براؤن لڑکے نے سگنل پر سڑک پار کرتے ہوئے براؤن لڑکی سے کہا ’’سنو! کارل مارکس اب تک جدید فلاسفر ہے اور مارکسزم ایک جدید ترین نظریہ‘‘۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ میں نیویارک میں ہوں یا کلکتہ میں۔ کیونکہ کراچی اور کوئٹہ میں اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے شاید آج بھی مڑ کر اپنے کاندھوں کے اوپر دیکھنا پڑتا ہو۔ لیکن میں نے خزاں کی بارش کی پڑتی ہوئی ہلکی پھوار اور اس سے دھلی سڑک اور اس پر اڑتے زرد سرخ پتے اور ان پتوں میں ڈیموکریٹک خاتون امیدوار کلیٹیلینا کروز کی تصویر والے پھٹے پوسٹروں کے پنے دیکھے تو یاد آیا میں نیویارک میں ہوں اور وسط مدتی امریکی انتخابات کی پولنگ امریکی مشرقی ساحل پر کچھ لمحے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ ٹرمپ کی حکمراں ریپبلکن پارٹی سینیٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھ چکی تھی۔ لیکن کانگریس میں ڈیمو کریٹک اکثریت سے آ چکے تھے۔ میرے علاقے میں کرشمہ یہ ہوا کہ چوبیس سالہ نوجوان خاتون الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز پوری امریکی کانگریس میں سب سے کم عمر رکن کے طور پر منتخب ہوئی۔ میں نے اس علاقے میں پولنگ اسٹیشن پر تارکین وطن ووٹر کا شام گئے ایک خاصا ٹرن آئوٹ دیکھا تھا حالانکہ گھن گرج سے باہر بارش برس رہی تھی۔ لیکن طوفان یا برفباری سے امریکہ میں کون سے کام بند ہوئے ہیں؟ چھٹی تو انتخابات کے دن ہوتی ہے نہ گیارہ ستمبر والے سوگ کے دن۔
ان امریکی وسط مدتی انتخابات کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان میں کافی تعداد خواتین امیدواروں کی تھی۔ پھر بھی امریکی کانگریس کا بیس فی صد خواتین اراکین پر مشتمل ہے۔ اس منگل کی شام امریکہ میں تاریخ بن رہی تھی۔ نیشنل پبلک ریڈیو بتا رہا تھا:دو مسلمان خواتین تاریخ میں پہلی بار کانگریس میں منتخب ہو کر آئی ہیں وہ ہیں عرب نژاد رشیدہ طالب جس کا تعلق مشی گن ریاست سے اور صومالوی نژاد الہام عمر جس کا تعلق مینیسوٹا سے ہے۔ ان کے علاوہ دو اور خواتین بھی کانگریس میں منتخب ہو کر آئی ہیں جنکا تعلق نیٹو امریکی اقوام سے ہے۔ یہاں نیٹو امریکی (جن کے لئےہمارے کئی لوگ غلط طور پر توہین آمیز اصطلاح ’’ریڈ انڈین‘‘ استعمال کرتے ہیں) بھی کانگریس میں پہنچی ہیں۔ ظاہر ہے ان دونوں خواتین کا تعلق بھی ڈیموکریٹس سے ہے۔ نیٹو امریکی جو کہ امریکہ کے اصل وارث تھے انکو صدیوں تک لتاڑا اور پچھاڑا جاتا رہا ہے۔ مجھے پاکستان پیپلزپارٹی یاد آئی جس نے سندھ میں لتاڑی پچھاڑی کمیونٹیوں سے خواتین کو ٹکٹ دیکر گزشتہ جولائی کے انتخابات میں اسمبلیوں اور سینیٹ میں جتوایا ہے۔ امریکی ریاست مسیاچوسٹس کی تاریخ میں پہلی سیاہ فام خاتون آریانا پریسلے بھی کانگریس میں منتخب ہو کر پہنچی ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اسپیکر نینسی پلوسی پھر اپنے روایتی حلقے یا ڈسٹرکٹ کیلیفورنیا ریاست سے پھرجیتی ہیں۔اسکا مطلب یہ ہےکہ اب ڈیموکریٹس کی آدھی حکومت قائم ہو چکی، میرے بیٹے نے مجھ سے کہا۔ امریکی کانگریس یا ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کی غالب اکثریت کامیاب ہوئی ہے اور یہ سولہ سال کے بعد ہوا ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ مخالف لیکن پرانے موقر جریدے ’’مدَر جونز‘‘ نے ان انتخابات کے نتائج والی رات کو جدید تاریخ میںسب سےبڑی پیشگوئی کی ہے، مدَر جونز نے یہ لکھا کہ’’اب ٹرمپ کے ڈرنے کی باری ہے۔‘‘ کانگریس ممکنہ طورپر صدر ٹرمپ کے خلاف کئی تحقیقات کھول سکتی ہے۔ لیکن امریکہ اب بھی سرخ اور نیلی ریاستوں میں تقسیم ہے۔ یہ سرخ ریاستیں ہیں جہاں سے ٹرمپ کی پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔ نیلی ریاستوں کا مطلب ہے ڈیموکریٹس۔
تاریخی طور پرامریکی انتخابات ہاتھی گدھوں کے درمیان مقابلے کا نام ہے۔ کیونکہ گدھا ڈیموکریٹس پارٹی کا نشان اور ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا۔ امریکی امیر مخالف مڈل کلاس، محنت کش، اقلیتی اور تارکین وطن یا زیادہ تر غیر سفید فام عوام۔ یہی تین سو سالوں سے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ جبکہ ریپبلکن پارٹی کا صدرابراہم لنکن تھا جس نے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ ایریزونا ریاست میں ریپبلکن پارٹی کا سینیٹر جان مکین بھی تھا جسے ریپبلکن پارٹی میں ڈیموکریٹ سمجھا جاتا تھا۔
لیکن امریکہ کا ضمیر پروفیسر نوم چومسکی کہتا ہے کہ ’’صدر ڈیموکریٹک پارٹی سے ہو یا ریپبلکن پارٹی سے دونوں اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ افغانستان اور عراق جیسے ممالک پر بم برسائے جائیں۔ ’’لیکن شاذ ونادر ہی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر امریکی عوام نے ووٹ دیا ہو۔ امریکی عوام زیادہ تر ووٹ ’’پاکٹ بک‘‘ مسائل یا اقتصادیات وہ بھی گھریلو اقتصادیات پر دیتے ہیں۔ صحت، ٹیکسز میں چھوٹ، فی گھنٹہ اجرت، امیگریشن، تعلیمی قرضے، کاروبار، روزگار، شخصی آزادیاں، ریاستی خودمختاری، کھیل وغیرہ وہ مسائل ہیں جن پر ووٹر اپنا انتخاب کرتا ہے۔ امریکی بقول نوم چومسکی اور کسی موضوع پر معلومات نہ رکھتے ہوں لیکن وہ اسپورٹس پر بہترین تجزیہ نگار ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو امریکی دایاں بازو یا ریپبلکن نواز باراک اوباما اور برنی سینڈرس جیسے اصلاح پرست، بے ضرر لیڈروں کو بھی سوشلسٹ کہتے ہیں یا برنی خود کو کہتے ہیں اور ہیں بھی۔برنی سینڈرس ایک بار پھر ان انتخابات میں اپنی ریاست ورمونٹ سے سینیٹ میں کامیاب ہو کر آئے ہیں۔ فتح تو امریکی عوام کی ہونی ہے لیکن آہستہ آہستہ۔ امریکہ میں غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور مڈل کلاس نچلی سطح پر اور امیر امیر سے امیر تر۔ مزدور کی تنخواہ کئی ریاستوں میں پندرہ ڈالر فی گھنٹہ نہیں ہوسکی۔ اقتصادی ترقی ہوئی ہے تو صرف ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے بزنس کی۔ اقربا پروری کو یہاں ’’کرونی کیپٹل ازم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ابھی کل ہی کے برطانوی اخبار گارجین نے لکھاہے کہ امریکہ میں سول وار یا خانہ جنگی ختم ہی نہیں ہوئی۔ اب بھی سفید فام اکثریت والی ریاستیں کنفیڈریٹس لگتی ہیں۔نیو نازیوں نے کل نازی نشان سواستیکاآتش بازی سے فضا میں بنایا۔ مجھے لڑکے لڑکی کے درمیان گفتگو عجیب نہیں لگی۔ نہ ہی وسط مدتی انتخابات کے نتائج اور نہ ہی وہ انتخابات سے ایک روز قبل ٹرین پر سفر کرتا نوجوان جو کھڑا عظیم فلاسفرجے کرشنا مورتی کی کتاب ’’یو آر دی ورلڈ‘‘ تم ہی دنیا ہو پڑھ رہا تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ