نیب اپنے کام سے تجاوز کرتا ہوا بہت آگے نکل گیا ۔ اسی تجاوز کا ذکر بارہا سپریم کورٹ آف پاکستان کے مختلف بنچز کی طرف سے بھی کیا گیا مگر وہ ذکر صرف گفتگو کی حد تک تھا جو اخبارات اور ٹی وی چینلز کی حد تک موثر تھا مگر فیصلوں میں کچھ اور تھا ۔ یہ اکثر ہوتا ہے کہ جج صاحبان کیس کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیتے ہیں وہ میڈیا میں چلتے ہیں تو عوام کی طرف سے واہ واہ ہوتی ہے مگر تحریری فیصلے بالکل مختلف اور بڑھکوں سے پاک لکھے جاتے ہیں۔
’’نیب کا ادارہ سفید ہاتھی بن چکا ‘‘
’’ نیب شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے سے باز رہے‘‘
’’نیب صرف وفاداریاں تبدیل کرانے کے لئے رہ گیا ہے‘‘
’’ نیب والے کام کرتے نہیں اور کارروائیاں ڈالنے میں سر فہرست ہیں‘‘
’’نیب کی کارکردگی مایوس کن ہے‘‘
’’ چیئر مین نیب کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا‘‘
’’ لوٹی ہوئی دولت تو برآمد نہیں کراسکے صرف بندے گرفتار کرتے ہو‘‘
’’ ڈاکٹر کامران جیسے سکالرز کی تضحیک پر نیب کو شرم آنی چاہیے‘‘
یہ چند بیانات ہیں جو نیب کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج صاحبان کے ناموں سے شائع ہوئے ۔ اب نیب نے وفاداریاں تبدیل کراتے کراتے اہلِ دانش اور اساتذہ کو جان سے مارنے کا الزام بھی اپنے سرلے لیا۔ پروفیسر محمد جاوید نیب کی حراست میں زندگی سے گئے۔ان کا جر م صرف یہ تھا کہ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی کا لاہور میں کیمپس بنایا اور اس کے ڈائریکٹر بن گئے بلکہ بنا دیے گئے۔ سابق ڈائریکٹر کو نیب نے لاہور کیمپ جیل منتقل کیا تھا ، طبیعت خراب ہونے پر سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج چل بسے ۔ نیب کی طرف سے وضاحتی بیان کہ ’’ پروفیسر جاوید کو صحت مند حالت میں جیل منتقل کیا گیا تھا ‘‘ نا کافی ہے۔
انتقال کے وقت بھی پروفیسر کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور یہی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہی اور ہمارے نظام احتساب و انصاف پر قہقہے لگاتی رہی ۔ احتساب کے لئے صرف صحافی ، دانشور ، عالم اور سکالرز رہ گئے ہیں اور ان کو نیب کا ادارہ فتح کرنے پر تلا ہے اور اب کامیاب بھی ہوچکا ہے ۔ پروفیسرڈاکٹر مجاہد کامران کو جس انداز میں گرفتار کیا گیا اور پھر عوامی تنقید کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے نیب کی کھچائی کی ابھی اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا اب تو بات تضحیک سے بہت آگے نکل گئی۔
تصویر میں ہتھکڑیاں لگا یہ شخص صرف جرسی پہنے ہوئے ہے اور وہ بھی لگتا ہے بعد میں پہنائی گئی ۔ قمیض نہیں پہنی تھی اور عام طور پر یہ ادارے قمیض کے بغیر ہی اپنے ملزمان کو ڈیل کرتے ہیں ۔ پروفیسر جاوید کو اگر ہتھکڑیاں لگا کر ہی دفنا دیا جائے تو شائد نیب کا طریقہ احتساب ’’امر‘‘ ہوجائے ۔ اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ڈی جی نیب اور آئی جی جیل پنجاب کو طلب کرلیا ہے جو ظاہر ہے کچھ انکوائریوں کے بعد باعزت بری قرار دے دیے جائیں گے اور یہ نظام احتساب اسی طرح احساس دلاتا رہے گا کہ پاکستان میں اہل علم و دانش کا رہنا یہی قیمت مانگتا ہے ۔ وطن عزیز کی بنیادوں تک کو بیچ کھانے والوں تک بھلا ان اداروں کی رسائی کب ممکن ہے کہ ان کو پکڑیں ، ہتھکڑیاں لگائیں یا ان سے لوٹی ہوئی مالی و فکری دولت برآمد کریں ۔ نیب کا آسان ہدف یہی پروفیسر ہیں ان کی تضحیک سے ہی احتساب کے ادارے کا جواز پیدا ہوتا ہے اور اپنے قیام کے جواز کے لئے اگر کسی کی جان بھی لے لی جائے تو کیا حرج ہے ۔
نیب ملتان آفس کے کچھ اعلیٰ افسران کی جعلی ڈگریوں کی کہانیاں ملتان کے اخبارات میں جلی حرفوں کے ساتھ شائع ہوئیں اور شاید کچھ افسران ملتان سے کہیں اور ڈیوٹی خاص پر بھجوادیے گئے۔ برآمد ہونے والی رقم کا حساب کتاب بھی آڈٹ کے بغیر چلتا رہا۔ واپڈ ا ٹاؤن ملتان والے سعید خان کی بظاہر موت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اس اسیر سے ملنے والے ہر دوست اوررشتہ دار کو نوٹس بھجوائے گئے تاکہ وہ آئندہ محتاط رہیں۔ ’’انڈر دا ٹیبل ‘‘ والی نیوز سٹوری بلا تردید شائع ہوتی رہی ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نیب کا ایک جعلی افسر حاصل پور سے گرفتار کیا گیا جو اس ادارے کا خوف دلا کر لوگوں سے لاکھوں ہتھیا چکا تھا۔ احتساب کے نام پر بننے والا یہ معزز ادارہ اب خوف کی علامت بن چکا ۔
اب پروفیسر جاوید کی موت کے الزام سے نیب کو بری کرنے کا پہلا قدم اٹھا لیا گیا اور سارا ملبہ تین کانسٹیبلز پر ڈالا جارہا ہے کہ ہتھکڑیاں انہوں نے ایمرجنسی میں لگائی تھیں۔ کانسٹیبل شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ بیمار ملزم شاید کسی دہشت گرد تنظیم کا ماسٹر مائنڈ ہے اور ہونا بھی یہی تھاکہ قربانی کا بکرا ہمیشہ چھوٹے اہلکاروں کو بنایا جاتا ہے۔
فیس بک کمینٹ