رضی الدین رضی کی غزل : زندگی جھٹک دوں گا
ادھار مانگی ہوئی روشنی جھٹک دوں گا
میں ضد میں آؤ ں گا تو زندگی جھٹک دوں گا
جو اک خلش سی ترے ذہن میں ہے برسوں سے
جھٹک چکا ہے تو میں بھی ابھی جھٹک دوں گا
وہ جس میں میری انا پر بھی حرف آتا ہو
میں ایسے خواب کی تعبیر بھی جھٹک دوں گا
یہ جس طرح سے ابھی چل رہا ہے چلنے دے
تُو ضد کرے گا تو پھر آج ہی جھٹک دوں گا
بسا لیا ہے وہ دل میں جو میرے بس میں نہیں
جو بس چلے گا تو پھر بے بسی جھٹک دوں گا
رضی الدین رضی
فیس بک کمینٹ