میں پنجاب کے سینئر بیورو کریٹ احد چیمہ سے زندگی میں صرف دو دفعہ راہ چلتے ملا ہوں چنانچہ اس سرسری ملاقات کے نتیجے میں میں ان کے بارے میں کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں البتہ ان کے بارے میں دو آراء ہمیشہ سننے کو ملیں، ایک تو یہ کہ وہ بہت متکبر شخص ہیں اور دوسرے یہ کہ اپ رائٹ افسر ہیں۔میری بدقسمتی کہ ان کی بدعنوانی کے بارے میں کوئی داستان سننے کو نہیں ملی۔ بدقسمتی اسلئے کہ ان دنوں ہر شخص پر اربوں کھربوں یا کم از کم کروڑوں روپوں کی کرپشن کے الزامات اتنی کثرت سے سننے کو ملتے ہیں کہ جس شخص کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع سننے کو نہ ملے وہ زہر لگنے لگتا ہے کہ جب ہم سب کرپٹ ہیں تو یہ کرپٹ کیوں نہیں ہے؟الحمد للہ گزشتہ روز ان پر بھی ایک الزام سننے میں آیا اور نیب والے انہیں ان کے دفتر سے اٹھا کر لے گئے اور سلاخوں کے پیچھے بند کر کے اور سر پر کھڑے ایک رائفل بردار اہلکار کی تصویر کھینچ کر اخباروں میں اشاعت کے لئے دے دی جس پر پنجاب بیورو کریسی میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ ہڑتال پر چلی گئی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے انہیں منا کر یہ ہڑتال ختم کرائی۔جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں احد چیمہ کے بارے میں صرف دو سنی سنائی باتوں کا ’’گواہ‘‘ ہوں، ایک تو یہ کہ وہ بہت متکبر ہیں اور دوسرے ایک اچھے افسر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے متکبر ہونے کی شہادت ان کے اس خط سے مل گئی جو انہوں نے نیب کے نام لکھا جو قطعاً مناسب نہیں تھا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ انہوں نے کوئی بدعنوانی کی ہے یا نہیں تو اس کا پتہ اس صورت میں چلے گا اگر نیب والے ان کے تلخ خط کا غصہ تھوک کر اللہ کو حاضر و ناظر جان کر تحقیقات کریں گے۔تاہم میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ چونکہ شہباز شریف کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، اس لئے ان کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ کسی کرپٹ افسر کو بھی برداشت نہیں کرتے، البتہ ایک ’’عیب‘‘ ان میں ضرور ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت بلکہ وقت سے بھی پہلے تکمیل کے لئے کبھی کبھار وہ چھوٹے موٹے ضابطوں کو رستے کی دیوار نہیں بننے دیتے۔ احد چیمہ ان کے فیورٹ افسروں میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی بے ضابطگی ان سے سرزد ہوئی ہو یا اللہ نہ کرے جو الزام ان پر لگا ہے اس میں بھی کوئی صداقت ہو، مگر بادی النظر میں ایسا نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نیب کے افسران کو توفیق دے کہ وہ ہر قسم کے عناد سے بالاتر ہو کر شفاف تحقیقات کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔میری ہمدردیاں اور دعائیں بہرحال احد چیمہ کے ساتھ ہیں۔
میرے آج کے کالم کا بنیادی موضوع احد چیمہ نہیں تھا مگر چونکہ یہ کرنٹ ایشو تھا اس لئے میں نے ابتدا اسی سے کی۔ میں آج مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا تھا، جہاں تک مجھے علم ہے پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف آئندہ الیکشن جیتنے کی صورت میں شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم نامزد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، جو یقیناً ایک صائب فیصلہ ہے کہ ساری دنیا اس امر کی معترف ہے کہ شہباز شریف نے خود کو ایک زبردست منتظم ثابت کیا ہے۔پنجاب کے عوام کی خدمت کے لئے انہوں نے دن رات ایک کر دیا ہے۔ کام کے حوالے سے وہ ایک جنونی شخص ہیں اور انہوں نے اپنے قائد نواز شریف کے وژن کے مطابق ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ کسی دوسرے صوبے میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس طرح مرکز میں کھربوں کے منصوبوں میں بھی کرپشن کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح پنجاب میں بھی بڑے بڑے منصوبے اصل لاگت سے بھی کم لاگت پر مکمل کئے گئے۔شہباز شریف کی ایک اضافی خوبی جو ان کے خاندان کا اثاثہ ہے کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے کبھی بے وفائی نہیں کی۔ بہت سے مواقع ایسے آئے جب یار لوگوں نے اپنے دلوں میں خوش فہمی پال لی کہ بھائیوں میں جدائی کا وقت آگیا ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! آج بھی دونوں بھائی ایک ہی پیج پر ہیں اور خدا کرے سدا ایسا ہی رہے، جس دن ان کے درمیان دراڑ پڑی اس کے بعد نہ کوئی بندہ رہے گا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ محمود و ایاز دونوں باہر ہوں گے۔ اور جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے، اس وقت پورے پاکستان کے عوام کی امید بھری نظریں ان پر ہیں۔ ان کا وژن، ان کی استقامت اور ان کی نظریاتی جہت انہیں سیاست دان نہیں ایک مدبر کے مقام پر لے آئی ہے۔عدالتی فیصلوں کا احترام اپنی جگہ، ان پر تبصرہ میں مناسب نہیں سمجھتا مگر اب وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ مشاورت کا عمل مکمل ہونے کے بعد پارٹی کی صدارت بھی شہباز شریف ہی کے سپرد کی جائے گی تاہم اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
کالم کے آخر میں ایک نازک سی بات! جب اولادیں جوان ہوتی ہیں تو کچھ مسئلے مسائل ضرور پیدا ہو جاتے ہیں۔ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور جب تک زندہ تھے، ان کے سارے بھائی ماڈل ٹاؤ ن ایچ بلاک میں قطار اندر قطار ایک ہی لین میں برابر برابر بنے ہوئے گھروں میں رہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہ شیرازہ تقریباً بکھر گیا اور ان کی اولادوں میں تنازعات پیدا ہو گئے۔اب کچھ لوگ حمزہ شہباز اور مریم نواز کو آمنے سامنے لانے کے خواہش مند ہیں۔ مجھے یہ دونوں بہت عزیز ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی محبتیں سلامت رکھے تاہم میرا مشورہ ہے کہ ایک ہونے کے اعلان کے ساتھ ساتھ ان کی ایکتا کا عملی مظاہرہ بھی اگر عوام کے سامنے آنا شروع ہو جائے تو شاید یہ عملی اعلان یکتائی سے زیادہ موثر ثابت ہو گا!
( بشکریہ جنگ)
فیس بک کمینٹ