امریکہ کی ایک ریاست Wyoming میں چھوٹا سا ایک قصبہ ہے، جسے ایک امریکی جنرل John Bufford نے امریکی خانہ جنگی کے دوران 1865 میں آباد کیا اور آج یہ قصبہ اسی کے نام سے منسوب ہے۔ 8 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس قصبے کی آبادی 2013 ءکی مردم شماری کے مطابق صرف ایک شخص پر مشتمل ہے اور اس شخص کا نام Don Sammons ہے۔ سردیوں میں شدید برف باری اور منفی بیس ڈگری تک درجہ حرارت رکھنے والے اس قصبے میں Don Sammons کئی دہائیوں سے رہ رہا ہے۔ اس کی بیوی کا تین سال پہلے انتقال ہوچکا ہے اور اس کا اکلوتا بیٹا،اس قصبے کو چھوڑ کر دور جا چکا ہے۔ Don Sammons کا ایک چھوٹا سا جنرل سٹور ہے، جو وہ اپنے مقرر وقت پر کھول کر پورا دن گاہکوں کا انتظار کرکے اسے بند کردیتا ہے۔ پوری سردیاں وہ اکیلا گزارتا ہے اور گرمیوں میں موسم بہتر ہونے کے باعث کوئی اکا دکا سیاح Bufford دیکھنے یہاں آجاتے ہیں۔ حیران کن طور پر امریکی ریاست نے ، اپنے اس ایک شہری کی زندگی کی تمام ذمہ داری لے رکھی ہے۔ یہاں گیس سٹیشن، ڈاک خانہ، ٹیلی فون، انٹرنیٹ ، حتی کہ ریلوے سٹیشن تک موجود ہے، اور یوں آٹھ ہزار فیٹ کی بلندی پر بھی، ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے۔ Don Sammons بیمار ہوا تو اس نے دوسری سٹیٹ میں جاکر علاج کرانے سے انکار کردیا گیا،امریکہ قوانین کے مطابق Bufford میں جدید ترین ہسپتال کا قیام اور Don Sammons کو بہترین صحت کی سہولیات کی فراہمی، امریکی ریاست کی ذمہ داری تھی، چنانچہ وہاں بہترین جدید ہسپتال قائم کیا گیا، اور وہاں صرف ایک فردِ واحد کے لیے جدید صحت کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ دو سے تین نومبر کی درمیانی شب اسلام آباد کی طوفانی بارش اور میرا دوست ڈاکٹر شاہین ہاسٹل کے باہر ایمرجنسی سے جاتے گر پڑا۔ سرکاری ہسپتال سے اٹھا کر نجی ہسپتال لائے اور پھر معجزوں کا عمل شروع ہوگیا۔ یہ سخت ترین رات تھی میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ رات دو بجے پروفیسر عمر کے گھر بھاگا ، کیش میں بہت زیادہ پیسے درکار تھے۔ میرے پاس کریڈت تھا۔ خیر کیش مل گیا اور پھر سلسلے بنتے گئے ۔سی ٹی سکین جس میں بہت بڑا infarct تھا، یعنی خون کا ایک بہت بڑا لوتھڑا دماغ کی ایک بڑی خون کی شریان میں پھنسا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے دماغ کا آدھا حصہ مفلوج ہوچکا تھا۔ دماغ کے ڈاکٹرنیورالوجسٹ ڈاکٹر امجد اور ڈاکٹر راجہ فرحت شعیب کا پہلا opinion یہی تھا کہ یہ اسی فیصد death riskہے۔ اس کے بعد خون کے لوتھڑے کو dissolve کرنے یعنی گھولنے کے لیے ایک دوائی جسے ٹی پی اے کہتے ہیں، لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ ایک سخت فیصلہ تھا کیونکہ اس دوائی کو لگانے کے لیے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے، ذرا سی بھی کوتاہی یا انجانے حالات کی صورت میں پورے جسم کا خون بہت پتلا ہونے کی وجہ سے کہیں سے بھی بہنے لگتا ہے اور مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ تمام فیصلے میں اور میرے دوست لے رہے تھے ، یہ دوائی لگانے کے بعد، سی ٹی اینجیوگرافی کی گئی، یعنی دماغ کی خون کی شریانوں کو اندر سے دیکھنے کے لیے سی ٹی سکین کیا گیا، خون کا لوتھڑا تین ٹیکے لگنے کے باوجو د اپنی جگہ پر قائم تھا ۔ اب شدید مشکل فیصلوں کا وقت تھا۔ دماغ میں پھنسے اس لوتھڑے کو شعاﺅں والی مشینوں میں دیکھ کر جدید ٹیکنیک کے ذریعے نکالنا تھا۔اس عمل کو Thrombectomy کہا جاتا ہے اور یہ ایک انتہائی ایڈوانس پروسیجر ہے۔ صرف پاکستان کے دو تین ہسپتالوں میں کیا جارہا ہے، اور یہ نجی ہسپتال بھی ان میں سے ایک تھا۔میں اس نجی ہسپتال میں ڈیڑھ سال کام کرچکا تھا ،سو یہ پروسیجر کرنے والے میرے استاد ڈاکٹر عاطف رانا تھے۔ ان سے بات ہوئی ۔ صبح کے چار بج رہے تھے، فجر کی اذانوں میں ، تیز طوفانی بارش میں ایک ڈاکٹر دوست کی زندگی یا موت کا فیصلہ لینا تھا، کیونکہ یہ سب آر یا پار جیسی صورتحال تھی۔ اگریہ لوتھڑا نکل جاتا تو شاہین بچ جاتا نہ نکلتا تو یقینا مر جاتا۔تیسری صورتحال نہیں تھی۔ یہ اس ہسپتال میں چوتھا کیس تھا جو 6 گھنٹے کے اندر اندر Thrombectomy تک پہنچایاگیا تھا، لوتھڑا نکلنے سے خون کی سپلائی فالج زدہ حصے میں بحال ہوجاتی اور سب نارمل ہوسکتا تھا۔شاہین بھائی کی فیملی سخت بارش میں خوشاب سے آرہی تھی۔ حالات دھرنوں کی وجہ سے خراب تھے اور مجھے دو ننھے بچوں کے ڈاکٹر باپ کی ڈاکٹر اہلیہ سے سخت فیصلہ فون پر لینا تھا۔ وقت پر پہنچانے کے باوجود رسک بہت تھا کیونکہ اس میں موت کا رسک بہت زیادہ تھا۔صبح کے چار بج رہے تھے فون پر کانپتی آواز کہ بھائی آپ کو جو مناسب لگے آپ کرلیں۔ رب کے حوالے۔شاہین رات 12 بج کر پینتیس منٹ پر ہاسٹل کے باہر گرا تھا اور یہ وقت وٹس ایپ کی لاسٹ سین آپشن سے حساب لگایا گیا اور 6 بج کر دس منٹ پر شاہین Thrombectomy کے لیے جدید ریڈیالوجی Interventional Radiology کے تھیٹر کی میز پر لیٹا تھا۔ اس لوتھڑے کو تین گھنٹے کی جہد سے جدید ریڈیالوجی کے ذریعے نکال دیا گیا۔ دماغ کے خلیوں کو دوبارہ خون ملنا شروع ہوگیا اور شاہین میرا دوست نہ صرف بچ گیا، بلکہ فالج زدہ مفلوج جسم کا آدھ حصہ بھی پوری طاقت کے ساتھ ٹھیک ہوگیا۔میری ماں کا voice message مجھے صبح سات بجے وصول ہوا بیٹا سانس کی ترقی اپنی جگہ مگر رات کے تین بجے مجھے اٹھا کر زندگی میں پہلی بار تو نے کسی کے لیے دعا کرنے کا کہا تھا؟ میں اس وقت سے سوئی نہیں۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ یہ سب اوپر لکھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں اس طوفانی بارش کے باوجود اگر تعلیم سائنس ، قسمت ،رب کی مدد اور دعائیں مل جائیں تو کیسے کیسے معجزے ہوجاتے ہیں؟ ہم غربت اور مفت کے چکر میں کتنی قیمتی جانیں گنوادیتے ہیں مگر کبھی اپنے صحت کے انفراسٹرکچر کو برطانیہ اور امریکہ جیسا بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ شاہین کو بچانے والے تمام ڈاکٹر پاکستانی تھے ، ہسپتال بھی پاکستان میں تھا ، جدیدیت بھی پاکستان میں تھی ، فرق صرف یہی تھا کہ یہاں نہ مفت علاج کی پٹی تھی اور نہ ہی شعور کا فقدان۔ آخر کب ہم نظام کو اس کی اصل پر درست کریں گے؟ کب تک دہائیوں سے بس یوں ہی ڈنگ ٹپایا جاتا رہے گا؟ یہ ایک دو برس کی بات نہیں ، دہائیوں پر محیط محرومیوں ، بے حسی اور عبرت کی کہانی ہے۔ میرا یار موت سے بھی بچ گیا اور مفلوج ہونے بھی بچ گیا ، کتنوں کے روزانہ ناحق نظام کی آڑ میں چلے جاتے ہیں۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ ہم نے تعداد میں تو امت کے نام پر قوم بڑھا لی، مگر کبھی Quality Nation کی تھیوری پر غور نہیں کیا۔ ہم نے چرواہے، نائی، درزی، ریڑھی بان، رکشہ ،ٹیکسی ڈارئیور کی کھیپ وسیع تعداد میں پیدا کرلی ، مگر تعلیم زدہ معاشروں کی طرح Intellectual معاشرے پیدا نہیں کیے۔ ہم نے سائنسدان، ڈاکٹر،انجینئر اور دیگر تعلیم یافتہ پیدا کرنے میں ہمیشہ فرقہ واریت، جہالت ، مذہب کی اپنی کی ہوئی تعریفیں ،اور سیاست ڈال دی اور یوں ہم موت کے بہت قریب آگئے۔ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہیں اور باقی ہر ترقی یافتہ شعبے میں سو ، دو سو کے بعد آتے ہیں۔ اسی طرح وڈیرانہ، جاگیردارانہ اور آمرانہ نظام نے ہماری اسی روش کا فائدہ اٹھایا اور ہمیں مزید بے کار ہجوم میں بدلنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، باقی کا کام ان انٹرنیشنل مافیوں نے کردیا، جو دہشت گردی کا لیبل جہاد پر لگا نا چاہتے تھے اور ہم نہ چاہتے ہوئی بھی صلیبی جنگوں کے چلتے تسلسل کا حصہ بن گئے اور بربادی کی جانب ہمارا سفر چلتا رہا۔ حیران کن طور پر جدید علاج کی فراہمی ڈاکٹر شاہین کو موت کے منہ سے باہر لے آئی ، مگر کتنی جانیں روزانہ صرف جدید علاج نہ ہونے کے باعث بچائی جانے کے باوجود ،نہیں بچائی جاسکتیں اور درجنوں فالج اور دیگر بیماریوں سے لڑتے افراد زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوجاتے ہیں۔ آپ اس نظام کو کبھی ڈاکٹر کی غفلت کا نام دے دیتے ہیں اور کبھی راج نیتی کی سہولیتات کا فقدان۔ یہ نہیں سوچتے کہ نظام معاشرے بناتے ہیں۔ وہ معاشرے جو Quality Nation پیدا کرتے ہوئے، اپنے ملک میں موجود وسائل کی قدر جانتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جدیدت سیکھتے ہیں اور پھر اسے اپنے ملک میں لاکر قوم کی فلاح کا کام کرتے ہیں۔ جب ہر فرد اپنی تعداد نہیں،قدر بڑھاتا ہے، تو وہاں ریاست بھی جواب دہ ہونے لگتی ہے، حتی کہ ایک شخص کے لیے گیس سٹیشن، ڈاک خانہ، ٹیلی فون، انٹرنیٹ ، ریلوے سٹیشن ، حتی کہ جدید ہسپتال تک بنا دیے جاتے ہیں۔ پھر جگہ جگہ پر Thrombectomy جیسی جدیدت میسر ہوتی ہے اور ڈاکٹر شاہین جیسے کئی یار شدید طوفانی بارشوں میں موت کے تاریک کنوﺅں سے بدترین فالج کے باوجود مکمل طور پر بچالیے جاتے ہیں۔ کم از کم اور کچھ نہیںآئیں ہم اخلاق، دین اور ہماری تعریف کی گئی تہذیب سے عاری معاشروں سے جانیں بچانے کا ہنر ہی سیکھ لیں.
فیس بک کمینٹ