کسی بھی ملک کی ترقی کا دار و مدار اس کے ادب و ادیب اور ثقافتی ترویج پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کی نوجوان نسل اپنی ثقافت اور ادب کے بنیادی نکات سے آگاہ نہ ہو لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج کے دور میں ہمارا معاشرہ ان دونوں چیزوں سے بالکل آگاہی نہیں رکھتا اس دور میں ماڈرنزم کے نام پر جہاں انگریزی کو اردو پر فوقیت حاصل ہے وہیں ہماری ثقافت پر بھی مغربی ثقافت اور رسم و رواج سبقت لے گئے ہیں ۔ ہمارا آج کا بچہ اردو ادب یہاں کے رسم و رواج اور قواعد و ضوابط سے نا آشنا ہے اور اس کا ذمہ دار جہاں ہمارا معاشرہ ، سوشل اور دیگر ذرائع ابلاغ ہیں وہیں اساتذہ اور والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو رسم و رواج اور ادب و آداب سکھانے کی بجائے انہیں کارٹونز میں مصروف کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے بے پرواہ ہیں کہ ان کا بچہ کیا سیکھ رہا ہے اور اس کی شخصیت میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بیشتر والدین ماڈرن دنیا کی دوڑ میں ہلقان ہیں اور اپنے گھر اور بچوں پر بالکل توجہ نہیں دے رہے ۔ دوسری طرف اساتذہ کا اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے بچوں پر دھیان نہیں اور بچہ مشرق میں رہنے کے باوجود مغرب سے دو ہاتھ آگے ہے۔ اس میں جہاں والدین اور اساتذہ ذمہ دار ہیں ادھر میڈیا بھی برابر کا شریک ہے میڈیا اپنے چینلز پر اس طرح کی کوریج کرتا ہے ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں کہ کوئی بھی فیملی ساتھ بیٹھ کر وہ پروگرام نہیں دیکھ سکتی ۔مغربی لباس کی ترویج کے ساتھ ساتھ مغربی زبان زیادہ تر ہمارے ہمسایہ ملک کی زبان اس حد تک ترقی پا چکی ہے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ ہم کیا بول رہے ہیں ۔ وہ بچے جو کبھی ہم سے اپنے دل کی بات کرتے تھے اب من کی باتیںکرنے لگے ۔ ایک وجہ معاشی بدحالی ہے کیونکہ کیونکہ اگر عوام اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی ہی سکت نہیں رکھے گی تو وہ ان باتوں پر بھلا کیا توجہ دے گی کہ ان کا بچہ کیا کرتا ہے اور کس طرح کی زبان استعمال کر رہا ہے ۔ ان مسائل کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی نااہلی ہے کیونکہ حکومت نہ تو معاشی مسائل کا کوئی مکمل حل تلاش کر سکی ہے اور نہ ہی معاشرے کے ایسے مسائل پر اس کی توجہ ہے ۔ یہ ناسور آہستہ آہستہ ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے ۔ اور ہمیںیاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم نے اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ نہ کیا تو پھر ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
فیس بک کمینٹ