”خزاں کی رُت سنہری ہے “۔۔عظمی جون کی یہ بات گہری ہے انہوں نے نے خزاں کی رُت کے ساتھ اپنا تعلق جوڑکراورخزاں کو سنہراکہہ کراپنی شاعری کے مجموعی تاثر کابھی پتہ دیدیاہے ۔عظمی بھی ہماری طرح اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ، جس نے آنکھوں میں بہت سے خواب سجائے ،بہاروں کی امیدرکھی لیکن جب خوابوں کوتعبیر نہ ملی اورخزاں ہمارے جیون میں ٹھہر گئی توعظمی نے خزاں کو ہی سنہراجان کر اس میں بہارکے آثار تلاش کرلئے ۔بلوچستان کے شہر سبی سے تعلق رکھنے والا عظمی جان خزاں کاہی توباسی ہے۔عظمی نے اپنی اس کتاب کے منظوم پیش لفظ میں خزاں کی سنہری رُت کااحوال بہت تفصیل کے ساتھ بیان کردیا۔”بہاریں توبہاریں ہیں،خزاں کی زرد رنگت بھی کبھی پیلی نہیں لگتی ،مر ی آنکھوں کی سرحد کے پرے خوابوں کی بستی میں خزاں کی رت سنہری ہے“۔عظمی جون کی اس کتاب میں پہلامضمون محسن بھوپالی کاہے جنہوں نے عظمی جون کی شاعری کاتفصیلی محاکمہ کیا ،فلیپ پر پروفیسر سحرانصاری ،امجداسلام امجد اورڈاکٹرفاروق احمد کی آراءدرج ہیں ۔کتاب میں شامل نظمیں اورغزلیں پڑھنے والے کو حیران کرتی ہیں ۔عظمی جون کی شاعری میں غم جاناں اورغم دوراں دونوں کا احوال موجود ہے ۔یہ عظمی جون کاپہلاشعری مجموعہ ہے جو18برس قبل شائع ہوا اوراس کے بعد سے اب تکاس کے 8ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ایک ایسے دورمیں جب ہم گلہ کرتے ہیں کہ لوگ شعر و ادب اور کتاب سے دورہوچکے ہیں عظمی کی اس کتاب کی تسلسل کے ساتھ اشاعت یہ بتاتی ہے کہ اچھی شاعری کاقاری آج بھی موجودہے ۔160صفحات پرمشتمل یہ شعری مجموعہ دھنک پبلیکشنز مسجدروڈ سبی بلوچستان سے حاصل کیاجاسکتاہے ۔رابطہ نمبر 03337727227
عظمی جَون کے چند اشعاردوستوں کی نذر کرتا ہوں
تم اک کاغذ کے ٹکڑے پر”نہیں ملنا“جولکھتے ہو
میں اُس ٹکڑے پہ ملنے کے کئی منظربناتاہوں
۔۔۔۔۔
اتنی جلدی کب دعائیں رنگ لاتی ہیں بھلا
مل رہاہے آج جو،مانگاہواپہلے سے تھا
۔۔۔۔۔
حال دل کہنے گیاتھا، رہ گیا
موسموں پرگفتگواچھی رہی
۔۔۔۔۔
مجھے اچھانہیں لگتاہے نمایاں ہونا
ورنہ شہرت تو کئی دن سے مر ی تاک میں ہے
۔۔۔۔۔
سبھی سے محبت جتاتورہاہے
کسی سے بھی اس کومحبت نہیں ہے
۔۔۔۔۔
وہ بھی اب دشنام طرازی کرتے ہیں
طوطوں کوہربات رٹائی جاسکتی ہے
۔۔۔۔۔
کسی کوتاہ قامت کو کشیدہ کہہ نہیں سکتا
خوشامدکےلئے شہ کاقصیدہ کہہ نہیں سکتا
۔۔۔۔
ابھی اونچاہی رہناہے علم حق وصداقت کا
ابھی یہ جاں سلامت ہے ابھی یہ بات باقی ہے
فیس بک کمینٹ