جب یہ سطور قارئین کرام کی نظر سے گزر رہی ہوں گی تو بندہ ناچیز روضہ اقدس کی زیارت کے لئے لاہور سے روانہ ہوچکا ہوگا۔ملکی معاملات کی رفتار تیز اور نئی صورتحال پیدا ہوچکی ہوگی۔میڈیا پر بہار ہے، عدلیہ چھائی ہوئی ہے، فوج کا ٹویٹ جاری کرنے پر گزارا ہے، جیلیں نام نہاد اشرافیہ کو تکنے کیلئے ترس رہی ہیں،2018 ءکا سال پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت اختیار کرتا ہوا نظر آرہا ہے، اس سال بہت اوتھل پوتھل ہونی ہے، باہر پاکستان دشمن قوتیں اپنا تانا بانا بن رہی ہیں اور اندرونی طور پر ان قوتوں کے کارندے متحرک ہیں، بڑی پیچیدہ اور حساس صورت حال کا سامنا ہے، پاکستان کو بیرونی محاذ پر امریکہ، بھارت، افغانستان اور اسرائیل ہمارے خلاف ایک صفحے پر ہیں اور ان کی نانی برطانیہ بھی ان کے ساتھ ہے، پیرس فرانس میں ہونے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اعلامیہ میں امریکی انتظامیہ کی پر زور کوشش کے باوجود پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا جن کو منی لانڈرنگ اور دہشتگرد تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے کیلئے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،23 فروری کوFATF کی میٹنگ میں پاکستان کو جون تک کی مہلت دی گئی ہے، لیکن بھارتی میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان کو دہشتگردی کی معاونت کرنے والے مشتبہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جارہا ہے۔
ماسکو سے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ٹوئٹ نے بھی واضح کردیا کہ پاکستانی رہنماؤں کو حساس معاملات کی کتنی سوجھ بوجھ ہے اور رہی سہی کسر مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بیان نے پوری کردی تھی، جانے نہ جانے ٹرمپ ہی نہ جانے دنیا تو ساری جانے ہے کہ پاکستان گزشتہ پندرہ برسوں سے دہشتگردی کے خلاف مشکل ترین جنگ تن تنہا لڑرہا ہے، اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان دہشتگردوں کے خلاف انتہائی پیچیدہ علاقوں میں مصروف عمل رہا ہے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھر سے بے گھر ہوئے، علاقوں کو دہشتگردوں سے پاک کیا گیا، پھر ان لاکھوں مہاجرین کو واپس اپنے گھروں میں بسایا گیا، یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا، ظاہر ہے زمینی اور فضائی کارروائیوں میں صرف دہشتگرد ہی نہیں مارے گئے ہونگے، معصوم اور بے گناہ بھی اس زد میں آئے ہونگے، چنے کے ساتھ تو گھن پس ہی جاتا ہے، یہ پاکستان آرمی کیلئے بہت صبر آزما لمحات تھے، ایک طویل جدوجہد کے بعد تقریباً پاکستان میں دہشتگردوں کا خاتمہ کیا گیا ہے، اب دہشتگردی پاکستان سے نہیں افغانستان سے ہورہی ہے، افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خان جو گل کھلا رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن امریکہ افغانستان میں وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرسکا جو وہ چاہتا تھا، اب وہ اپنی ہزیمت کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے، پاکستان جن خطرات سے دوچار ہے اور جس مشکل صورت حال کا سامنا کررہا ہے، ایسے میں بھلا وہ کیسے دہشتگردی کی سرپرستی کرکے خودکشی کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے، لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تو پوری دنیا میں مارشل لاءلگانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے،FATF کا کام دنیا میں منی لانڈرنگ کو روکنا ہے، دہشتگردی کے حق میں جو ٹرانزیشن ہورہی ہے اس کا خاتمہ کرنا ہے، ویسے بھی دنیا میں اس آرگنائزیشن نے کون سا تیر مارلیا ہے۔
نیٹو اور امریکی فورسز نے دنیا میں اودھم مچایا ہوا ہے، پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی افواہ نے سٹاک مارکیٹ کو متاثر کیا، مندے کا رجحان پیدا کیا، یہ تمام حربے پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے ہیں، ابھی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا جائے گا لیکن اس نازک صورت حال میں ملک کے مفاد کو پس پشت ڈال کر حکومت اداروں کے ساتھ جھگڑالو بنی ہوئی ہے، حکومت پاکستان کے دو رویئے ہیں ایک جانب حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ فوج کارروائی نہیں کرنے دیتی، میاں نواز شریف صاحب کا گروپ یہ سٹوری فروخت کرتا ہے، دوسرا گروپ یہ راگ الاپتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو دیکھ کر پاکستان کو سزا دے رہا ہے، اس مہن کاری کو دشمن بھی سمجھتا ہے اور راولپنڈی بھی جانتا ہے، یہ ہی وہ چالاکیاں ہیں کہ جن کے باعث پاکستان ایک عرصے سے بے عملی، سستی اور کمزور قوت فیصلہ کے نتائج بھگت رہا ہے، حالانکہ ہے یہ سب کچھ تزویراتی اور جیو اکنامک مفادات کے معاملات ہیں، اب تو یقین سا ہو چلا کہ شاید ایک سازش کے تحت پچھلے چار سالوں میں پاکستان کو بغیر وزیر خارجہ کے رکھا گیا، کس سے پوچھا جائے کہ دہشتگردوں اور خطے میں کشیدگی اور بدامنی میں بھارت کا کردار بے نقاب کرنے کیلئے عالمی سطح پر جارحانہ مہم کیوں نہ چلائی گئی، کون جواب دے گا کہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ہماری جانب سے نئے دوستوں کی تلاش کا عمل تیزی کے ساتھ شروع کیوں نہیں کیا گیا، کیوں دنیا کو یہ باور نہیں کرایا گیا کہ بمبئی حملوں کی منصوبہ بندی، ہدایات اور عملی جامہ پہنانے میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل شریک تھے، کس نے روکا تھا حکومت کو کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ نہ دکھایا جائے، سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا ملوث ہونا اب تو کوئی راز نہیں رہ گیا اور تو اور کلبھوشن یادیو کے اعترافات کو ہم نے کتنے بین الاقوامی فورموں پر اٹھایا، اس کو نالائقی کہا جائے یا نااہلی یا پھر وطن فروشی، جو بھی ذمہ دار ہیں ان کو ڈوب مرنا چاہئے، قومی سلامتی کے معاملات پر تو ہم آہنگی ہونی چاہئے، کیا وزارت خارجہ نے حکومت پاکستان کو بریف کیا ہے کہ وہ اپنا مالیاتی میکنزم عالمی معیار کے مطابق استوار کرے، سماجی و سیاسی منظر اور نظام کی کمزوری سے آگاہی کے باوجود اندرونِ ملک طرز حکمرانی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کے نتائج ریاست کو بھگتنا پڑتے ہیں، خسارے میں ملک رہتا ہے، بابوؤں نے تو امریکہ اور لندن میں اپنے انتظامات کئے ہوئے ہیں، پاکستان کو تین ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔
پاکستان کے سورماؤں کو سمجھنا چاہئے کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا بھارت کا سکھایا ہوا گیت گارہے ہیں، تیز ترین سفارت کاری وقت کی ضرورت ہے، باہر ہماری بربادی کے منصوبے تیار ہورہے ہیں اور اندر کی صورت حال یہ ہے کہ حکومت ہڑتال پر ہے، سبحان اللہ، یہ دن بھی اس ملک کو دیکھنا تھے، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے احد چیمہ صاحب کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سوسائٹی کی32 کنال اراضی غیر قانونی طور پر الاٹ کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر گرفتار کیا گیا، بطور ڈی جی ایل ڈے اے14 ارب روپے کے منصوبہ کا ٹھیکہ لاہور کاسا کمپنی کو دیا گیا، کاسا کمپنی تین کمپنیوں بسم اللہ انجینئرنگ سروسز، سپارکو اور چائنہ گروپ کا منصوبہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کمپنیوں کو پندرہ کروڑ سے زائد رقم کامعاہدہ دیا جانا غیر قانونی تھا، کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کو64 کروڑ50 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا، احد چیمہ کی گرفتاری پاکستان میں اتنا بڑا واقعہ اس لئے لگتا ہے کہ افسروں نے بھی مافیا کی صورت میں کام کرنا شروع کیا ہوا ہے، راولپنڈی سے ڈپٹی کمشنر طلعت محمود گوندل اور کمشنر ندیم اسلم چوہدری لاہور پہنچے ہیں، چیف سیکرٹری آفس احتجاج کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں، سرکاری ملازمین پر ڈی ایم جی گروپ اور پی ایس پی کی سوچ اور خدشات میں بھی واضح فرق پایا جارہا ہے، اب کسر یہ باقی رہ گئی ہے کہ کسانوں اور نابینا افراد کے بعد ڈی ایم جی گروپ کے افسران بھی مال روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آئیں، احد چیمہ صاحب، ریاست کے ملزم ہیں، جسٹس جاوید اقبال کے ملزم نہیں ہیں، اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ چیمہ صاحب کو غلط گرفتار کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ دفاتر کو تالے لگادیئے جائیں، کام کرنا چھوڑ دیا جائے، پنجاب کی بیورو کریسی نیب سے خوف زدہ کیوں ہے، اعلیٰ افسر شاہی نے کبھی ہڑتال کی ہے، یہ ہیں انہونیاں، بدقسمتی سے اس صورت حال کے پیچھے مرکز اور صوبے کی پاور ہے۔
بیورو کریسی پڑھی لکھی ہے، نیب کا سربراہ قانونی بندہ ہے، لاہور میں بیٹھ کر دفاتر بند کرنا، سرکاری کام نہ کرنا، تالے لگادینا تو اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا ایک ریاست کا، بیورو کریسی بخوبی جانتی ہے کہ ریاست کی مشینری جام نہیںکی جاسکتی، خدا کا خوف کرو، بابوؤں، کہاں لے جارہے ہو حالات کو، دشمن باہر سے گھیرا ڈال رہا ہے اور ہم اندر سے ریاست کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں، ریاست کا ڈھانچہ بنانے چلے ہو اور اوپر سے آنکھیں بھی دکھاتے ہو، جو ریاست کے ملازم تھے وہ حکومت کے نوکر بن گئے ہیں، پبلک سرونٹ سے خاندان کے سرونٹ ہوگئے، ان حضرات میں سے اکثر کی آمدنی مشکوک ہے، یہ اپنے تحصیلداروں، پٹواریوں اور ریڈروں کے سامنے ننگے ہیں اس وقت یہ سب کرم فرما کہاں تھے کہ جب آفتاب چیمہ اور نیکوکار جیسے افسروں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا، مسخرے حاکموں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں سے آٹا گوندھ لے، خدا کا نام لو، کن چکروں میں پڑ گئے ہو، جو آپ کاکام ہے وہ کرو،مخلوق خدا کی دعائیں لو،کہیں یہ تو نہیں کہ احد چیمہ کی گرفتاری سے پنجاب کرپشن فری کے دعوے دھرے کے دھرے تو نہیں رہ جائیں گے۔؟
(بشکریہ : روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ