اکتوبر1978ء کی ایک صبح شیر شاہ روڈ پر واقع پاکستان نیشنل سینٹر کے آڈیٹوریم میں ’’یوم اقوام متحدہ‘‘ کے حوالے سے ایک تقریری مقابلہ تھا۔ اس تقریری مقابلے کی صدارت پروفیسر عاصی کرنالی کررہے تھے۔ مہمان خصوصی کی نشست پر اقبال ساغر صدیقی جلوہ افروز تھے۔ میں اپنے سکول کی طرف سے آٹھویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے اپنے ٹیچرمنیر احمد شامی کے ہمراہ اس مقابلے میں شرکت کیلئے آیاتھا۔تقریب کے اختتام پر مجھے مقابلہ جیتنے والے طالب علم کے طور پر سٹیج پر بلایاگیا تو صدرِ محفل پروفیسر عاصی کرنالی نے مجھ سے مصافحہ کیا سبز گُڈی کاغذ میں لپٹی ہوئی ایک کتاب پر مشتمل انعام میرے حوالے کیا۔ میں نے انعام وصول کیا اور ہاتھ چھڑا کر تیزی سے واپس مڑنے لگا تووہاں موجود پریس فوٹو گرافر نے کہا’’ بیٹا ایک منٹ ٹھہریں۔ میں آپ کی تصویر نہیں بناسکا‘‘۔ عاصی کرنالی صاحب نے شفقت کے ساتھ مصافحے کے انداز میں میرا ہاتھ دوبارہ تھام لیا۔ ’’آپ نے بہت اچھی تقریری کی‘‘۔ وہ کچھ دیر کا توقف چاہتے تھے تاکہ فوٹو گرافر کو تصویر بنانے کاموقع مل جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ہاتھ چھڑا کر دوبارہ حاضرین میں جا بیٹھوں۔ تصویر بنانے والے وہ فوٹو گرافر جنہوں نے مجھے بہت محبت کے ساتھ ’’ بیٹا ایک منٹ ٹھہریں‘‘ کہاتھا انور امروہوی تھے جو 24نومبر2006ء کوخود ہمیشہ کیلئے تصویر بن گئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے انعام دینے والے پروفیسر عاصی کرنالی20جنوری2011ء کی دوپہر اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ان کے ساتھ آخری مصافحہ میں نے 24دسمبر 2010ء کو سائیں حبیب کے ڈیرے پر منعقد ہونے والی ’’بزم فقیر‘‘ کی محفل مسالمہ میں کیاتھا۔
عاصی کرنالی کا سب سے ہی محبت بھرا تعلق تھا لیکن میرے اور ان کے تعلق میں محبت کے ساتھ شکایت بھی شامل رہی۔ اور محبت کے ساتھ جب شکایت شامل ہوجائے تو تعلق مستحکم بھی ہوتاہے اور یکطرفہ بھی نہیں رہتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ عاصی کرنالی نے میری شکایتوں کے جواب میں بھی مجھے محبتوں سے نوازا۔ اکتوبر 1978ء کی صبح انہوں نے نیشنل سنٹر میں میرا ہاتھ تھاما۔ بعد کے برسوں نے بھی میں نے پہلے روز کی طرح ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر عاصی صاحب نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ 20جنوری 2011ء کی شام وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر چپکے سے عدم کے سفر پر روانہ ہوگئے امروہوی موجود ہوتے تو میں انہیں سے کہتا کہ انور صاحب اس روز آپ نے مجھ سے کہاتھا ’’بیٹا۔۔۔ایک منٹ ٹھہریں‘‘ آج عاصی صاحب ہاتھ چھڑا رہے ہیں انہیں بھی روکنے کی کوشش کیجئے۔ مگر کیا کروں کیا انور مروہوی تو عاصی صاحب سے پہلے ہی تصویر بن گئے تھے۔
فیس بک کمینٹ