سیمسن جاوید کے کالموں کامجموعہ’’ گل وخار ‘‘میرے سامنے ہے اورمیں اس کتاب میں پھولوں کی خوشبوبھی محسوس کررہاہوں اورکانٹوں کی چبھن بھی ۔پھول اورکانٹوں کاہمیشہ سے چولی دامن کاساتھ ہے سو اس کتا ب میں پھول بھی ہیں اورکانٹے بھی ۔پھول محبت کی علامت ہیں لیکن ان پھولوں تک رسائی کے لیے نفرت کے خار زار راستوں سے گزرناپڑتاہے ۔
سیمسن جاوید ایک کہنہ مشق لکھاری ہیں اورایک طویل عرصہ سے بیرون ملک مقیم ہیں ۔ہم عمومی طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ تارکین وطن کا اس دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہتالیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی جڑیں اسی مٹی میں ہوتی ہیں ۔وہ اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے وطن سے ہجرت تو کرجاتے ہیں لیکن سیمسن جاوید کی طرح یہاں کے مسائل اوردکھوں سے لاتعلق نہیں رہتے کہ ان میں سے بہت سوں کے قریبی عزیز واقارب پاکستان میں ہی موجودہوتے ہیں ۔
سیمسن جاوید کاتعلق مسیحی برادری سے ہے اور اس حقیقت سے بہت کم لوگ آشنا ہیں کہ تحریک پاکستان میں مسیحی برادری نے بھرپور کرداراداکیاتھااورہندوستانی مسیحی واحد اقلیت تھے جنہوں نے مکمل طورپرقائداعظم کاساتھ دیا۔باقی اقلیتوں میں اس حوالے سے تقسیم تھی یعنی کچھ دھڑے پاکستان کے حامی اورکچھ مخالف تھے ۔23مارچ 1940ءکو منٹوپارک میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس جلسے میں پورے ہندوستان سے ہزاروں مسیحی شریک ہوئے ۔تحریک پاکستان کے مسیحی رہنماﺅں میں دیوان بہادر ،ایس ایس رابرٹ اورریاست کپور تھلہ کے مسیحی راجا کی بیٹی شامل ہیں۔لاریب ہوٹل لاہور میں قائداعظم کے اعزاز میں استقبالیہ دیاگیا جس میں انہیں مکمل حمایت کایقین دلایاگیا۔1946ءمیں باﺅنڈری کمیشن بنایاگیاتواس میں مسیحی رہنماﺅں نے مطالبہ کیاکہ ہماری گنتی مسلمانوں کے ساتھ کی جائے۔
المیہ یہ ہے کہ اس زمانے میں قائداعظم کوکافر اعظم کہنے والے مولوی قیام پاکستان کے بعد اسلام کے ٹھیکیداربن گئے اور پھر یہاں نفرت کے بیج بوئے گئے ۔ نہ صرف یہ کہ ان ملاﺅں نے ایک دوسرے کو کافر قرار دیابلکہ اقلیتوں پر زمین ایسی تنگ کی کہ احمدیوں ،مسیحیوں ،سکھوں اورہندوﺅں سمیت بہت سے لوگوں کوجان بچانے کے لیے پاکستان سے نقل مکانی کرناپڑگئی ۔پاکستان کے پرچم میں جو سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتاتھاافسوس کہ وہ اقلیتوں کے خون سے ہی آلودہ ہوگیا۔اورتواور اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی بھی انتہاپسندوں کانشانہ بن گئے ۔خود ہمارے خطے میں شانتی نگر جیسے سانحے کی مثال موجودہے ۔ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں جڑانوالا میں پیش آیا جہاں 25گرجاگھروں سمیت مسیحی برادری کے سینکڑوں گھر جلا دیئے گئے ۔سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو جس بے دردی سے اسلام کے نام پرزندہ جلایاگیا وہ بھی اسی انتہا پسندی کا مظہر ہے ۔ ایسے بہت سے واقعات کا ذکر اس کتاب میں موجودہے ۔سیمسن جاوید نے اپنے دکھوں کابھی ذکر کیا اورڈاکٹرجیمز مسیحی شیراجیسے ہیروز کوبھی یاد کیا۔
یمسن جاوید نے ان کالموں میں اور بھی بہت سے مسائل کی نشاندہی بھی کی ہے جبراََمذہب کی تبدیلی ،مسیحی خواتین کا اغوا، قتل اوردیگر واقعات اس کتاب کاحصہ ہیں ۔مجموعی طورپر یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے آنے والے دنوں میں کوئی تحقیق کاطالب علم اگر مسیحی برادری کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پرکام کرناچاہے گایا ان کی خدمات کے بارے میں آگاہی حاصل کرناچاہے گاتویہ کتاب اس کے لیے مدد گار ثابت ہوگی ۔گردوپیش پبلی کیشنز کے زیراہتمام اس موضوع پر یہ پہلی کتاب شائع کی جا رہی ہے جس کے لیے میں برادرم جاوید یاد کاممنون ہوں کہ ان کی وساطت سے ہمارا سیمسن جاوید صاحب کے ساتھ رابطہ ہوا۔
فیس بک کمینٹ