک بے لوث محبت کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ یہ جنس نایاب ہے اسی لئے سکون قلب بھی موجود نہیں۔ جن رشتوں کے سبب یہ دولت ملتی تھی یا تو وہ نہیں رہے اور یا پھر انہیں بھی ضرورتوں کی دیمک نے چاٹ کھایا۔
صرف دن اور رات کو الگ الگ گزرنے کےلئے ہم اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں میں محبت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ بیوی ، بچے ، والدین ، دوست، افسر ، ماتحت اور زندگی سے وابستہ بہت سارے دیگر لو گ اپنی اپنی سطح کی محبت اور نفرت کے کارخانے ہیں جن کی توقعات پر پورا اترنا آپ کی نفسیاتی بقا کےلئے ضروری ہوتا ہے ورنہ ان لمحات کےلئے آپ نظر انداز کردیے جاتے ہیں یا پھر بناوٹی توجہ کے حقدار ٹھہرتے ہیں ۔ زندگی کےلئے لازمی وہ محبت جسے حاصل کرتے کرتے آپ بت تراشی سے بت شکنی تک کے ہنر سے آشنا ہوچکے ہوتے ہیں بالآخر آپ کو تڑپنے اور سلگنے کےلئے اکیلا چھوڑ جاتی ہے۔
ضرورتیں اور لالچ ایک ساتھ جنم لینے والے بھائیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کروادیتی ہیں اور کہیں باپ جیسا سایہ دار شجر بیٹے کے ماتھے پر عاق نامے کا بورڈ لگا کر گھر اور جائیداد سے محروم کرتا نظر آتا ہے ۔ قبول ہے قبول ہے کی صداؤں میں زندگی کی ہم سفر بننے والی بیوی جب آپ سے کچھ حاصل نہیں کرپاتی یا آپ اسے کچھ دینے کے قابل نہیں رہتے تو وہ اپنا راستہ بدلتے دیر نہیں لگاتی ۔ آپ کو محبت کےلئے مسلسل تقسیم ہونا پڑتا ہے اور کبھی ضرب کھانی پڑتی ہے ۔ اس بے منزل سفر میں سب اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مہذب ہونا دور کی بات ہم تو اپنی وحشت کے ہاتھوں خود مارے جارہے ہیں ۔ ہجوم میں تنہائی اور صاف ستھرے ماحول میں رہ کر غلاظت کا لیپ دل و دماغ پر چڑھ چکا ہے ۔ سارے کا سارا سفر رائیگاں اور فضول لگتا ہے ۔ صاحب نہج البلاغہ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ ” اس زندگی کو میں نے طلاق دی جس کے حلال کا حساب اور حرام کا عذاب جھیلنا پڑے“ ”آگہی موت ہے“ بھی تو اسی فلسفہ روز و شب کی عکاس ہے ۔ زندگی کے بھید تلاش کرتے کرتے جب ہم تھک جاتے ہیں تو پھر موت سے ہمکلام ہوتے ہیں کہ موت بھی دراصل زندگی کے خوبصورت بھیدوں میں سے ایک بھید ہے مگر ان ساری حقیقتوں کے باوجود اپنے حصے کی زندگی ہم نے حوصلے کے ساتھ جینی ہے ۔ پراسراریت کے ان پردوں تلے ہنسنا ہے اور قہقہے لگا کر خو دفریبی کے اوراق سے خود پسندی کے اسباب کشید کرنے ہیں اس عمل میں ہمیں ہر اندھیرا روشن نظر آئے گا اور آخر ی سانس تک زندہ رکھے گا۔
زندگی جس روانی سے ہمیں گزاررہی ہے ہم اسے ترقی کا نام دیتے ہیں مگر دراصل اپنے وجود کو کئی قسطوں میں تقسیم کرتے جارہے ہیں ۔دعائے نیم شبی سے گڈ نائٹ اور گٍ مارننگ تک کا سفر ہمیں کھوکھلا کرچکا ۔ سہولتوں کی فراوانی نے درحقیقت راحتیں چھین لی ہیں ۔ نلکے کے پانی سے گیزر، مٹی کے چولہوں کے گرم کھانوں سے اوون کی لذت، سادہ چارپائیوں سے ڈبل بیڈ کی نیند، مخلص محبتوں سے پیار کی اداکاریوں تک کا سفر ہم سے بہت بڑی قیمت وصول کرچکا ہے اور اس قیمت کے عوض ہم گروی رکھ دیے گئے ہیں۔
انسان کے لئے سب سے زیادہ مقطر اور طیب محبت کی ضرورت ہوتی ہے مگر ضرورتوں کے سبب اصلی اور صادق محبت کا چشمہ قریب قریب سوکھ گیا، جابہ جاہوس منڈلاتی ہے ۔ گھریلو زندگی سے دفتر ی ماحول تک ”بارگیننگ “ کے گرد گھومتا ہے ۔شام کو خالی ہاتھوں گھر لوٹنے والوں کو ان کے معصوم بچے بھی نفرت سے دیکھتے ہیں اور اپنے ابا جی کا موازنہ دوستوں کے ابوؤ ں سے کر کے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ دلوں میں داخل ہونے والی محبت منہ کی مٹھاس اور ذائقہ کے ذریعے اپنا راستہ بناتی ہے اس لئے بھوک سے تنگ لوگ کبھی دلوں میں محبتوں کے روگ نہیں پالتے ، جب بھوک بڑھتی ہے تو تخریب کے علاوہ کچھ جنم نہیں لیتا۔ سکون قلب کےلئے ٹیلی پیتھی ، وجدان ، ہیپنا ٹیزم ، مسمریزم کا عمل کافی نہیں بلکہ ایک بے لوث محبت کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ یہ جنس نایاب ہے اسی لئے سکون قلب بھی موجود نہیں۔ جن رشتوں کے سبب یہ دولت ملتی تھی یا تو وہ نہیں رہے اور یا پھر انہیں بھی ضرورتوں کی دیمک نے چاٹ کھایا۔
صرف دن اور رات کو الگ الگ گزرنے کےلئے ہم اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں میں محبت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ بیوی ، بچے ، والدین ، دوست، افسر ، ماتحت اور زندگی سے وابستہ بہت سارے دیگر لو گ اپنی اپنی سطح کی محبت اور نفرت کے کارخانے ہیں جن کی توقعات پر پورا اترنا آپ کی نفسیاتی بقا کےلئے ضروری ہوتا ہے ورنہ ان لمحات کےلئے آپ نظر انداز کردیے جاتے ہیں یا پھر بناوٹی توجہ کے حقدار ٹھہرتے ہیں ۔ زندگی کےلئے لازمی وہ محبت جسے حاصل کرتے کرتے آپ بت تراشی سے بت شکنی تک کے ہنر سے آشنا ہوچکے ہوتے ہیں بالآخر آپ کو تڑپنے اور سلگنے کےلئے اکیلا چھوڑ جاتی ہے۔
ضرورتیں اور لالچ ایک ساتھ جنم لینے والے بھائیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کروادیتی ہیں اور کہیں باپ جیسا سایہ دار شجر بیٹے کے ماتھے پر عاق نامے کا بورڈ لگا کر گھر اور جائیداد سے محروم کرتا نظر آتا ہے ۔ قبول ہے قبول ہے کی صداؤں میں زندگی کی ہم سفر بننے والی بیوی جب آپ سے کچھ حاصل نہیں کرپاتی یا آپ اسے کچھ دینے کے قابل نہیں رہتے تو وہ اپنا راستہ بدلتے دیر نہیں لگاتی ۔ آپ کو محبت کےلئے مسلسل تقسیم ہونا پڑتا ہے اور کبھی ضرب کھانی پڑتی ہے ۔ اس بے منزل سفر میں سب اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مہذب ہونا دور کی بات ہم تو اپنی وحشت کے ہاتھوں خود مارے جارہے ہیں ۔ ہجوم میں تنہائی اور صاف ستھرے ماحول میں رہ کر غلاظت کا لیپ دل و دماغ پر چڑھ چکا ہے ۔ سارے کا سارا سفر رائیگاں اور فضول لگتا ہے ۔ صاحب نہج البلاغہ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ ” اس زندگی کو میں نے طلاق دی جس کے حلال کا حساب اور حرام کا عذاب جھیلنا پڑے“ ”آگہی موت ہے“ بھی تو اسی فلسفہ روز و شب کی عکاس ہے ۔ زندگی کے بھید تلاش کرتے کرتے جب ہم تھک جاتے ہیں تو پھر موت سے ہمکلام ہوتے ہیں کہ موت بھی دراصل زندگی کے خوبصورت بھیدوں میں سے ایک بھید ہے مگر ان ساری حقیقتوں کے باوجود اپنے حصے کی زندگی ہم نے حوصلے کے ساتھ جینی ہے ۔ پراسراریت کے ان پردوں تلے ہنسنا ہے اور قہقہے لگا کر خو دفریبی کے اوراق سے خود پسندی کے اسباب کشید کرنے ہیں اس عمل میں ہمیں ہر اندھیرا روشن نظر آئے گا اور آخر ی سانس تک زندہ رکھے گا۔
فیس بک کمینٹ