سول لائنز کالج کے ایک کمرے میں رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر ایک ہی ڈیسک پر بیٹھنے والے دو نوجوان جن کے بارے میں میری رائے یہ تھی کہ یہ بڑے شرارتی لڑکے ہیں اور کبھی سنجیدہ ہو کر تعلیم حاصل نہیں کرتے ۔ یہ دونوں نوجوان ایک دوسرے کے ہمزاد کے طور پر آ ج تک ملتان اور ارد گرد کی محفلوں کی جان بنے ہوئے ہیں ۔ رضی ایک سنجیدہ اور بڑا sensitive نوجوان ہے جس نے اپنی پیشہ و رانہ زندگی کا آ غاز صحافت ( روزنامہ سنگ میل )سے کیا اور مختلف اخباروں سے ہوتے ہوئے آ ج کل روزنامہ جنگ میں ہے میں بحیثیت استاد تو شاید اسے کچھ نہیں سکھا سکا لیکن اس نے شاگرد ہونے کے باوجود مجھے بہت کچھ سکھایا ہے ۔
یہ ایسا نوجوان ہے جو ہمیشہ تاریکی کے خلاف مزاحم رہا ہے ۔ میں نے جو 20 سال اس کے ساتھ گزارے ان میں یہ محسوس کیا کہ رضی میں ایسی قوت موجود ہے جو ہر اندھیرے اور ہر ایسی قوت کے خلاف سچ بولنے کی طاقت رکھتی ہے جو قوت انسانوں کو اپنی منافقت کے ذریعے گمراہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس کی تحریر میں ایک بڑا زبردست جذبہ تخلیق ہے وہ ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری میں نئی باتیں ہیں وہ نوجوان ہے اور نوجوانی کی باتیں اس میں ہیں لیکن جب وہ موت کا ذکر کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ موت کے ساتھ اس کا خاص ربط ہے ۔ اس کی اس کتاب کا جو پیش لفظ ہے میرے نزدیک وہ سب سے زیادہ متاثر کرنے والا ہے ۔ ’’ موت کا پیش لفظ‘‘ اس میں رضی کی اس کتاب کا تاثر مکمل طور پر نظر آتا ہے ملتان میں بسنے والے ادیبوں ، شاعروں ، اہل دانش کے بارے میں جو کالم اس نے لکھے ہیں وہ سارے ہمارے ساتھ رہے ، ہم ان سب کو جانتے ہیں کسی کو کم کسی کو زیادہ ۔ بیشتر ایسے احباب ہیں جو ہمارے قریب کی زندگی میں ہمارے ساتھ رہے ہیں ، مختلف نشستوں میں مختلف محفلوں میں ہم ان کو دیکھتے رہے ، ان سے باتیں کرتے رہے ہیں۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ان کے بارے میں کچھ تحریر کیا ہے ؟ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ان کا جنازہ پڑھا ہے ؟ کتنے لوگ ہیں جن کا دل دھڑکا ہے ان کی موت پر ؟
رضی نے ہر اہل دانش، اہل فکر اور روشنی پھیلانے والے ہر لکھاری کی موت کو اپنی موت سمجھا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ روشنی کی موت ہوئی ہے اندھیرے میں روشنی کی موت ہوئی ہے اور اندھیرا پھیلتا جا رہا ہے ۔ رضی الدین رضی کو جب بھی میں نے دیکھا ایک ایسا نوجوان دیکھا جس میں حساس انسان موجود ہے۔ یوں تو ہر شاعر حساس ہوتا ہے ، ہر اہل قلم حساس ہوتا ہے لیکن رضی میں ایک چیز مستز اد ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ سوال کرتا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ سوچتا ہے تو سوال کرتا ہے۔ اس نے موت میں جانے والے دوستوں کا نوحہ لکھ کر ان کو زندگی بخش دی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بھول جاتے یہ شہر ناشناں ہے ۔ جو شخص زندہ رہتا ہے ہم اس کے ساتھ رہتے ہیں جو مر جاتا ہے ایک دو دن کے بعد ہم اسے بھول جاتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ رضی کی اس کتاب کے بعد اب ہم کبھی انہیں نہیں بھول سکیں گے کیونکہ اس کتاب میں جو نوحے لکھے گئے ہیں وہ اتنے دل گداز ہیں کہ ہمیں ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ رضی کی ہر تحریر میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص جس کے بارے میں نوحہ لکھ رہا ہے اس کا بہت قریبی رشتہ دار ہے ۔ خون کا رشتہ محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ محض اس کا دوست ہوتا ہے یا کوئی شاعر اور ادیب ہوتا ہے۔ لیکن رضی کے مضامین کے بین السطور میں ایک دکھ ہوتا ہے اور یہ غم جھلکتا دھڑکتا اور چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بہت غم کے ساتھ ان کا ذکر کرتا ہے۔
میں نے یہ کالم مختلف اخباروں میں پڑھے تھے اور مکمل کتاب پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی کتاب کو پڑھنے کے بعد آ دمی غم کے حصار میں آ جاتا ہے۔ ان میں اثر اتنا ہے کہ وہ زندہ لوگ جو ہمارے درمیان تھے جن کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ان شخصیات کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ وہ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضامین لکھ کر اس نے ملتان کی مٹی کا قرض ادا کیا ۔ میں نے رضی کی تحریر کو ہمیشہ تازہ ہوا کے طور پر محسوس کیا ہے اس کی شاعری ہو اس کے کالم ہوں یا اس کی تنقید ہو ان سب میں تازہ ہوا ہوتی ہے اور ایک شکایت اور گلے کے عنصر کے ساتھ ساتھ اس کی تحریر میں بڑا تیکھا پن ہے ۔ وہ طنز کے نشتر تو چلاتا ہے لیکن ان میں بھی زبردست محبت ہوتی ہے وہ ایک محبت کرنے والے نوجوان ہے استاد ہونے کے باوجود میں نے آ پ پر واضح کیا کہ رضی کی باتوں سے اور اس کے مزاحم رویے سے مجھے بڑا حوصلہ ہوتا ہے بعض اوقات میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ شاکر اور رضی پر مجھے ہمیشہ فخر رہا کہ وہ میرے شاگرد ہیں ۔ سول لائنز کالج ایسا کالج ہے جہاں ایسے بہت سے نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی جو بعد ازاں ادب میں بہت نمایاں ہوئے اور اب ملکی سطح پر پہچانے جاتے ہیں ڈاکٹر انوار احمد بھی اس کالج کے طالب علم رہے ہیں اور اظہر سلیم مجوکہ ، قمر رضا شہزاد ، شوذب کاظمی بھی یہاں پڑھتے رہے ۔ حسین سحر یہاں موجود ہیں جو اس کالج پڑھاتے تھے ۔ رضی نے وہ کام کیا ہے جو ہم لوگوں کو یعنی اس سے پہلے والی نسل کو کرنا چاہیے تھا۔ رضی نے ملتان کی مٹی کا قرض چکایا ہے۔
( جنوری 2010 میں رفتگان ملتان کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا )
فیس بک کمینٹ