راقم کا اب کسی بھی سیاسی جماعت سے عملاً تعلق نہیں ہے، البتہ ماضی میں بھرپور سیاسی زندگی گذاری ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں چلنے والی تحریک آزادی صحافت ہو یا تحریک بحالی جمہوریت‘ ان میں سرگرمی سے حصہ لیا۔گذشتہ چار دہائیوں کے کتنے ہی کاغذات ہیں کہ جن کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور بیشمار واقعات ایسے ہیں جن کا عینی شاہد ہوں۔ بھٹو خاندان کے ساتھ میری بڑی قربت اور نیاز مندی رہی ہے، 1970ءکے انتخابات ہوں یا 1977ءکے ، 1977ءمیں جنرل ضیاءالحق کے اقتدار میں آنے کے بعد 90 دن میں نہ ہونے والے انتخابات ہوں یا 1979ءکے ملتوی ہونیوالے انتخابات اور پھر 1988،1990 اور 1993 کے انتخابات کی تو اپنی ایک تاریخ ہے۔ ان تمام انتخابات میں کئی حلقوں اور بالخصوص شجاع آباد کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ پیپلزپارٹی راقم کے حوالے کرتی تھی، جو 70 – کلفٹن اور بلاول ہاؤس سے جاری ہوتے تھے، جبر اور خوف کے دور میں یہ خاکسار پارٹی کا متبادل امیدوار ہوتا تھا، بھٹو خاندان کی دو نسلوں کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے سحر میں تو ہم زمانہ طالب علمی کے دوران اسیر ہوگئے تھے جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں مزاحمتی جدوجہد کا مزہ بھی چکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے تو باقاعدگی کے ساتھ سال میں دو مرتبہ ورنہ ایک بار تو ضرور ملتان میں تشریف لاتے اور کئی روز سابق گورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی کی رہائشگاہ ”وائٹ ہاؤ س“ پر قیام کرتے ۔ اس خاکسار کا نواب صادق حسین قریشی کا ایک فیملی ممبر ہونے کے ناطے اور انکے صاحبزادے نوابزادہ ریاض حسین قریشی سے ذاتی گہری دوستی کے باعث وائٹ ہاؤ س پر بہت زیادہ آنا جانا تھا۔ یہاں پر کئی بار وفاقی کابینہ اکٹھی ہوئی، اہم وفود ملاقات کیلئے آتے تھے۔ بھٹو صاحب کے روزمرہ کے معمولات ، انکے کام کرنے کا انداز، سرکاری فائلیں نکالنے کی مہارت، کس کو کس نام سے پکارا جاتا تھا، کس کس کو کب کب اور کیوں جھاڑ پڑی، کس کیلئے عزت و احترام تھا، ڈاکٹر عبدالقدیر یہاں کیسے لائے گئے اور جنرل ضیاءالحق کی نیاز مندیوں جیسے بیشمار واقعات ایسے ہیں جن کا آج شاید کسی کو علم ہو ۔ خدا نوابزادہ ریاض حسین قریشی کو صحت عطا کرے، انشاءاللہ ایک کتاب تیار ہوگی۔ راقم 1968ءمیں سال دوئم کا طالبعلم تھا اور درسگاہ گورنمنٹ کالج ملتان تھی، جنرل ایوب خان کی حکومت کےخلاف روز ہی جلوس نکلتا تھا، جو بند بوسن روڈ سے شروع ہوکر چوک گھنٹہ گھر پر ختم ہوتاتھا، یہ وہ وقت تھا جب مغربی پاکستان میں جناب بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بتدریج پاکستان پیپلزپارٹی سے لوگوں کی وابستگی ،ایوب خان کی حکومت کو خوف میں مبتلا کررہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جناب بھٹو پہلی بار ملتان میں ایک استقبالیہ میں شرکت کیلئے پہنچے تو ایک مقامی ہوٹل کے باہر کچھ غنڈوں نے سرکار کی سرپرستی میں ہنگامہ کردیا، ہوٹل کے داخلی دروازے کے شیشے توڑ دیئے جاتے ہیں اور پتھراؤ کیا جاتا ہے ، جناب بھٹو بمشکل ہوٹل کے عقبی دروازے سے اندر جاتے ہیں، شرکاءاستقبالیہ شرپسند عناصر کا مقابلہ کرتے ہیں اور غندے فرار ہوجاتے ہیں۔ ملک مختیار احمد اعوان ، محمود نواز خان بابر، ملک الطاف علی کھوکھر، اشفاق احمد خان، ایم اے گوہر، عبدالحلیم خان عرف بڈوخان، خورشید خان اور غفور خان نمایاں کردار اداکرتے ہیں ۔ اس طرح ملتان شہر میں پیپلزپارٹی کو کامیاب انٹری مل گئی، اگلے دن ملتان کے بعد خانیوال بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنے کیلئے روانہ ہوئے تو قادر پور راں کے قریب انکے قافلے پر حملہ کیا جاتا ہے ، رات کو واپس ملتان پہنچتے ہیں ، اگلی صبح ملتان بار سے خطاب کیا اور بعد دوپہر قلعہ قاسم کہنہ پر دمدمہ کے پاس جلسہ عام میں خطاب کرنے پہنچے ۔ جناب بھٹو نے ابھی تقریر شروع ہی کی تھی کہ غنڈوں نے ہلڑ بازی کردی، غنڈے سٹیج کی جانب بڑھ کر بھٹو صاحب پر حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن پرجوش عوامی ہجوم نے ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا، اس وقت کا گلو بٹ یعنی نازو بھگیلا ان غنڈوں کی قیادت کررہاتھا۔ بھٹو صاحب کیساتھ ایسا ہر ضلع اور دورے میں ہورہاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اخبارات پر حکومت کا مکمل کنٹرول تھا، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر سرکار کا قبضہ تھا، اس وقت کے بڑے سیاسی نام اور گھرانے حکومت وقت کے زیر اثر تھے، کوئی نزدیک نہیں پھٹکتا تھا۔ 29اور 30نومبر 1967ءکو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ پر پارٹی کا دو روزہ اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں تقریباً400افراد نے شرکت کی تھی، یہ کالم نگارسال اول کا طالب علم تھااور اس اجلاس کی کارروائی دیکھنے میں کامیاب ہوگیاتھا۔ یہ پہلا سفر تھا جو ملتان سے لاہور کیلئے کیا گیا تھا، اس اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں لایاگیاتھا، شروع شروع میں ملتان کیلئے تنظیمی کام گل حمید کررہے تھے، یہ سردار محمد اقبال ہراج کے سسر تھے، نیشنل عوامی پارٹی میں کام کرچکے تھے ، ترقی پسند ذہن رکھتے تھے ، انہوں نے مجھے پارٹی کی رکنیت سازی کی کاپی تھمائی اور شجاع آباد کیلئے کنوینر مقرر کردیا۔ کالج سے چھٹی کے دن شجاع آباد سے شیخ محمد شفیع آڑھتی ، حکیم بابا نور محمد شاہ، محمد عمر قریشی، چاچا نورا، چاچا اللہ دیا، بابو کریم الدین قریشی، شیخ شمس الدین قریشی، شیخ سراج الدین قریشی، سید مقرب حسین گیلانی، عبدالرشید بان والے، محمود عرف بودا ٹھیکیدار ، رحمت اللہ بھٹی، حاجی غلام رسول زرگر، میاں محمد علی، بزمی بھائی ، میاں جمیل اختر ہاشمی، رانا اسلم نون، رانا اقبال نون، یٰسین شربت والا، خورشید شومیکر، مقیم ہیر سیلون والے، اسحاق عوامی ، چوہدری ارشاد احمد، سید محمد ضیاءترمذی، مرزا آفاق بیگ، چوہدری جوم خان میو، رانا اختر علی، دین محمد تبسم ، قیوم کامریڈ نے خاص طور پر ہمیشہ اس بات پر فخر کیا کہ وہ چار آنے والے بنیادی کارکن ہیں۔کارکنوں کا پہلا اجلاس ریلوے گیٹ کے اندر میاں محمد علی کی رہائشگاہ پر ہوا، انکی بیگم شجاع آباد کی معروف اور محترم ٹیچر تھیں، چوطاقہ گیٹ کے اندر حاجی غلام رسول زرگر کے چوبارے پر پارٹی کا پہلا دفتر قائم کیا گیا، چوہدری بنیاد علی سرکاری ملازم تھے لیکن انہوں نے پہلے جلسہ عام کیلئے بہت تعاون کیاتھا اور اس کامیاب جلسہ سے ساہیوال والے راؤ خورشید علی خان نے خطاب کیا تھا، راؤ صاحب نہایت اصولی اور مخلص انسان تھے، ساہیوال سے ایم این اے بنے تھے اور اسمبلی میں اپنی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ کارکن خود اشتہارات دیواروں پر چسپاں کرتے تھے، ٹانگوں اور رکشوں میں بیٹھ کے اعلانات کرتے تھے، دفتر میں دریاں بچھاتے تھے، جھاڑو خود یتے تھے ، کارروائی رجسٹر میں تحریر کرتے تھے، مختصر یہ کہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی پھیل گئی۔ یکم اگست اور 4دسمبر 1970ءکو بھٹو صاحب نے شجاع آباد، جلال پور اور ملتان میں جلسوں سے خطاب کیا ، جناب بھٹو نے قریہ قریہ گاؤ ں گاؤ ں خاک چھانی، وہ اپنی بات عوام تک پہنچانے کیلئے جھلسا دینے والے صحراؤ ں سے لیکر برفانی پہاڑوں تک پہنچے، بڑی محنت سے پارٹی کو کھڑا کیا۔جناب بھٹو کی یادداشت بھی بے پناہ تھی، ان کی زبان فصیح اور قلم رواں تھا، انہوں نے بڑی ذہانت اور مردانگی سے رموز مملکت اور انسانی معاملات میں مہارت حاصل کی اور چند برسوں میں عوام کے ہیرو بن گئے اور پاکستان کی سٹیج کے عین درمیان اپنی جگہ بنالی، عوام کا بھی انکے ساتھ اپنا ایک رومانس تھا، جنہوں نے انکے ساتھ محبت کی تو ٹوٹ کر لی اور مخالفوں نے بھی کھل کر مخالفت کی۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک شخصیت کا نام نہیں ایک عہد کا نام ہے ،میرے خیال میں وہ قائداعظم کے بعد سب سے بڑے سیاسی قائد ثابت ہوئے، یہ انکا دعویٰ نہیں تھا بلکہ تاریخ نے انہیں یہ مقام بخشا، وہ پاکستان میں سیاست کے جس تاریخی موڑ پر سامنے آئے اس کے تقاضوں کے جواب میں جناب بھٹو کے فیصلوں او راقدامات نے انہیں اس اعزاز کا مستحق قرار دیا، سب سے کم عمر وفاقی وزیر کی حیثیت سے شروع ہونےوالی یہ منفرد سیاسی زندگی اپنے آخری دم تک پاکستان کی سیاست کو متاثر کرتی رہی، ان کے لاشعور میں یہ کھٹکا تھا کہ ان کے پاس وقت کم ہے،وہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ میں آندھی کی طرح آیاہوں اور طوفان کی طرح چلا جاؤ نگا، اس تحریر میں انکی حکومت کے کارناموں کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی، تاریخ اور اخبارات کے صفحے بھرے پڑے ہیں ، جناب بھٹو کا سب سے زیادہ قیمتی اور طاقتور تحفہ شعور ہے، یہ شعور ہی تو ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مملکت کی حامی سیاسی تنظیموں اور مذہبی پارٹیوں کو عوام کی طرفداری میں لے آیا، اسی شعور نے جمہوریت کو بحال کرایا، اسی شعور نے میڈیا کو آزادی دلائی، اسی شعور نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کو برقرار رکھا اور بالآخر فتح مند بھی کیا۔ جناب بھٹو نہایت ذہین، فطین اور بیدار مغز حکمران تھے اورقدرت نے انہیں بصیرت سے نوازاتھا، عوام کی نبض پر انکا ہاتھ ہوتا تھا اور رابطہ عوام مہم کے لئے جلسے جلوس نکالنا انکا پسندیدہ مشغلہ تھا، آج جس سی پیک منصوبے کا کریڈٹ لیا جارہاہے یہ 1975ءمیں جناب بھٹو کے انڈس ہائی وے منصوبے کی جدید شکل ہے۔ اسی شخص نے 1973ءکا متفقہ اسلامی جمہوری آئین دیا، مگر مولوی حضرات نے نظام ِ مصطفی کی تحریک چلاکر منافقت کی وہ ریت ڈال دی کہ جس نے جنرل ضیاءالحق کو آئین سے غداری اور پھر اپنے عقائد بنانے کے اقدامات نے ہمیں ایسے حال میں پھنسا دیا کہ جس سے نجات کیلئے آج ہر کسی کو بھٹو یاد آتا ہے اور بہت یاد آتا ہے ۔ 28اپریل 1977ءکو جناب بھٹو نے اسمبلی میں کہا کہ ”میرے بہت سے جرائم ”ہاتھی“ کیلئے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں، میرا پہلا جرم یہ ہے کہ میں نے چین سے تعلقات بڑھائے، میرا دوسرا جرم یہ ہے کہ میں نے مشرق وسطیٰ میں عربوں کی حمایت کی اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے پی ایل او کو تسلیم کیا اور یاسر عرفات نے اقوام متحدہ سے خطاب کیا، میرا تیسرا جرم یہ ہے کہ میں نے ایٹمی پراسیسنگ پلانٹ کی خریداری پر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی“، اس تقریر پر امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس نے جناب بھٹو کو ایک خط تحریر کیا، بھٹو صاحب 30اپریل 1977ءکی سہ پہر کو ایک کھلی جیپ میں سوار ہوکر نکل پڑے اور راجہ بازار میں اس خط کو عوام کے درمیان لہرادیا اور کہا کہ میرا دشمن پی این اے نہیں بلکہ جمی کارٹر ہے ۔ کام دکھانے والے اپنا کام دکھا چکے تھے، اسلام آباد میں پارٹی از اوور، پارٹی از اوورکی آوازیں بلند ہورہی تھیں، آخر کار جو ہوناتھا وہ ہوگیا اور بھٹو صاحب جولائی 1977ءکو حفاظتی حراست میں لے لئے گئے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ، مقدمہ چلانا تو صرف خانہ پری تھی، ان سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ تو بہت پہلے کیا جاچکاتھا ۔
4اپریل 1979ءکا دن تھا جب راقم نیو سنٹرل جیل ملتان میں اپنی نظر بندی کے ایام گذار رہاتھا کہ 11بجے صبح کی خبروں کے ذریعے معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب کو نہ صرف پھانسی دیدی گئی ہے بلکہ گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک بھی کردیاگیا ہے۔ جیل میں موجود سردا رفاروق احمد خان لغاری، ڈاکٹر غلام حسین، قیوم بٹ، زبیداالاسلام شیروانی، امیر نواز کامریڈ، زیارت غوری، ڈاکٹر شیر علی اور دیگر کارکن سکتے میں آگئے۔ دوران اسیری بھٹو صاحب کے ساتھ انتہائی اذیت ناک سلوک روا رکھا گیا، بدنام کیا، بے عزت کیا، ان پر ہر طرح کی غلاظت پھینکی گئی، جدید پروپیگنڈے کے سارے گُر انہیں ذلیل و رسوا کرنے کیلئے آزمائے گئے لیکن وہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھوتے چلے گئے، پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو راولپنڈی میں نظر بند تھیں، انکا چہرہ نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی اسیر بیگم کو گڑھی خدا بخش لایاگیا۔ یہ انتہائی شرمناک اور بےہودہ حرکت تھی، اور پھر ٹھیک نو سال کے بعد قدرت نے یہ بھی دکھایا کہ وقت کے مطلق العنان حاکم کے ورثاءموجود تھے جبکہ تابوت کے اندر چہرہ موجود نہیں تھا، نہ کفن نصیب ہوا نہ غسل کی نوبت آئی۔ بہر حال بھٹو صاحب بھی ایک بشر ہی تھے ، نہ وہ معصوم تھے اور نہ ہی ان کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ تھا، یقینا ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہونگی، کہیں نہ کہیں انہوں نے بھی تجاوز کیا ہوگا، لیکن 5جولائی 1977ءکے بعد بھٹو صاحب نے جس راہ کا انتخاب کیا اس نے انکا قد بلند کردیا، ذرا اپنے چاروں طرف نظر دوڑایئے اور دیکھئے کہ ہمارے درمیان کئی ایسے بڑے نام موجود ہیں جو بظاہر زندہ ہیں، اقتدار پر جان چھڑکتے ہیں لیکن چلتی پھرتی لاشیں ہیں اور تاریخ کے کوڑا دان کا کچرا ہیں، لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو جسمانی طور پر دنیا میں نہیں ہیں لیکن رہتی دنیا تک امر ہوگئے ہیں، ان میں ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں جو 4اپریل کی صبح 2بجکر 5منٹ پر پھانسی گھاٹ پر 11فٹ گہرے گڑھے میں معلق ہوکر نئی زندگی پاگئے ۔
فیس بک کمینٹ