گزشتہ ہفتے مجھے برادرم رضی الدین رضی کی وساطت سے اقبال سہوانی کا شعری مجموعہ موصول ہوا ۔ "محبت رقص کرتی ہے” کا مطالعہ کیا تو سندھ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر سابق ڈپٹی ڈائیریکٹر ریڈیو پاکستان اقبال سہوانی کی دلکش شاعری نے اپنے حصار میں لے لیا۔ پھر اس کتاب میں ان کے سینئیر اور ہم عصر شعراء ادباء نے اپنے مضامین میں ان کی شخصیت اور شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے فنی محاسن بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیئے ہیںاس طرح مجھے اقبال سہوانی اور ان کے فن کے حوالے سے بہت کچھ جاننےکا موقع مل گیا۔ اقبال سہوانی کی شاعری میں جدت اور روایت دونوں ساتھ ساتھ اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان دو انتہاؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ یک جا کر دیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کار کسی بھی صنف میں طبع آزمائی کرتا ہو وہ عمر بھر سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ اقبال سہوانی اس مرحلے سے بھی گزر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر میں یہ کہوں کہ اقبال سہوانی ایک مکمل شاعر ہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ ان کی شاعری پڑھنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ یہ شاعری تو بہت پہلے مجھے پڑھنی چاہیے تھی۔اقبال سہوانی نے معاشرتی وسماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ نعت اور سلام میں بھی بہت عقیدت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ان کے ہاں حمد نعت منقبت و سلام کے علاوہ وطن سے محبت اور موسیقی سے جڑے ہوئے موضوعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ان کا ایک حمدیہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
ہر ایک دل میں مرا رب ہی تو دھڑکتا ہے
اسی کی حمدو ثنا یہ جہان کرتا ہے۔
اور پھر یہ نعتیہ شعر۔۔
سوائے آپ کے اپنا کوئی سہارا نہیں
ہیں آپ بحر وہ جس کا کوئی کنارہ نہیں
اسی طرح منقبت و سلام میں بھی وہ منفرد انداذ رکھتے ہوئے بڑی عقیدت سے بارگاہ آل محمد میں نذرانہ پیش کرتے ہیں
کبھی کسی کا بھی غم اتنا محترم نہ ہوا
حسین آپ کا غم ہے کبھی جو کم نہ ہوا
اولیاء و صوفیا جن میں شہبازقلندر، شاہ عبدالطیف بھٹائی، خواجہ فرید، اور مشاہیر پاکستان محمدعلی جناح، ڈاکٹر علامہ اقبال، اور عبدالستار ایدھی جیسی نابغہ عصر ہستیوں کو بھی انہوں نے اپنے منظوم کلام کے ذریعے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان سے اپنی بھرپور محبت اور عقیدت کا اظہار کیا!
تیرا روضہ نجف نظارا مشہد کی ہے مثال
توں مرشد لجپال سوہنا لعل جھولے لعل
بلوچی شاہ سوندھی خوشبو اور بھٹ شاہ کے راگ
مجھ میں پریت کی جوت جگائیں دھن دھن میرے بھاگ
اور اسی طرح خواجہ فرید سائیں کی بارگاہ میں
کوٹ مٹھن کے سائیں تیری کافی میں
پیار محبت اور وفا ہیں سندیس
روہی کی سب جٹیاں مل کر گاتی ہیں
پیلو جب لگتے ہیں ان کے دیس
اقبال سہوانی نے عشق و محبت کی وجدانی کیفیت کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے رومانوی شاعری کو بھی اپنے خوبصورت لفظوں میں جا بجا لپیٹ رکھا ہے ان کی شاعری ادبی لحاظ سے تو معیاری ہے ہی مگر معنوی لحاظ سے بھی بلندی پر دکھائی دیتی ہے چھوٹی بحر کی غزلوں میں تو ان کی روزمرہ بول چال کا تاثر موجود ہے مگر ان کی طویل بحروں کی غزلوں میں فن کی وہ گہرائی ہے جو اشعار کا لطف دوبالا کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کو باربار پڑھنے کی طرف راغب کرتی ہےجیسے!
تھی سجی بزم ہمارے لیئے لیکن یہ ہوا
کس سلیقے سے وہ مہمان بدل لیتے ہیں
تم سے وابستہ ہوئے اپنی انا کو مارا
تم کہو جان تو ہم جان بدل لیتے ہیں
آخر میں مَیں اقبال سہوانی اور ان کے تمام احباب کو اس کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے امیدِواثق ہے کہ ان کی یہ کتاب خوشبو کا ایک تازہ جھونکا قرار پائے گی میری دعا ہے اللہ تبارک تعالیٰ اقبال سہوانی صاحب کے بلند اقبال کو مزید بلند کرے آمین۔
فیس بک کمینٹ