ضیاءشبنمی صاحب کو اسی طرح رخصت ہونا چاہیے تھا جیسے وہ رخصت ہوئے۔ خاموشی کے ساتھ، چپکے سے اور کسی کو بتائے بغیر۔وہ ہجوم سے کتراتے تھے سو انہوں نے اس جہان سے رخصت ہوتے وقت بھی ہجوم نہ ہونے دیا۔10اور11جولائی2011ءکی درمیانی شب ان کا انتقال ہوا اور11جولائی کی صبح جب تک یہ خبر ان کے دوستوں اور شہر کے ادیبوں، شاعروں تک پہنچی انہیں سپرد خاک کیاجاچکاتھا۔ انہوں نے ایک بھرپور ادبی زندگی گزاری لیکن گزشتہ کئی برسوں سے وہ ادبی محفلوں سے لاتعلق ہوچکے تھے۔ ادیبوں شاعروں کے ساتھ بھی ان کی ملاقاتیں کم رہ گئی تھیں۔وہ مختلف ادبی رسائل میں باقاعدگی کے ساتھ چھپتے رہے۔ کاغذاور قلم کا ناطہ جسم وجاں کا ناطہ ختم ہونے تک برقرار رہا۔
ضیاءشبنمی تو ان کا قلمی نام تھا اصل نام سید اعجاز حسین شاہ 12اگست1942 ءکو پیدا ہوئے۔ شاعری شروع کی تو شبنم رومانی کو استاد بنایا اور پھر اپنے استاد کی نسبت سے ہی ضیاءشبنمی ہو گئے۔ ان کا ایک ہی شعری مجموعہ ” تشبیب“ 1980ءکے عشرے میں شائع ہوا اور اس مجموعے کا نام بھی ادبی محفلوں میں خوب زیر بحث رہا کہ ضیاءشبنمی کا شعری مجموعہ شائع ہونے کے بعد خالد احمد ”تشبیب“ کے نام سے اپنا نعتیہ مجموعہ منظرِ عام پرلے آئے تھے۔ ضیاءشبنمی نے اس پر احتجاج کیا مختلف رسائل وجرائد میں اس سرقے یا توارد کی بازگشت بھی سنائی دی لیکن خالد احمد نے اپنی کتاب کا نام تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔
ضیاءشبنمی کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات بھی انہی دنوں ہوئی جب ان کا شعری مجموعہ شائع ہواتھا۔ ایم ڈی اے چوک جسے اس دور میں پل مردہ خانہ کہاجاتاتھا وہاں ایکسائز کے دفتر میں سیاہ گھنی مونچھوں، لمبے بالوں اور خوبصورت آنکھوں والا نوجوان ہمیں اپنے شعر بھی سناتاتھا، ادبی گروہ بندیوں کا ذکر بھی رہتا تھا اور پھر کسی لطیفے یا دلچسپ واقعے پر زور دار قہقہے بھی لگتے تھے، پہلی ملاقات میں ہی عمروں کی تفاوت باقی نہ رہی۔ شاہ جی کے ساتھ میری اور شاکر حسین شاکر کی گاہے گاہے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان دنوں وہ روزنامہ ”مشرق“ کے ادبی صفحے میں ”ملتانیات“ کے نام سے ہفتہ وارادبی کالم تحریر کرتے تھے۔
ضیاءشبنمی اس زمانے میں بہت متحرک تھے،”اوراق“، ”تخلیق“ اور”اقدار“ میں ان کی غزلیں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں ان پرچوں کی ادارت بالترتیب ڈاکٹر وزیر آغا، اظہر جاوید اور شبنم رومانی کرتے تھے ۔ انہی دنوں ایک ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ خواتین شاعرات کے فن، شخصیت اور شعری انتخاب کے حوالے سے ایک کتاب مرتب کررہے ہیں اس کتاب کا نام انہوں نے ”چلمن“ تجویز کیا تھا۔ وہ خواتین کی شاعری کا ان کی شخصیت کے تناظر میں تجزیہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں شاعرات کے ساتھ ان کی طویل خط وکتابت اور مکالمہ بھی جاری رہتاتھا۔ وہ شاعرات کا نفسیاتی تجزیہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ اس کتاب کی تیاری کیلئے انہوں نے باقاعدہ لیٹر پیڈ اور سوالنامہ بھی چھپوا رکھاتھا۔ گاہے گاہے اس کتاب کے حوالے سے ان کا مختلف شاعرات کے ساتھ رابطہ رہا۔ کئی سال بعد بھی جب یہ کتاب شائع نہ ہوئی تو ہم نے ایک روز ان سے سوا ل کیا:
”شاہ جی آپ کتاب چھپوانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ کہیں یہ کتاب محض رابطے کا ایک بہانہ تو نہیں“ ۔
انہوں نے اس کا واضح جواب نہ دیا۔ مگر جب2006ءمیں ایک انٹر ویو کے دوران ان سے شاعرات کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے کہا
”تمام شاعرات کو بحری جہاز میں بٹھا کر بحیرہ عرب میں غرق کردیناچاہیے“۔
مجھے اس جواب کے بعد معلوم ہوگیا کہ وہ اس تحقیق کے بعد کسی نہ کسی نتیجے پر ضرور پہنچ گئے ہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد ضیاءشبنمی روحانیات کی جانب مائل ہوئے۔ انہوں نے تعویذوں کے ذریعے لوگوں کے مسائل کم کرنے کی کوشش شروع کردی یہ ان کی زندگی کا ایک مختلف دور تھا۔ ادبی محفلوں میں تو وہ پہلے بھی کم ہی جاتے تھے اب بالکل ہی لاتعلق ہوگئے۔سنا ہے انہوں نے باقاعدہ چلّہ کشی شروع کردی تھی۔ اس دوران ہی انہیں بہت سے نئے تجربات کا سامنا ہوا ۔جن میں ایک تجربہ شادی کا بھی تھا۔ اسی روحانی کیفیت کے دوران شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہوا جو شادی پر منتج ہوا۔ شاہ جی کی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خاتون مفلوج ہوچکی ہے اور موت وحیات کی کشمکش میں زندگی کے دن پورے کررہی ہے ۔ ضیاءشبنمی کی زندگی کے اس پہلو پر بہت سے لوگوں کو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ۔ اور پھر یہ چہ میگویاں بھی شروع ہوئیں کہ ضیاءشبنمی” چلمن “کے نام سے جو کتاب کئی برسوں سے ترتیب دے رہے تھے وہ محض صرف خواتین شعراء کے ساتھ رابطے کا ایک بہانہ تھا۔ روحانی عمل کے دوران انہیں بعض روشن خیال ادیبوں کی توہم پرستی کا بھی علم ہوا۔ وہ دوہرا کردار رکھنے والے ایسے لوگوں کا بہت دلچسپ انداز میں تذکرہ کرتے تھے۔
ضیاءشبنمی کی شاعری میں جذبوں اور رنگوں کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی تھی۔ انہوں نے خود کو صرف غزل تک محدود رکھا اور غزل میں بھی روایت کے ساتھ جڑے رہے۔ لیکن روایت کے ساتھ جڑی ہوئی ان غزلوں میں ان کی شخصیت کا بھرپور رومانوی پہلو اجاگرہوتاہے۔ ایک ایسا شاعر جو پیرانہ سالی میں بھی جو ان جذبوں کا بے دھڑک اظہار کرتاتھا۔
زیرِ لب میرا وہ اظہارِ تمنا کرنا
اور ترا سکھیوں سے مل کر مجھے رسوا کرنا
احتیاطاً کہ کسی کو نہ کہیں شک ہوجائے
لکڑیاں گیلی جلا کر ترا رویا کرنا
آنے والوں سے یہ کہنا” وہ مجھے یاد نہیں“
جانے والوں سے مرا حال بھی پوچھا کرنا
وفات سے ایک ہفتہ قبل وہ کتاب نگر پر آئے۔ شاکر حسین شاکر سے ” ندیم شناسی“ نامی کتاب منگوانے کیلئے کہا۔ اسی ملاقات میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ” تشبیب کے بعد“ تیار ہوگیا ہے۔ شاکر نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ پل براراں کے قریب جس نئے گھر میں منتقل ہوئے ہیں وہ خود وہاں آکر ان کے نئے مجموعے کامسودہ حاصل کرے گا اور پھر اس کی اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا لیکن افسوس کہ شاہ جی نے اتنی مہلت ہی نہ دی۔ ضیاءثاقب بخاری نے 11جولائی کی صبح جب مجھ سے دریافت کیا کہ ضیاءشبنمی صاحب کا جنازہ کب اور کہاں ہوگا تو اس وقت تک وہ آسودہ ء خاک ہوچکے تھے۔
”تشبیب“ کا شاعر”تشبیب کے بعد“ سے پہلے ہی رخصت ہوگیا اور رخصت بھی ایسے ہوا جیسے اسے رخصت ہونا چاہیے تھا۔
مطبوعہ : روزنامہ نوائے وقت ملتان ۔۔ جولائی 2011ء