موت برحق ہے لیکن اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے نجانے اکثرلوگوں کو موت کیوں پڑ جاتی ہے۔ زندگی سے پیار کرنے والے لوگ سب سے زیادہ مرتے ہیں اسی لئے عموماً دیکھا گیا ہے کہ وہ آئے روز کسی نہ کسی پر مرے ہوتے ہیں۔ خواتین موت کے حوالے سے بڑی محتاط واقع ہوئی ہیں اس لئے مرنے والے کاموں سے دامن بچا کر رکھتی ہیں لیکن ان پر کوئی مر رہا ہو تو اس کا برا نہیں مناتیں۔ موت کو لوگوں نے اب بڑے اہتمام کے ساتھ تقریب کے طور پر منانا شروع کر دیا ہے لہٰذا ہر شخص کے جنازے کو بقول شاعر ”عاشق کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے“ کے انداز میں پورے اہتمام کے ساتھ تدفین کے مراحل سے ہمکنار کیا جاتا ہے۔ یوں تو اخلاقی حوالے سے ہم نے اپنی تمام ثقافتی اور مشرقی اقدار کا جنازہ نکال رکھا ہے لیکن جنازوں کے حوالے سے ہم لوگ اب بھی رواداری اور وضع داری کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لوگ مرنے والے کی یاد میں نہ صرف آنسو بہاتے ہیں بلکہ ماتم اور بین کے انداز میں ایک دوسرے کو رلاتے بھی ہیں۔ ایک دوسرے کو رلانے کے حوالے سے ہم صرف کسی کے مرجانے کا جواز ہی نہیں ڈھونڈتے بلکہ ہم کسی کا حق مار کر یا اسے ٹھوکر مار کر بھی رونے رلانے کا اہتمام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ہم لوگ گریہ زاری میں اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ مریض بھی بستر مرگ پر ہوتا ہے اور ہم رونا شروع کر دیتے ہیں اور جب ہمارے آنسو خشک ہو جاتے ہیں تب کہیں جا کر مریض خالق حقیقی سے ملنا پسند کرتا ہے۔ جس گھر میں مرگ ہو جائے وہاں عجیب و غریب قسم کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر شخص میت کو کس طرح لٹانا ہے، اسے غسل کس سے دلوانا ہے، جنازہ کس سے پڑھوانا ہے، قبر کہاں تیار کرنی ہے، قبر میں کس نے اتارنا ہے اور پھر بعدازمرگ مراحل کس کس انداز سے طے کئے جانے ہیں، ان امور پر اپنی اپنی ناصرف رائے دیتا ہے بلکہ چلا چلا کر اپنے موقف کو منوانے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ ہر شخص مرحوم کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لئے اپنی اپنی پسند کے مطابق اس سے منسوب آخری وصیت کے بارے میں لوگوں کو بتاتا ہے اور یوں مل ملا کر مرحوم سے منسوب کوئی تین چار سو وصیتیں منظرعام پر آ جاتی ہیں۔ خواتین اپنی بہنوں اور اپنے بھائیوں سے گلے مل کر بین ڈالتے ہوئے انہیں کوستے ہوئے ان کی کوتاہیوں کی نشاندہی بھی مرحوم کی آخری وصیتوں کے انداز میں کرتی ہیں کہ اباجی کہا کرتے تھے کہ رب نواز شادی کے بعد ”رن نواز“ بن چکا ہے اور مرید حسین پکا ”رن مرید “ ہو گیا ہے۔ کچھ بہنیں بتاتی ہیں کہ امی سے ایک بار غلطی سے سالن نیچے لگ گیا تھا اس دن روتے روتے ان کی گھگھی بند گئی تھی ہم نے ان سے اس قدر شدید رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں کہ میں اس لئے نہیں رو رہی کہ پہلی بار مجھ سے سالن نیچے لگا ہے بلکہ میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میرا بیٹا ارشد بیوی کے نیچے اتنا لگا ہے کہ کوئی سالن نہیں لگا ہو گا۔ اس طرح کے کلمات تمام رشتے دار مرنے والوں سے منسوب کر کے ایک دوسرے کی ناک کاٹنے کی کامیاب کاوشیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کے دور میں جبکہ سب کی جیب میں اینڈرائیڈ فون موجود ہوتا ہے لہٰذا مرحوم کی نجی زندگی کے جملہ مخفی پہلو سنگل ٹچ میں سب کے سامنے آ جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگوں کی جیبوں سے بقول شاعر ”چند تصویریں بتاں چند حسینوں کے خطوط۔۔۔ بعدمرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا“ کا خلاصہ برآمد ہوا کرتا تھا ، اس زمانے میں ایک بزرگ جو کہ اپنی بیگم سے شدید محبت کے داعی تھے اور ان کی تصویر ہروقت اپنے بٹوے میں رکھا کرتے تھے جس دن فوت ہوئے تو بٹوا خالی کرتے وقت ان کی جیب سے اہلیہ کی بجائے اداکارہ نیلی کی تصویر برآمد ہوئی۔ ان کی بیگم نے اس بات پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا کہ حبیب کے ابا نے بٹوے میں رکھی تومیری تصویر تھی مگر پڑی پڑی نیلی ہو گئی ہے۔ اسی طرح ایک بزرگ پاکستانی فلموں کے بڑے شیدائی تھے۔ فلم دیکھتے دیکھتے دل کی دھڑکن تیز ہونے سے انتقال کر گئے بعدازمرگ ان کی جیب سے اداکارہ نور کی تصویر ملی تو بیٹیاں دھاڑیں مار مار کر کہنے لگیں ہم بھی کہیں کہ اباجی کے چہرے پر اتنا نور کیوں ہے؟۔ محکمہ پولیس کے ایک پی آر او جو کہ افسران کے ساتھ اپنی وابستگی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہا کرتے تھے ایک مرتبہ ایس ایس پی صاحب کی والدہ کے جنازے میں شرکت کے لئے گئے تو تمام رشتے داروں سے زیادہ دھاڑیں مار مار کر اور سینہ پیٹ پیٹ کر روئے جا رہے تھے۔ کئی بار نڈھال ہو کر بیہوش ہوتے ہوتے بچے، لوگوں نے پانی پلا کر انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی مگر وہ بدستور اسی کیفیت میں رہے حتیٰ کہ ایس ایس پی صاحب کو خود آنا پڑا اور انہوں نے آ کر پی آر او کے کان میں کوئی ایسی بات کی کہ ان کا رونا دھونا ایک دم بند ہوگیا اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ قریب بیٹھے ایک شخص نے دریافت کیا کہ آپ تو غم سے اتنے نڈھال تھے ایس ایس پی صاحب نے ایسی کیا بات کہہ دی کہ آپ کا رونا دھونا کافور ہو گیا۔ شرمندہ ہو کر کہنے لگے کچھ نہیں بس انہوں نے کہا کہ شرم کرو، یہ میری سگی والدہ نہیں سوتیلی ماں ہے ، جس نے ہمارے ناک میں دم کئے رکھا تھا، ہم شکر ادا کر رہے ہیں تم روئے جا رہے ہو۔ ایک دانشور کے والد کے انتقال کے بعد مجھے ان کے دفتر میں افسوس کے لئے جانا پڑا۔ دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ان کی فہم و فراست کے بھبھکیوں نے میرا استقبال کیا جن کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ سونگھتے ہی میں کیف و سرور کی لذت میں لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ ان کے دفتر کا گیٹ مجھے مستی گیٹ دکھائی دیا۔ اندر داخل ہوا تو موصوف ایک بڑی بوتل کے سامنے چھوٹا سا منہ بنائے ہاتھ میں مشروب فراست تھامے سامنے لگی ہوئی ایل ای ڈی سکرین پر ایسے مناظر دیکھ رہے تھے جو نصیبولعل کے گانوں کی صورت میں فلمائے جاتے ہیں اور انہیں دیکھتے ہوئے لوگ نرگسی کوفتے اور شربت دیدار سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں۔ موصوف جھومتے ہوئے میرے گلے لگے اور جھوم برابرجھوم کے انداز میں میرے گالوں کے دونوں جانب چوم برابر چوم کے انداز میں معانقہ کرنے لگے۔ کمال محبت سے اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے آنے کا سبب پوچھا۔ ماحول میں پھیلی ہوئی مخصوص مہک اور پھر ان کی موسیقی سے شغف کا اندازہ لگاتے ہوئے بڑے ادب سے عرض کیا کہ اگر ناگوارخاطر نہ ہو تو کچھ دیر کے لئے ایل ای ڈی پر چلنے والا شو بند کر دیں، میں تعزیت کے لئے حاضر ہوا ہوں، انہوں نے میری بات کا بھرم رکھتے ہوئے صرف شو کو میوٹ کرنے پر اکتفاکیا اور دعاکے لئے ہاتھ بلند کر دیئے۔ مورال توپہلے ہی بلند تھا لہٰذا میں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہاتھ دعا کے لئے بلند کر دیئے اور سامنے سکرین پر چلتے ہوئے شوکو دیکھا ان دیکھا قرار دے کر جلدی جلدی دعائیہ مرحلہ مکمل کیا۔ میں نے رسماً کہا کہ والد کی وفات کے بعد بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے آپ پر بھاری ذمہ داری عائدہو گئی ہے۔ اللہ آپ کو سرخرو کرے حالانکہ ان کا چہرہ سامنے والے مناظر دیکھ دیکھ کر پہلے ہی سرخ ۔۔۔ رو ہو چکا تھا۔ فرمانے لگے اب تو چھوٹے بھائیوں کو راہ ہدایت میں نے ہی دکھانی ہے اور ساتھ ہی بوتل سے گلاس میں مشروب فراست ڈالتے ہوئے ایک ہی گھونٹ میں حلق سے اتارتے ہوئے گویا ہوئے دعا کریں اللہ انہیں ہدایت دے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے والد کا جنازہ آپ کے گھر کی بجائے دوسرے محلے سے کیوں اٹھا تھا تو ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے ابا جی سے آخری عمر میں ایک ”چول“ بج گئی تھی انہوں نے دوسری شادی کر لی تھی اس لئے ہم بھی جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔موت کے حوالے سے ہمارے رویے عجیب و غریب سے ہیں، کاش ہم ان پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کریں۔
فیس بک کمینٹ