امریکہ میں مڈ ٹرم یا وسط مدتی انتخابات ہوگئے،یوں لگا جیسے انتخابات امریکہ میں نہیں پاکستان میں ہوئے ہیں۔ اس چناؤ میں ملک کی دو جماعتیں آمنے سامنے تھیں،صدر ٹرمپ کی، مالداروں کی ری پبلکن پارٹی اور کھلے ڈھلے لوگوں کی ڈیموکریٹک پارٹی۔ نتیجہ یوں نکلا کہ امریکی پارلیمان، جسے کانگریس کہا جاتا ہے، دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ پر صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی نے اپنی گرفت مضبوط کرلی۔صدر بہت شاد ہوئے۔ وہ خود کو اکثر شاباشی دیتے رہتے ہیں، اس برتری پر بھی انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں ’زبردست کامیابی‘ حاصل ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے تاریخ رقم کردی ہے کیونکہ وسط مدتی انتخابات میں حکمراں جماعت پہلے سے زیادہ نشستیں نہیں جیت پاتی۔ماہرین کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اب بھی چوٹی کی اسامیوں پر اپنی پسند کے لوگوں کو مقرر کر سکیں گے۔ اب رہ گیا کانگریس کا نچلا ایوان، جو ایوان نمائندگان کہلاتا ہے، وہاں تو دنیا ہی بدل گئی۔ اس ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کوعوام کی اکثریت نے اور خاص طور پر ملک کے نوجوان ووٹروں اور خواتین نے کامیاب کرادیا اور وہ بھی اس طرح کہ یہ پارٹی ملک میں اپنی مرضی چلانے والے حاکم کے ارادوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکے گی۔پاکستان کی طرح یہ تو نہیں ہوا کہ فوراً ہی دھاندلی دھاندلی کا شور مچ جاتا البتہ ٹرمپ صاحب نے ایک بات ایسی کہی کہ صاف لگا سنی سنی سی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرے مالی معاملات کی چھان بین کی گئی (ہماری زبان میں،اگر احتساب کیا گیا)تو میں بھی نچلا نہیں بیٹھوں گا۔
بعد میں صدر ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرنے آئے۔ اول تو بہت انتظار کرانے کے بعد آئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ اپنے اٹارنی جنرل کو بر طرف کر رہے تھے۔ وہ سامنے آئے تو خفا خفا سے تھے۔ کانفرنس شروع ہوتے ہی ان کی نامہ نگاروں سے جھڑپیں شروع ہوگئیں۔یہ تو پہلے دن کی روداد ہے۔آگے کی طرف قیاس کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے دیکھتے ہیں کہ عظیم جمہوریت یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ان وسط مدّتی انتخابات میں کیسے کیسے ریکارڈ ٹوٹے۔اول یہ کہ الیکشن سے پہلے ہی کہا جانے لگا تھا کہ یہ خواتین کا سال ہے۔یہی ہوا۔ امریکی کانگریس میں اس بار ہمیشہ سے زیا دہ خواتین رکن بن کر بیٹھیں گی۔ اب تک ان کی تعداد ایک سو سات تھی، اب بات اس سے آگے نکل رہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار دو مسلمان خواتین کانگریس میں کامیاب ہو کر آرہی ہیں۔ ایک مشی گن کی رشیدہ طالب او ر دوسری منی سوٹا کی الحان عمر ہیںجن کا تعلق صومالی نسل سے ہے۔وہ آٹھ برس کی تھیں جب صومالیہ کی خانہ جنگی سے جان بچا کر بھاگی تھیں اور چار سال کینیا کے پناہ گزیں کیمپ میں گزارنے پڑے تھے جس کے بعد انہیں امریکہ میں داخلے کی اجازت ملی۔آج وہ نمایاں برتری سے کامیاب ہوکر ملک کی قانون ساز خاتون بن گئی ہیں۔
اسی طرح تاریخ کی دو سب سے کم عمر خواتین بھی منتخب ہوئی ہیں۔دونوں کی عمریں صرف انتیس برس ہیں۔ پہلی بار ریڈ انڈین نسل کی دو خواتین بھی کامیاب ہوکر کانگریس میں داخل ہو رہی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی صدارت سنبھالتے ہی خواتین کے بارے میں نازیبا باتیں کہی تھیں۔ اس پر ملک کی خواتین نے ان کے خلا ف بڑی مہم چلائی تھی۔ اس وقت تو کچھ نہیں ہوا لیکن اس چناؤ کے وقت خواتین کے وہ گھاؤ تازہ ہوگئے اور ووٹ ڈالتے ہوئے انہوں نے حساب چکا دیا۔
دوسرا معرکہ نو جوانوں نے سر کیا۔ اس بار کتنے ہی لڑکوں لڑکیوں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالے۔ ان کے رویّے میں شدت ہے۔ وہ حکومت سے خوش نہیں۔ امریکہ میں جس طرح لوگ ہتھیار اٹھا کر گھومتے ہیں اور بارہا اسکول کے بچوں پر فائرنگ ہوئی، کئی مرتبہ تو اندھا دھند گولی چلا کر قتل عام کیا گیا، نوجوان اس پر بھی برہم ہیں۔ اس الیکشن میں اسکول کے بچوں پر فائرنگ کے واقعات سے متاثر لڑکوں لڑکیوں نے اپنے کال سنٹر کھول کر ووٹروں سے رابطہ کیا اور انہیں حکومت کے خلاف ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا۔ یہ نوجوان اور بھی بہت سی باتوں پر خفا ہیں، خاص طور پر حکومت نے تارکین وطن سے ان کے بچے اپنی تحویل میں لینے کی جو کارروائی کی تھی، اس پر عوام تو ناراض تھے ہی، نوجوانوں پر اس کا شدید ردعمل ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے کبھی کوئی عہدہ نہیں سنبھالا تھا اور جنہیں حکومت چلانے کا کسی بھی قسم کا کوئی تجربہ نہ تھا، وہ اچانک اور خلاف توقع صدر بن گئے۔جس کے ساتھ ہی انہوں نے متحد امریکہ کا نعرہ لگایا مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی زیادہ تر کارروائیوں کے نتیجے میں ملک تقسیم ہوتا گیا۔ وہ خود کو شاباشی دیتے رہے لیکن ان کے حامی اور مخالفین ایک بات کا ذکر کرتے رہے۔ وہ یہ کہ صدارتی انتخابات میں روسیوں نے مداخلت کی تھی یا نہیں۔ اب تازہ اطلاع کے مطابق صدر نے اپنے اٹارنی جنرل جیف سیشن کو یوں برطرف کیا اور ان سے استعفیٰ لکھوالیا۔ سبب یہ تھا کہ انہوں نے خود کو روسی مداخلت کے قضیے سے الگ تھلگ کرلیا تھا، بالکل اس طرح جیسے ہمارے بعض جج کسی مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کرلیتے ہیں۔ اس پر صدر ٹرمپ مسلسل مسٹر سیشن پر نکتہ چینی کررہے تھے۔ صدر نے اب عارضی طور پر اپنے ایک اور اعلیٰ افسر کو مقرر کردیا ہے جو روسیوں کے اسکینڈل کی تفتیش پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اس الیکشن کی ایک اور بات جو پاکستان والوں کو سنی سنی سی لگے گی، وہ یہ کہ امریکہ کی اس انتخابی مہم میں لفظ ’ریفرنڈم‘ بارہا سننے میں آیا۔ ٹرمپ نے کئی بار کہا کہ میں نے اپنے عہد میں جو کام کئے ہیں، وہ عوام کو منظور ہیں یا نہیں، اس الیکشن میں واضح ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے یہ چناؤ ایک طر ح کا ریفرنڈم ہے۔ اب عوام نے امریکہ کے چوٹی کے قانون ساز ادارے یعنی کانگریس کو تقسیم کردیا ہے، اس سے کیا سمجھا جائے۔ یہ کہ عوام کا فیصلہ ٹرمپ کے حق میں تھا یا خلاف؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ