ایک دعا تھی جو مجھے محلے میں اکثر ملتی تھی، کبھی جلیل آباد کی کسی گلی میں، کبھی گلڈ ہوٹل کے قریب بک سٹال پر، کبھی اسی سڑک پر پٹرول پمپ کے ساتھ والی بیکری میں، کبھی گجر کھڈے والی گلی میں اور کبھی چاہ بوہڑ والا سے سٹیشن کی طرف جانے والی سڑک پر۔ یہ دعا میرا راستہ روکتی تھی۔ میں سڑک کے دوسری جانب ہوتا تو اشارے سے مجھے اپنے جانب بلاتی تھی یا خود سڑک پار کر کے میرے سامنے آجاتی تھی۔ میرا ماتھا چومتی تھی میرے ساتھ بچے ہوتے تو ان کے گال تھپتھپاتی تھی انہیں ٹافیاں لے کر دیتی تھی اور پھر جب تک ہم نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتے ہمیں دیکھتی رہتی تھی۔ یہ صابر چچا کی دعا تھی ۔ایک بے زبان دعا۔ لفظوں کے بغیر اشاروں میں دی جانے والی دعا۔ 10 جنوری کی ٹھٹھرتی صبح ہم نے اس بے زبان دعا کو حسن پروانہ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا۔ جی پی او گراﺅنڈ میں جنازے کے بعد مولوی صاحب نے حسب روایت جنازے کے شرکاء سے مخاطب ہوکر کہا ”بھائیو! مرنے والے کا کہا سنا معاف کردینا“ مولوی کو کیا خبر تھی کہ مرنے والے نے تو عمر بھر کسی سے کچھ کہا سنا ہی نہیں تھا۔ ایک گونگے اور بہرے درزی کا کہا سنا معاف کرنے کی دعا وہ بلا وجہ ہی مانگ رہا تھا ۔
صابر چچا میرے والد کے دوست تھے اور شاید میرے والد کا ایک ہی دوست تھا کہ صابر چچا کے سوا میں نے ان کے کسی اور دوست کا نام کبھی سنا بھی نہیں۔ یوں بھی 24 سال کی عمر میں مرنے والے کے بھلا کتنے دوست ہوسکتے تھے۔ صابر چچا درزی تھے، میرے والد کے ہم پیشہ۔ میں نے انہیں اکثر ریلوے سٹیشن کے قریب ایک دکان میں کپڑے سیتے دیکھا۔ کبھی انچی ٹیپ گلے میں لٹکائے کسی کا ماپ لیتے، کبھی قینچی سے کوئی کپڑا کاٹتے اور کبھی گھٹنے پر قمیض رکھ کر اس کے کاج بناتے۔ میں جب بھی ان سے ملا اک بے پناہ محبت تھی کہ جو ان کی آنکھوں میں امڈ آتی تھی، دعائیں تھیں جو ان کی زبان سے نہیں ہاتھوں سے نکلتی تھیں۔ اور یہ وہ دعائیں تھیں جو زبان سے ادا کی گئی بہت سی مصنوعی دعاﺅں سے زیادہ پرتاثیر تھیں۔ لفظوں کے بغیر کیا جانے والا محبت کا اظہار ان جملوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتا تھا جو مجھے زندگی میں بار ہا رسمِ دنیا کے طور پر سننا پڑے۔ وہ جب ملتے کافی دیر تک اشاروں کی زبان میں گفتگو کرتے۔ اس میں سے کچھ گفتگو تو مجھے سمجھ آجاتی تھی اور کچھ ایسی ہوتی تھی کہ جو مجھے بالکل سمجھ نہ آتی تھی لیکن اس کے باوجود میں انہیں باور کراتا تھا کہ مجھے ان کی بات پوری طرح سمجھ آرہی ہے۔ کوئی اتنی محبت سے بات کر رہا ہو تو اس کی بات سمجھ نہ آنے کے باوجود سمجھ لینے کو جی چاہتا ہے۔ وہ مجھے میرے والد کی زندگی کے قصے سناتے تھے۔ قوت گویائی سے محروم شخص اپنی بساط کے مطابق جو کچھ سنا سکتا ہے وہ انہوں نے مجھے گاہے گاہے سنادیا۔
ان سے میری آخری ملاقات موت سے کوئی دس روز قبل بیکری پر ہوئی۔ اس ملاقات میں انہوں نے مجھے اپنے اور میرے والد صاحب کے ایک مشترکہ دوست کی موت کی خبر سنائی۔ اشاروں سے بتایا کہ فلاں شخص کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں کوشش کے باوجود نہ سمجھ پایا کہ وہ کس کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ موت کی خبر مجھے دس پندرہ منٹ تک سمجھاتے رہے ۔ مجھے معلوم تھا کہ جب تک میں ان کی بات سمجھ نہ لوں گا مجھے یہاں سے جانے کی اجازت نہ ملے گی۔ میں نے کچھ دیر بعد حسب معمول ان کا دل رکھنے کے لئے ”بات سمجھ میں آگئی“ کا اشارہ کردیا۔ صابر چچا بھی سمجھ گئے کہ مجھے بات سمجھ نہیں آئی۔ ایسے موقع پر وہ ترس کھانے کے انداز میں اپنے مخاطب کی جانب دیکھ کر مسکرایا کرتے تھے۔ وہ مسکرائے اور انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں واپسی کے لئے مڑا تو مجھے ان کے مخصوص ”قہقہے“ کی آواز سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ اپنے دوست کو بتا رہے تھے کہ ”اسے بات سمجھ نہیں آئی مجھے چکر دے کر جارہا ہے۔“ مجھے دیکھ کر انہوں نے مخصوص انداز میں ہاتھ ہلایا کہ ”اچھا جاﺅ، کوئی بات نہیں، پھر ملیں گے۔“
ایک اور واقعہ بہت دلچسپ ہے پانچ سات برس پہلے کی بات ہے۔ راولپنڈی سے میرے چچا ظفر ملتان آئے اور مجھے کہا کہ اس مرتبہ میں نے صابر صاحب کے پاس ضرور جانا ہے۔ وہ راولپنڈی میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے وعدہ لیا تھا کہ میں جب بھی ملتان آﺅں ان سے ضرور ملوں۔ ”صابر چچا آپ کے پاس کیسے آئے تھے؟“ میرے سوال پر انہوں نے بتایا کہ” وہ ضیاءالحق کی برسی میں شرکت کے لئے پنڈی آئے اور انہوں نے میرے پاس ہی قیام کیا“۔ ” کیا کہا صابر چچا ضیاءالحق کی برسی میں شرکت کے لئے آئے تھے“؟ میرے لئے یہ خبر حیران کن بھی تھی اور افسوسناک بھی۔ میں ظفر چچا کو لے کر ان کی دکان پر پہنچ گیا اور صابر چچا سے ضیاءالحق کی برسی میں شرکت کی وجہ دریافت کر بیٹھا۔ یہ میری ان کے ساتھ پہلی اور آخری سیاسی بحث تھی۔ ضیاءالحق کا ذکر وہ مونچھوں اور ترچھی بھنوﺅں کے اشارے کے ساتھ کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے ضیاءالحق کی خوبیاں گنوانا شروع کیں۔ خوبیوں کے اشارے تو مجھے سمجھ نہ آئے لیکن اسی دوران انہوں نے بینظیر کو برا بھلا کہنے کے لئے بھی کچھ اشارے کر دیئے جو مجھے نہ صرف یہ کہ سمجھ آگئے بلکہ ناگوار بھی بہت گزرے ۔ اس دن کے بعد میں نے تہیہ کرلیا کہ ان کے ساتھ سیاسی بحث نہیں کروں گا۔
مجھے شاکر کے ساتھ گھومتا دیکھ کر انہیں میرے والد کے ساتھ اپنی دوستی یاد آجاتی تھی۔وہ ہمیں اکٹھا دیکھ کر بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے ایک زنجیر بناتے اور مجھے بتاتے کہ تمہارے والد کے ساتھ میری دوستی بھی اتنی ہی مضبوط تھی۔ پھر وہ سائیکل کی طرف اشارہ کرتے اور انگلی سے فضا میں ایک مسلسل دائرہ بناتے۔ اُن کا بیٹا ان کا مترجم تھا وہ بتاتا کہ ابو کہہ رہے ہیں کہ ”ہم دونوں دوست بھی سائیکل پر اسی طرح سارا دن گھومتے تھے“ پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے وہ اپنے دونوں ہاتھ آپس میں جوڑ کر اپنے گال کے نیچے رکھتے اور آنکھوں کو بند کرلیتے، پھر اپنی تنہائی کا اشارہ کرتے۔ مترجم بتاتا ”ابو کہہ رہے ہیں تمہارے والد بہت جلدی میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ اب میں تنہا رہ گیا ہوں کبھی یہاں اور کبھی وہاں بیٹھ رہتا ہوں کاش میں بھی اُس کے ساتھ ہی مر جاتا“۔ صابر چچا نے اپنی تنہائی ختم کرنے کے لئے 34 برس تک اس دن کا انتظار کیا جس روز میرے والد کا انتقال ہوا تھا۔ 34 برس قبل میرے والد 8 جنوری کو حادثے کا شکار ہوئے۔ صابر چچا نے بھی 8 جنوری کورختِ سفر باندھا شام کا کھانا کھانے کے بعد انہوں نے آنکھیں موند لیں اور 9 جنوری کو ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔ یہ موت نہیں دوستی کی معراج تھی۔ ایک بے زبان دعا تھی جو رخصت ہوگئی۔ دعا جو مجھے محلے کی سڑک پر ملتی تھی ،کسی گلی میں یا کسی بیکری پر ملتی تھی ۔کتنی عجیب بات ہے کہ ایک شخص جب ہمارے معمولات کا حصہ ہوتا ہے تو ہم اسے اہمیت نہیں دیتے ،بسا اوقات اسے دیکھ کر راستہ بدلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ لیکن جب وہی شخص ہمارے درمیان نہیں رہتا تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اسے ہمارے معمولات کا حصہ رہنا چاہئے تھا۔ پھر وہ ہمیں قدم قدم پر یاد آتا ہے۔ اب یہ سوچ کر ہول اٹھتا ہے کہ وہ شخص مجھے کبھی دکھائی نہ دے گا جسے دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ میرے والد اس کے ساتھ اسی طرح گھومتے ہوں گے جیسے میں شاکر کے ساتھ گھومتا ہوں۔ ایک شخص تھا کہ جو لب ہلائے بغیر دعا دیتا تھا اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں حفاظت میں آگیا ہوں۔ اک شخص تھا کہ جس نے عمر بھر کسی سے کچھ کہا نہ سنا اور مولوی کہہ رہا تھا کہ اس کا کہا سنا معاف کردو۔ ایک ہی تو شخص تھا کہ جسے سامنے سے آتا دیکھ کر میں جلتا ہوا سگریٹ پھینک دیا کرتا تھا۔
17 جنوری 2002 ء روزنامہ نوائے وقت ملتان