ہم نے اس کی بہت سی باتوں پر یقین کیا اور اتنا یقین کیاکہ ہم اس کے حوالے سے گمان کی حدوں سے آگے نکل گئے۔ہم نے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا شرو ع کیا کہ اگر یہ شخص اپنے جھوٹ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا،کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا،جھوٹ اپنی برتری ثابت کرنے یا کسی کو نیچا دکھانے کے لئے نہیں بولتاتو پھر اس نے اپنی ذات کو بھید کیوں بنا رکھا ہے؟ کئی پردوں میں کیوں چھپا رکھا ہے؟نتیجہ یہ نکلا کہ شاید وہ کسی کواپنے دکھوں میں شامل نہیں کرنا چاہتا۔وہ کسی دوست کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس کے آگے اپنا سب کچھ بیان کردے یا پھر شاید وہ زندگی کے ابتدائی دور میں ہی اتنے تلخ تجربات کا شکار ہواکہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی کو اپنے کسی بھید یا دکھ میں شریک نہیں کرے گا کہ لوگوں کو دکھوں میں شریک کرنا بے معنی ہوتا ہے۔لوگ تو صرف تماشائی ہوتے ہیں آپ کے دکھوں سے لطف اٹھاتے ہیں اور پھر رخصت ہو جاتے ہیں۔اطہر ناسک کی تمام عمر مشقت سے عبارت تھی۔اس نے جوانی کے سنہرے دن صحافت کو دئے لیکن اخبار کے لئے سنگل کالم کا بھی حق دار نہ ٹھہرا۔اس نے شعر کہے،لوگوں کو صاحبِ دیوان بنایا اور اپنی بیاضِ شعر کے اوراق پھاڑ کر انہیں کشتیوں کی صورت بہتے پانی کی نذر کر دیا ۔فلم انڈسٹری کی جانب گیا لیکن وہ بھی اس کے معیار پر پورا نہ اتری۔یکے بعد دیگرے چار شادیاں کیں ۔تو کیا اسے واقعی کہیں سے محبت نہ مل سکی ؟۔ایسا بھی نہیں ہے ۔اسے ٹوٹ کر چاہا گیا اتنا چاہا گیا کہ پھر وہ خود ٹوٹ گیا۔مجھے تو یوں لگا جیسے اس کا مَن ایک لق و دق صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے کہ محبت کی جتنی بھی بارش ہو جائے اس کی پیاس نہیں بجھا سکتی۔زندگی سے لڑتے لڑتے آخری لڑائی اس نے اپنی ذات سے لڑی۔اس کے تین بھائیوں کو کینسر نے نگلا تو اس نے اپنے استاد بیدل حیدری کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی موت کی پیش گوئی کر دی۔پھر ایک روز معلوم ہوا کہ اسے واقعی کینسر ہو گیا ہے۔کسی دوست کے بارے میں ایسی خبر تو کسی راست گو کی زبانی بھی معلوم ہو تو جھوٹ کا گمان ہوتا ہے اور یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔بھلا اطہر ناسک کی زبانی ایسی خبر کا یقین کون کرتا اور کیونکر کرتا۔فیس بک پر یہ خبر پڑھ کر ڈاکٹر انوار احمد نے لکھا ’’اطہر ناسک میں تمہاری گپوں سے ہمیشہ لطف اندوز ہوتا ہوں۔کہہ دو کہ اس مرتبہ بھی تم گپ ہانک رہے ہو‘‘۔عطاء الحق قاسمی نے خبر سنی تو بے یقینی کے عالم میں سوال کیا کہ کیا واقعی یہ خبر درست ہے ۔ان کا کہنا تھا ناسک کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے اس بار بھی جھوٹ ہی بول رہا ہو گا ۔لیکن عطاء الحق قاسمی اورڈاکٹر انوار احمد کو بھی ہماری طرح معلوم نہیں تھاکہ اس مرتبہ کہانی اطہر ناسک نے نہیں سنائی۔کہانی کہیں اور سے سنائی جا رہی تھی۔و ہ جو کئی ماہ تک اپنے فون بند کرنے کے بعد کسی نئی شادی کے ساتھ نمودار ہوتا تھااس مرتبہ فون بند کر کے موت کو بیاہنے گیا تھا۔
وہ ایک طویل مدت کے بعد موت سے تین برس پہلے ہمیں ملا تھا ۔ اس دوران اس کے بارے میں متضاد اطلاعات ملتی رہیں ۔کبھی کسی نئی شادی کی خبر ملتی تو کبھی معلوم ہوتا کہ وہ پرائز بانڈ کے نمبر دینے والا بابا بن گیا ہے۔طویل غیر حاضری اور محکمانہ چپقلشوں کے نتیجے میں اس کی نوکری ختم ہو چکی تھی ۔اخترشمار ان دنوں لاہور میں تھا وہ اس کے ساتھ بھی رابطے میں نہیں تھا ۔پھر ایک روز ناصر بشیر نے کسی ٹرین میں اسے دیکھا اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور چولا پہن رکھا تھا ۔ہر جمعرات کو شام نگر کے ایک دربار پر قوالیاں کرانے کا سلسلہ تو اس نے اپنے والد کے انتقال کے فوراًبعد شروع کر دیا تھا ۔ادب ، شاعری ، صحافت ۔۔ اس نے سب کچھ ترک کر دیا۔چار شادیوں نے اور تین بچوں نے اسے جن مالی مشکلات کا شکار کیا ان سے نمٹنے میں ادب اور صحافت تو اس کی مدد نہیں کر سکتے تھے ۔اسی دوران وہ ملتان آیا تو اختر شمارنے مجھے مخبری کر دی ۔ ’’وہ ملتان میں ہے ۔۔ تم اس سے رابطہ کرو اور اس کا حال معلوم کرو۔۔سنا ہے وہ مقروض ہو چکا ہے اور لوگوں سے ملتا بھی نہیں ۔۔اس نے فون نمبر بھی ارسال کردیا‘‘دو چار مرتبہ رابطوں کے بعد اس نے فون اٹینڈ کر لیا ۔ میں اسے ملنے کے لئے قدیر آباد پہنچا ۔ وہی گھر جہاں میں 1980ء میں پہلی بار اس سے ملنے گیا تھا اور جس کی بیٹھک میں اس نے ماہنامہ’’بچوں کا گلاب ‘‘کا دفتر بنا رکھا تھا ۔اس کے بھائی طاہر نے دروازہ کھولا اور میرے استفسار پر اطہر ناسک کی ملتان موجود گی سے انکار کر دیا۔’’میری ابھی اس سے بات ہوئی ہے وہ گھر میں ہی موجود ہے ۔آپ اسے میری آمد کا بتائیں ‘‘۔کچھ دیر بعد ناسک گھر سے باہر آگیا ۔لیکن یہ تو وہ ناسک نہیں تھاجسے میں تلاش کر رہا تھا ۔کمزور، اور ناتواں اطہرناسک نے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔کمر اس کی جھکی ہوئی تھی اور درد سے کراہتا تھا ۔وہ مجھے اندر لے گیا اسی بیٹھک میں جہاں کبھی ’’بچوں کے گلاب‘‘کا دفتر ہوتا تھا ۔وہ چارپائی پر لیٹا اور مجھے کہانی سنانا شروع کر دی ۔’’نہ سناؤ مجھے کہانی ۔۔اب تو حقیقت بتا دو ۔ اب تو سب کچھ برباد ہونے جا رہا ہے‘‘اس نے مخصوص قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں نے مرنا نہیں ۔۔میں اس کینسر کا مقابلہ کروں گا ۔ابھی میں نے بہت سے کام کرنے ہیں ‘‘’’ہاں ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے ‘‘میں نے اس کا سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اسی رات میں شاکر حسین شاکر سے ملا اور اسے سارا احوال سنا ڈالا۔خالد مسعود خان نے کہا ہم پنجاب حکومت کے ذریعے اس کا علاج کراتے ہیں ۔نشتر ہسپتال میں کینسر وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز مسعود سے ٹائم لیا گیا ۔ اور اگلے روز جب ملاقات کا وقت ہوا تو ناسک غائب ہو گیا اور اس نے فون بند کردیا۔پھر آصف بھلی کے ایک کالم کے ذریعے اس کی خبر ملی ۔ وہ ملازمت پر بحال ہو کرروجھان کالج میں تعینات تھا کہ بحالی ہوئی اسی شرط پر تھی کہ اسے کسی دور افتادہ کالج میں تعینات کیا جائے گا۔
جنوری2012 کی ایک ٹھٹھرتی شام وہ روجھان سے ملتان پہنچا تو مجھ سے پہلے مسعود کاظمی اس کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ناسک مزید ناتواں ،اس کے ہاتھ مزید سرد اور قہقہہ اور حوصلہ پہلے سے بھی بلندتھا۔ہم سب کینٹ کے ایک ہوٹل میں جمع ہوئے،قمر رضا شہزاد، شاکر حسین شاکر، نوازش علی ندیم سب آگئے۔ناسک کو علاج کے لئے رضامند کیا گیا ،شرط اس کی وہی تھی کہ میں آپریشن نہیں کراؤں گا۔کینسر کے آپریشن نے اس کے بھائی کی جان لے لی تھی جس کی بیوہ کے ساتھ اس نے بعد ازا ں نکاح کر لیا کہ شاید اُس کے بچوں کی وہ اسی صورت کفالت کر سکتا تھا۔فیصلہ ہوا کہ ناسک کے علاج معالجے کے لئے بھر پور کوششیں کی جائیں اور اس حوالے سے ایک بھر پور مہم بھی چلائی جائے ۔مصر میں اختر شمار سرگرم ہوئے تو ان کے ساتھ آسٹریلیا میں سعید خان اور نوشی گیلانی ، امریکہ میں شکیل سروش اور بہت دوسرے بھی میدان میں آگئے ۔ملتان میں سخنور فورم کے زیرِ اہتمام آرٹس کونسل کی ادبی بیٹھک میں 26جنوری کوایک شامِ پذیرائی کا اہتمام کیا گیا۔ ملتان میں ناسک کی زندگی کی یہ آخری تقریب تھی۔ وہ 1986ء کے بعد پہلی بار ملتان کی کسی ادبی تقریب میں آیا تھا۔ادیب ، شاعر ، صحافی سب جمع ہوئے ۔ناسک کو گلدستے پیش کئے گئے ۔وہ اس تقریب میں ہنسا بھی بہت اور رویا بھی بہت۔استاد بیدل حیدری کے بہت سے واقعات سنائے ، طفیل ابنِ گُل اور اختر شمار کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کا ذکر کیا ،اپنے بچپن کے واقعات سنائے اور ساتھ میں یہ اعلان کہ میں آخری سانس تک کالج میں پڑھاتا رہوں گا۔اس تقریب کی بازگشت ملک بھر میں سنائی دی ۔امجد اسلام امجد،اجمل نیازی، سعداللہ شاہ ، سجاد جہانیہ سمیت کئی کالم نگاروں نے اپنے کالموں کے ذریعے حکمرانوں کی توجہ ناسک کی حالتِ زار کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ۔مطالبہ کیا گیا کہ ایک شاعر موت کے منہ میں جا رہا ہے اس کے علاج پر توجہ دی جائے ۔لیکن حکمرانوں کی ترجیحات میں ایک شاعر بھلا کیسے جگہ پا سکتا تھا ۔ان کالموں اور عطاء الحق قاسمی صاحب کی کوششوں سے صرف اتنا ہوا کہ ناسک کا روجھان سے خانیوال تبادلہ کر دیا گیا ۔ناسک اس دوران لمحہ لمحہ موت کی جانب بڑھتا رہا اور آخر 11نومبر 2012 کو وہ اس اذیت سے ہمیشہ کے لئے نجات پا گیا ۔اسی شب اسے اس کے گھر کے قریب ہی اس کے تین بھائیوں کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا ۔اس جہان میں خلوص اور سچائی کے ساتھ جھوٹ بولنے والا ایک ہی تو شخص تھا وہ بھی چلا گیا ۔موت اس کی زندگی کا سب سے بڑا سچ ثابت ہوئی کہ اس سے بڑا سچ اور ہے بھی تو نہیں
فیس بک کمینٹ