ملتان کی بنیادی شہرت تو اولیائے کرام کی وجہ سے ہے لیکن آج کل اس کی شہرت کی وجہ حکمران اور اپوزیشن کے سیاست دان بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے گورنر پنجاب، مشیر وزیراعظم عرفان صدیقی کے ہمراہ اکادمی ادبیات پاکستان ملتان کے دفتر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تو اس کے چند دنوں بعد سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سیّد حامد سعید کاظمی حج کرپشن کیس میں کلین چٹ لے کر جیل سے رہا ہو کر اپنے ہوم ٹاؤن ملتان آئے تو آصف علی زرداری بھی بھاگم بھاگ انہیں مبارک باد دینے اور اپنے ہاتھوں سے ان کا منہ میٹھا کرانے ملتان پہنچ گئے۔ ان کے ملتان آنے سے ایک دن قبل حکومت نے یوسف رضا گیلانی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے حسین حقانی کے مضمون کو خوب اچھالا۔ اب یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری کے لیے خوب موقع تھا کہ وہ سیّد حامد سعید کاظمی کو ساتھ بٹھا کر حکومت کے لَتے لیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے باعزت بری ہونے کے بعد ایک طرف پی پی نے سکون کا سانس لیا تو دوسری جانب وزیر داخلہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب آصف علی زرداری نے ملتان بیٹھ کر ن لیگ کے بارے میں جب یہ کہا کہ ن لیگ کے خلاف عدالتوں سے کوئی فیصلہ نہیں آتا تو اس کے جواب میں اگلے دن ملتان میں منعقدہ ایک زنانی تقریب میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے آصف علی زرداری کے بیانات کے خوب جوابات دیئے۔ ابھی شہباز شریف ملتان سے روانہ نہیں ہوئے تھے تو ق لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی ملتان پہنچ گئے۔ انہوں نے ملتان آنے سے قبل مقامی اخبارات میں اپنے دورِ حکومت کے کارناموں پر مبنی اشتہارات بھی شائع کرائے۔ پریس کانفرنس کے علاوہ ایک ورکرز کنونشن سے بھی خطاب کیا۔ ان کے دورہ ملتان کے دوران نہ تو کوئی سیاست دان ق لیگ میں شامل ہوا اور نہ ہی کسی نے ق لیگ سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ یوں چوہدری پرویز الٰہی کو دورہ ملتان کے دوران نہ کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی نقصان۔ البتہ ان کا خرچہ خوب ہوا۔ دوسری جانب آصف علی زرداری کو ملتان دورہ کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سابق وزیر مملکت عبدالقیوم جتوئی جو گزشتہ کئی برسوں سے خودساختہ جلاوطنی کے تحت ملک سے باہر تھے اس سے پہلے کہ وہ پی ٹی آئی کی چھتری پر بیٹھنے کے لیے تیاری کر لیتے اس کو آصف علی زرداری نے اڑنے سے پہلے ہی قید کر لیا۔ اسی طرح جب سیّد حامد سعید کاظمی رہائی کے بعد اسلام آباد سے ملتان آئے تو پی پی اور جماعتِ اہلِ سنت سے تعلق رکھنے والوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے پہلے دن کہا مستقبل میں کون سی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کروں گا ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ رہائی کے دوسرے دن اخبارات نے انہی کے حوالے سے خبر شائع کر دی کہ قبلہ کاظمی صاحب پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اگلے دن آصف علی زرداری اپنے لاؤلشکر کے ہمراہ ان کے گھر پہنچ گئے تو اس موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس (زرداری، گیلانی، کاظمی) میں کاظمی صاحب نے کہا کہ قید کے دوران آصف علی زرداری مستقل رابطے میں رہے۔ آصف علی زرداری کی ملتان سے واپسی کے اگلے دن سیّد حامد سعید کاظمی نے ان تمام خبروں کی تردید کر دی کہ وہ پی پی چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے ہیں۔ اخبارات کی خبریں پڑھنے کے بعد تو ہمیں یوں لگا کہ وہ آصف علی زرداری کو شاید اپنے گھر آنے سے منع ہی کر دیں لیکن آصف علی زرداری نے بھی تو کچی گولیاں نہیں کھیل رکھی ہیں۔ اِدھر حامد سعید کاظمی رہائی کے بعد ملتان آئے اُدھر لاہور سے آصف علی زرداری خصوصی طیارے پر یوسف رضا گیلانی کے ساتھ نہ صرف ملتان آئے بلکہ انہوں نے اپنا دورہ صرف کاظمی صاحب کے گھر تک محدود رکھا تاکہ کاظمی صاحب لامحدود نہ ہو جائیں۔
آصف علی زرداری کی ملتان آمد سے قبل یہ خبر بھی آئی کہ مخدوم جاوید ہاشمی (جو اس وقت آزاد پرندے کی حیثیت سے سیاسی سفر طے کر رہے ہیں) پی پی کی ٹکٹ پر این۔اے 149 سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور وہ جلد ہی ن لیگ سے مایوس ہو کر پی پی میں جانے کے لیے پریس کانفرنس کر کے یہ سیاسی دھماکہ کریں گے۔ لیکن آصف علی زرداری ملتان ایئرپورٹ کے ایک طرف اگر حامد سعید کاظمی کے گھر جا سکتے تھے تو وہ جاوید ہاشمی (جو ایئرپورٹ کی دوسری طرف رہتے ہیں) کے گھر بھی جا سکتے تھے کہ ن لیگ نے این اے 149 کے لیے اس مرتبہ نوجوان قیادت کو سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا نامِ نامی ملک محمد آصف رجوانہ ہے۔ جس کو پنجاب حکومت نے کروڑوں کے ترقیاتی فنڈز بھی دے دیئے ہیں۔ اسی طرح حکومت نے اسی حلقہ میں ن لیگ کے سابقہ اُمیدوار شیخ طارق رشید کو بھی 5 کروڑ کے فنڈز دے کر رام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی گرماگرمی میں شہباز شریف ایک ہفتے میں دو مرتبہ ملتان آئے اور دوسری مرتبہ جب وہ انسدادِ تشدد مرکز برائے خواتین کے افتتاح پر آئے تو انہوں نے سرائیکی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
ہن ظالماں کوں قانون کھَلے مریسی
یعنی اب ظالموں کو قانون جوتیاں مارے گا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سرائیکی میں یہ جملہ تو کہہ دیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے متحارب گروپ ایک دوسرے کو یہی کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ
ہن ظالماں کوں قانون کھلے مریسی
جوتوں سے یاد آیا چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنے دورہ ملتان کے دوران اپنی گفتگو میں حکمرانوں کے لیے بڑی سخت زبان استعمال کی۔ دوسرے معنوں میں وہ بھی حکمرانوں کو ”کھلے دکھا“ کر گئے ہیں۔
آخر میں ہم آصف علی زرداری کے اس بیان کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے جس میں انہوں نے کہا ہم ملتان میں ”بلاول ہاؤس“ بنائیں گے۔ انہی صفحات پر ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا۔ آصف علی زرداری اور ان کے اکلوتے بیٹے کو چاہیے کہ وہ ہر شہر میں ”بلاول ہاؤس“ بنانے کا منصوبہ ترک کریں۔ اگر انہوں نے پارٹی کے لیے کچھ بنانا ہے تو پہلے لٹی پھٹی ہوئی پیپلز پارٹی کو بنائیں۔ بے گھر کارکنوں کے لیے ملک ریاض کی معاونت سے سستے گھروں کی کوئی سکیم لائیں۔ عوام الناس کو صحت کی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے پیپلز ہسپتال کا منصوبہ ترتیب دیں۔ بلاول کے نام سے معیاری تعلیمی اداروں کا اجراءکرائیں۔ معلوم نہیں ”بلاول ہاؤس“ کی تعمیر کے پس منظر میں کون سی عوامی خدمت ہو گی۔ فی الحال ہمیں اتنا معلوم ہے کہ کراچی اور لاہور کے بلاول ہاؤس میں عام آدمی تو دور کی بات ہے پارٹی کے اہم افراد بھی آسانی سے داخل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے آصف علی زرداری سے گزارش ہے کہ بلاول ہاؤس ملتان بنانے کی بجائے وہی خطیر رقم جنوبی پنجاب کے ان مجبور و محکوم عوام کی بہتری کے لیے خرچ کریں جو ایک عرصے سے پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور بار بار پارٹی کے رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری نے ملتان میں مستقل ڈیرے ڈالنے ہیں تو ملتان میں پارٹی سیکرٹریٹ بنا کر رابطہ دفتر کو فعال کیا جائے۔ لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ پھر دیکھیں پارٹی کا زوال کتنی تیزی سے ختم ہوتا ہے۔ اگر آصف علی زرداری اس کے باوجود بھی ”بلاول ہاؤس“ تعمیر کرنا ہے تو پھر بلاول ہاؤس کو جانے والے راستے میں پہلے پیپلز پارٹی کی قبر بنائی جائے تاکہ ”بلاول ہاؤس“ کو دیکھنے جانے والوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس گھر کی تعمیر سے پہلے پیپلز پارٹی کی قربانی بھی دی گئی۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ