مجھے جھوٹ بولنے والے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔میں ان کے ساتھ دو قدم بھی نہیں چل سکتا ۔ان سے دور بھاگتا ہوں اور دوستوں سے تو یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ آدھا بھی نہیں پورا سچ بولیں ،انتہائی شفاف دکھائی دیں اتنے شفاف کہ میں انہیں آرپا ر دیکھ سکوں ۔لیکن میں نے بارہا سوچا کہ دوستوں کی سچائی پر ایما ن رکھنے اور جھوٹ بولنے والوں کو سخت نا پسند کرنے کے باوجودمیں اطہر ناسک سے کیوں محبت کرتا ہوں ؟ہر مرتبہ اس سوال کا مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔شاید اس لئے کہ محبت بلا جواز ہوتی ہے ۔خوبیوں ،خامیوں سمیت ہوتی ہے،عمر، رنگ، نسل اور مذہب کی تفاوت سے بالا تر ہوتی ہے ۔لیکن محبت تو سچ مانگتی ہے۔مکمل اور سفاک سچ۔تو پھر اطہر ناسک کے ساتھ مجھے کیوں محبت ہے کہ اس نے تو عمر بھرکبھی خود کومجھ پر منکشف ہی نہیں ہونے دیا ۔وہ تو مجھ سے جھوٹ بولتا تھا،سفید جھوٹ بولتا تھا۔اور اتنے اعتماد کے ساتھ بولتا تھا کہ مجھ میں اسے جھٹلانے کی کبھی جرأت ہی نہ ہوئی تھی۔اس لئے نہیں کہ مجھے کوئی خوف تھا کہ میں اسے جھٹلا ؤں گا تو اس کے ساتھ میرا تعلق ختم ہو جائے گا یا وہ برا مان جائے گا ۔ہر گز نہیں ،برا ماننا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھااور اسے جھٹلانے والا تو کوئی روئے زمین پر تھا ہی نہیں۔تو پھر میں اسے کیوں نہ جھٹلاتا تھا۔بس نہیں جھٹلاتا تھا،مجھے وہ جھوٹ بولتا اچھا لگتا تھا ،میں اس کے جھوٹ کا عادی ہو گیا تھا ۔وہ کبھی سچ بھی بولتاتو اس پر جھوٹ کا ہی گمان ہوتا تھا۔جیسے پہلے پہلے جب اس نے ہمیں یہ بتایا کہ اسے کینسرنے گھن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا ہے تو ہمیں اس کی بات پر اس وقت تک یقین نہ آیا جب تک وہ خود اپنے ویران چہرے اور خزاں رسیدہ بدن کے ساتھ ہمارے روبرو نہ آگیا۔
یوں تواور بھی بہت سے لوگ ہیں جن کے جھوٹ کے ہم عادی ہو چکے ہیں لیکن ہم انہیں نا پسند کرتے ہیں ۔تو پھر ناسک مجھے کیوں اچھا لگتا تھا؟اس کا جھوٹ بولنا مجھے ناگوار کیوں نہ گزرتا تھا۔ اب اس کے رخصت ہونے کے بعد اس نقطے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ اپنی تمام تر دروغ بیانیوں کے باوجود مجھے اس لئے اچھا لگتا تھا کہ وہ انتہائی سچائی اور خلوص کے ساتھ جھوٹ بولتا تھا اوراپنا دروغ کسی راوی کی گردن پر بھی نہیں ڈالتاتھا۔اب آپ یہ کہیں گے کہ سچائی اور خلوص کے ساتھ جھوٹ بولنا کیا ہوتا ہے؟میں کیا بتاؤں کیا ہوتا ہے۔ میں نے اطہر ناسک کے سواکوئی ایسا دیکھا ہی نہیں کہ جھوٹ بولنا جس کی خامی نہ ہو خوبی بن جائے ۔وہ سچائی کے ساتھ جھوٹ بولتا تھا سو اچھا لگتا تھا،برے وہ لگتے ہیں جو ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ۔اس کا جھوٹ کسی اور کو نقصان نہیں پہنچاتاتھا،نشانہ اس کی اپنی ہی ذات ہوتی تھی۔اور اس نے خود کو اتنی کثرت کے ساتھ نشانہ بنایاکہ اندر سے لہو لہان ہو گیا۔اس نے زمانے کی تلخیوں اور کڑواہٹ کوسچے جھوٹ کے ذریعے اپنے وجود کا حصہ بنایا اور اس طرح حصہ بنایا کہ وہ زہرپھر اس کی رگوں میں دوڑنے لگا اور وہ ایسا ظالم کہ رگوں میں دوڑنے پھرنے کا توقائل ہی نہیں تھاکیلنڈر سامنے رکھ کر لہو کے ٹپکنے کا انتظار کرتا رہا۔
انتظار بہت اذیت ناک عمل ہے۔کسی کی راہ تکنا،روز دروازے کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنا،کسی چاپ کا منتظر رہنا،ہر آہٹ پر کان دھرنا،ہر کھٹکے پر لپک کر جانا اور پھر مایوس ہو کر واپس لوٹ آنا۔اتنا انتظار کرنا کہ آنکھیں پتھرا جائیں اور چاپ بھی چاپ نہ رہے دھمک میں تبدیل ہو جائے۔ہم سب عموماً زندگی کی خاطر انتظار کے اذیت ناک عمل سے گزرتے ہیں ۔محبوب کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے زندگی کی نوید لائے ۔کسی خوشبو کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مرتے ہوئے وجود کو معطر کر کے اس میں جیون بھر دے ۔کسی اچھی ساعت کا انتظار کرتے ہیں جو بہار بن کر آئے اور ہمارے پت جھڑ موسموں کو گُل و گلزار کر دے۔خوبصورت چہروں ،موسموں اور ساعتوں کا یہ انتظار ہی اتنا کرب ناک ہوتا ہے کہ ہم ریز ہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگتے ہیں۔اس طرح کرچی کرچی ہوتے ہیں کہ پھر وہ اچھی ساعتیں اگرآ بھی جائیں تو ہماری کرچیاں نہیں سمیٹ سکتیں۔زندگی کا انتظار اس قدر اذیت ناک ہے تو موت کی راہ تکنا کتنا خوفناک اور روح کو گھائل کر دینے والا ہو گا ،اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔جیتے جی مر جانے والے جب انتظار کی اس کیفیت سے گزرتے ہیں تو پھر ان کے لئے جیون بے معنی ہو جاتا ہے ۔چہرے ،موسم ،ساعتیں ،رنگ ،خوشبوئیں اور دھڑکنیں اکارت جاتی ہیں۔وہ موت سے زندگی کی تلاش شروع کرتے ہیں اور جیون کی بے معنویت پر اتنی زور سے قہقہہ لگاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے خواب ان کے رخساروں پر کوئی نام رقم کرتے ہیں اوروہ نام بھی زندگی کا نہیں ہوتا۔ایسا ہی ایک قہقہہ 11نومبر 2012ء کی دوپہر اطہر ناسک نے میو ہسپتال لاہور کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لگایا اور ہمیشہ کے لئے دکھوں سے آزاد ہو گیا۔موت اس کی زندگی کا شاید پہلا اور یقیناًآخری سچ ہے۔
اطہر ناسک زندگی کی خوشگوار ساعتوں میں مجھے سب سے پہلے روزنامہ ’’سنگِ میل‘‘ کے دفتر میں ملا تھا ۔یہ 1980ء کی بات ہے ۔ناسک وہاں بچوں کے صفحے کا انچارج تھا اور میں بچوں کے لئے اگاتھا کرسٹی کے ایک جاسوسی ناول کاقسط وار ترجمہ لے کر اس کے پاس گیا تھا ۔وہ زندگی اور موت کے کھیل کی ایک پراسرار کہانی تھی ۔اگاتھا کرسٹی کے اس ناول کے ذریعے ہی میری اطہر ناسک کی بھیدوں بھری زندگی سے آشنائی ہوئی ۔ اسے قسطوں میں موت کے منہ میں جاتے دیکھاتو مجھے وہ قسط وار کہانی یاد آگئی ۔وہی زندگی اور موت کے کھیل والی پراسرار کہانی۔اور اس کے جیون کی کہانی، جو اگاتھا کرسٹی کے اسی ناول کی طرح پراسرار ہے لمحہ لمحہ قاری کو حیرت زدہ کرتی ہے جیسے اطہر ناسک عمر بھرسب کو حیران کرتا رہا ۔میں اس کا دوست رہا اس کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا دعویٰ کرتا رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس کے بہت قریب رہنے کے باوجود اس کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا تھا۔اس نے مجھ سمیت تمام دوستوں کی مشکلات تو آسان کیں لیکن ہمیں اپنی بہت سی مشکلات سے بے خبر ہی رکھا۔لوگ دوستوں کو بے خبری میں مار دیتے ہیں ،اطہر ناسک دوستوں کو بے خبر رکھ کر خود مر جانے کے ہنر سے آشنا تھا۔اور جو خود مر جانے کے ہنر سے آشنا ہو اسے موت بھی نہیں مار سکتی۔
اطہر ناسک اور میں بہت سے اچھے برے موسموں کے ساتھی رہے ۔لاہور میں اس کی رفاقت میں گزرے دو سال میری زندگی کا حسین اثاثہ ہیں اور اس اثاثے میں طفیل ابنِ گُل اور اختر شمار کی محبتیں بھی شامل ہیں ۔میں نے 1986-87ء میں طفیل اور اطہر کے ساتھ دو سال ایک ہی چھت تلے بسر کئے ۔موہنی رو ڈپر واقع حیدر بلڈنگ کے تنگ و تاریک کمرہ نمبر 52نے ہم تینوں کو قبر کے خوف سے بے نیاز کر دیا ۔غربت کے اس دور ہم ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بنے ۔خوشیاں تو اس زمانے میں ہمیں کم ہی میسر تھیں ۔کوئی چھوٹی سی آس ،کوئی امید ،کوئی نوید کبھی دکھائی یا سنائی بھی دیتی تو بس چند لمحوں یا ساعتوں کے لئے ۔لیکن ہم ان دکھوں سے ہی اتنی مسرت کشید کر لیتے کہ رائیگانی کا احساس ختم ہو جاتا تھا ۔ خوشیاں ہمیں عموماً اطہر ناسک کی وجہ سے ملتی تھیں۔وہ پردیس میں ہمارے لئے بہت سی آسانیاں پیدا کرتا تھا ۔ہمارا ہی نہیں وہ اور بہت سے دوستوں کا بھی مسیحا تھا۔کسی کو اپنی ملازمت داؤ پر لگا کر نوکری دلواتا تو کبھی اپنی تنخواہ سے کچھ رقم پس انداز کر کے کسی کے کالج یا یونیورسٹی کی فیس اد کرتا۔ان بہت سی خوبیوں اور بے تکلفی کے با وجودہم تمام دوستوں کو ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ وہ ہمیں اپنے بارے میں لا علم رکھتا ہے۔ہمیں اس کے بارے میں اس کی زبانی جو کچھ بھی معلوم ہوتا وہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی مقام پر غلط ثابت ہو جاتا تھا۔وہ اس زمانے میں بھی اکثر لاپتہ ہو جاتا تھا ۔پھر وہ ایک آدھ ہفتے بعد نمودار ہوتاہمیں کوئی اچھی سی خوشبو دار کہانی سناتا،رشوت میں سگریٹ پلاتا،کھانا کھلاتااور پھر کھانے کی میز کو اپنی کہانیوں سے مزید معطر کرتا۔ہم ان کہانیوں کو بہت غور سے سنتے تھے ۔ہم جانتے تھے وہ جو کچھ سنا رہا ہے درست نہیں ،جو کچھ بتا رہا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم اسے بہت توجہ سے سنتے تھے ۔بہت دیر تک اور بہت دور تک سنتے تھے ۔میو ہسپتال کے قریب ’’امروز‘‘ کے دفتر سے رات کے کسی پہرطفیل ابنِ گُل کے ہمراہ جب ہم پیدل بھاٹی کی جانب روانہ ہوتے تو مسافت آسان کرنے کے لئے طفیل ابنِ گُل اطہر ناسک سے کوئی سوال کر دیتا،کوئی قصہ چھیڑ دیتا۔پھر اطہر ناسک فلمی انداز میں کوئی کہانی ،کوئی قصہ شروع کرتا۔تمام تر جزئیات اور منظر نگاری کے ساتھ ۔ہم خاموش سر کو جھکائے اچھے بچوں کی طرح اس کے ساتھ چلتے۔کوئی مداخلت بھی نہ کرتے کہ کہیں اس کے جھوٹ کا تسلسل نہ ٹوٹ جائے ۔کہ جھوٹ کا لطف ہی تب آتا ہے جب اس میں ایک قرینہ ہو،ایک بنت اور تسلسل ہو۔ہاں کہانی کے کسی موڑ پر جب ضبط کی انتہا ہو جاتی تو طفیل کوئی لحاظ کئے بغیر بے اختیار ہنسنے لگتا۔وہ ہنستا ہنستا دوہرا ہوتا،کانوں کو ہاتھ لگاتا اور اطہر ناسک کے آگے ہاتھ جوڑ دیتا۔
’’سید بادشاہ ۔اللہ کا نام لے،کوئی خدا کا خوف کر،یار یہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
اطہر ناسک سگریٹ کا لمبا کش لے کر دھواں فضا میں پھینکتا اور اتنی سنجیدگی کے ساتھ’’آپ سنیں تو سہی ،میں درست کہہ رہا ہوں ‘‘کہتا کہ ہم ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنستے اور اس کی کہانی کو سچ مان لیتے۔
( جاری ہے )
فیس بک کمینٹ