قارئین محترم 1825 دن کسی کو فراموش کرنے کے لیے کچھ زیادہ تو نہیں ہوتے۔مطلب یہ ہے کہ پانچ سال،60 مہینے اور 240 ہفتے ہی تو بنتے ہیں کسی بھی شخص کو بھلا دینے کے لیے،جو ہم سے دور چلا گیاہو ۔
زندگی کے دنوں کا یہ حساب کتاب کرتے مجھے بھی تین چار دن ہو گئے۔ اب دنوں کی جمع تفریق کرتے ہوئے خیال آیا ۔یہ جو میں کیلکولیٹر سامنے رکھ کر بیٹھا ہوا ہوں۔
یہ سب کار فضول ہے۔کیونکہ یہی تو زمانے کا چلن ہے۔ہم ہر مرتبہ بھول جاتے ہیں،کیونکہ ہم سب اسی کشتی کے مسافر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو! آ پ نے یہ پڑھ کر دل برداشتہ نہیں ہونا،اور اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے کہ ہم سب ایسے ہی ہیں۔وجہ یہ ہے کہ چند دن پہلے مجھے میرے فیس بک نے بتایا کہ آ ج” اقبال ارشد "کو ہم سے جدا ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں۔
خدا کے لیے یہ مت سوال پوچھیے گا کون اقبال ارشد؟
جی وہی اقبال ارشد جس نے اس شہر کو 70 سال دیے۔
ان 70 برسوں میں اقبال ارشد نے شہر پر ادب کے ذریعے حکمرانی کی۔یہ اسی اقبال ارشد کا ذکر ہے ۔کہ وہ جب کسی تقریب میں آ کر خطاب کرتا تھا تو سننے والے اس کی گفتگو کے سحر میں گم ہو جاتے تھے۔ہمیں اس کی گفتگو سنتے وقت یوں لگتا تھا جیسے وہ کوئی داستان سنا رہا ہے ایسی روانی اور بلا کی یادداشت کسی اور کے پاس کہاں تھی ۔پھر بات کرتے ہوئے جملے کی بنت کا خیال رکھنا اقبال ارشد کا تو خاصہ تھا۔دنیا کا کون سا موضوع یا شخص ایسا تھا کہ جس پر وہ بولنا شروع کرتے تو بولتے چلے جاتے ہیں۔
اگر میں ان کی شاعری کے متعلق بات کروں تو اس پر کئی مضامین لکھے جا سکتے ہیں، لیکن اہل ملتان جانتے ہیں کہ ان کی شاعری عام ڈگر سے ہٹی ہوئی شاعری تھی۔وہ عصر حاضر سے جڑے ہوئے شاعر تھے جس نے ہر عمر کے فرد کو شاعری کے ذریعے اپنا گرویدہ بنایا ۔انہوں نے اپنے وقت کے مطابق جدید طرز احساس کو بھی سامنے رکھا روایت کو بھی ساتھ لے کر چلے۔مجھے یاد ہے 1990 کے عشرے میں ملتان کے واحد خواتین کالج میں جب ایک طرحی مشاعرہ منعقد ہوا طرح مصرعہ اقبال ارشد کے مشہور زمانہ شعر سے انتخاب کیا گیا شعرملاحظہ کیجیے۔
تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
اسی طرح معروف مغینہ اقبال بانو نے اقبال ارشد کا بہت سا کلام گا کر اپنے لیے شہرت کے دروازے کھولے۔جن احباب کی ان سے ملاقاتیں رہیں ان کو یاد ہوگا کہ وہ ایک درویش منش انسان تھے جس نے صرف اور صرف ادب کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔انہوں نے اپنی پوری زندگی ادب کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اسی ادب کی خدمت کرتے کرتے انہیں احساس ہی نہ ہوا کہ گھر میں بچے بڑے ہو رہے ہیں۔گھر آ نگن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا رونق لگائے ہوئے تھے ۔ کہ اچانک بیٹا انتقال کر گیا اور جاتے ہوئے اپنے ساتھ اپنی ماں اور باپ کی زندگی کے سکھ کے سپنے اور قہقہے بھی لے گیا۔ہنستے بستے گھر میں دکھوں نے بسیرا کر لیا پہلے ماں چلی گئی اور بعد میں اقبال ارشد نے اس کی یاد میں رو کر اپنی آ نکھیں اپنے اکلوتے بیٹے کی نذر کر دیں ۔بیٹے کے حادثے کے بعد ملتان میں اقبال ارشد کا نیا جنم ہوا،وہ اقبال ارشد جس کا محفل میں قہقہہ سب سے بلند ہوا کرتا تھا۔جب خوشگوار موڈ میں ہوتے ہیں تو اچانک اپنے کسی دوست کو” باندر "کہہ کر محفل کو مزید چاند لگا دیتے . مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے قمر رضا شہزاد نے یہ شعر انہی کے لیے ہی کہا تھا۔
مری ہنسی کا شور بھی سب سے بلند ہے
شاید میں دکھ بھی سب سے زیادہ اٹھاؤں گا
میں نے اقبال رشد کو پہلی مرتبہ جب دیکھا تو نے فوراً انکل اقبال کہا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ میرے چچا پروفیسر حسین سحر کے ہمراہ میرے والد محترم کی دکان پر تشریف لائے تھے۔میرے ابو جان کی دکان ( اندرون بوہڑ گیٹ کالے منڈی ملتان )میں موجود تھی قریب ہی اقبال ارشد کا گھر تھا جس وجہ سے میرے چچا کا آنا جانا باقاعدگی سے رہتا تھا۔یہ میں 1980کے عشرے کی بات کر رہا ہوں۔ جنرل ضیا کا مارشل لاء جاری تھا،اقبال ارشد کے سسر اور معروف شاعر قتیل جعفری سرعام جنرل ضیا کو برا بھلا کہتے ہیں اور پورے بازار والے ان کی گفتگو سن کر لطف اٹھاتے۔قتیل جعفری پورے بازار میں صرف ابو جان کی دکان پر آ کر بیٹھتے تھے ۔کہ انہیں معلوم تھا کہ ان کی کڑوی کسیلی باتیں صرف میرے ابو ہی سن سکتے تھے۔جس دن وہ دکان پر نہ آ تے تو دکان پر اداسی کا سماں ہوتا۔ ویسے قیتل جعفری کو بھی علم تھا کہ پورے بازار میں صرف حاجی جعفر حسین کا آستانہ ایسا تھا جہاں پر ان کی بات غور سے سنی جاتی تھی ۔اقبال ارشد کا گھر بھی کالے منڈی بازار کے ایک چوبارے پر تھا،اس بازار سے چوک حرم گیٹ قریب پڑتا تھا یہاں پر ملتان کا سب سے بڑا بکسٹال "عزیز بکسٹال”ادیبوں، شاعروں کا مرکز تھا۔یہاں پر میں اکثر اقبال ارشد ،حسین سحر ،عبدالکریم قاصف اور عاصی کرنالی کو دیکھا کرتا۔1981 میں ہم چوک خونی برج سے چاہ بوہڑ والہ منتقل ہوئے تو اقبال ارشد سے مختلف تقریبات میں ملاقات ہونے لگی۔یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال ارشد خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ چھوڑ کر واپڈا میں بطور افسر تعلقات عامہ تعینات ہوئے۔کچھ عرصے کے لیے گوجرانوالہ بھی رہے ملتان تبادلے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر شہر کی ہر ادبی تقریب میں دکھائی دینے لگے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک زمانہ قدردان تھا ریڈیو پاکستان ملتان کے لیے ڈرامے،فیچر،حالات حاضرہ کے پروگرام اور مختلف شعبوں میں ان کی شاعری سے استفادہ ہونے لگا۔انہی دنوں ملتان سے شائع ہونے والے تمام اخبارات میں ان کی تازہ شاعری شائع ہوتی تو وہ سارا دن داد وصول کرتے رہتے ۔
وہ سراپا شاعر تھے،اور شاعروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ان کو اچھا لگتا تھا بابا ہوٹل سے لے کر ملتان میں ہونے والی ہر علمی، ادبی، ثقافتی اور سماجی تقریب میں ان کی حیثیت مرکزی ہوتی ۔اسی طرح پورے ملک میں کوئی بڑا مشاعرہ ہوتا تو اس میں اقبال ارشد کی شرکت لازمی ہوتی۔ملتان میں آنے والے کسی بھی شاعر کے وہ مستقل میزبان ہوتے کہ انہیں دوستوں پر خرچ کرنا اچھا لگتا تھا ۔اس بات کی گواہی زمانہ دیتا تھا کہ انہوں نے کبھی پیسے سے پیار نہیں کیا۔وہ نہ صرف شاندار شاعر تھے بلکہ ان کی شخصیت میں بلا کی مقناطیسیت تھی کہ جو ایک مرتبہ ان سے مل لیتا بار بار ملنے کو ان کے گھر، دفتر یا بابا ہو ٹل حاضر ہوتا۔انہوں نے ادب کو اپنے اوپر اوڑھا ہوا تھا اور کئی معنوں میں وہ شہر کے ایک ایسے سفیر تھے جن کو پورا ملک پیار کرتا تھا ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی اور وہ کشش ایسی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔
اکلوتے بیٹے کی وفات کے بعد ان کے گھر کا نقشہ تبدیل ہوتا گیا ان کے عزیز و اقارب نے ان سے آبائی زمین چھین لی تو اس درویش صفت ولی نے ایک مرتبہ بھی کسی سے شکوہ نہ کیا ایک عرصے تک اپنی بیمار اہلیہ کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہے اور کلمہ شکر ادا کرتے ۔مشکل کی اس گھڑی میں ان کی چھوٹی بیٹی مدیحہ نے بیٹا بن کر اپنے والدین کی خدمت کی۔مدیحہ بیٹی نے پہلے اپنی والدہ محترمہ کی طویل بیماری کے ساتھ ساتھ اپنے ابو کا بھی خیال رکھا یہی وہ دور تھا جب اقبال ارشد نے مسلسل رو کر اپنی آ نکھیں خراب کر لیں ۔ایسے میں مدیحہ بیٹی نے جس ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے والدین کا خیال رکھا وہ آ ج کے زمانے میں شاید ہی کوئی اتنا خیال رکھے مدیحہ کے لیے ہمیشہ اقبال ارشد بیٹے کا لفظ استعمال کرتے تھے اور اس نے حقیقی معنوں میں بیٹی کی بجائے بیٹے کا فریضہ سرانجام دیا۔اہلیہ کے انتقال کے بعد اقبال ارشد مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔وہ شخص جو شہر کی ہر تقریب میں موجود ہوتا تھا وہ گزشتہ کئی برسوں سے گھر میں قید ہو چکا تھا کبھی کبھار کوئی دوست ان کو اپنے گاڑی میں لے کر تقریب میں آتا تو اقبال ارشد کا جوبن عروج پر ہوتا ۔جب کبھی مجھے اور رضی کو ادبی بیٹھک میں ان کی طلب ہوتی تو ہم نوازش علی ندیم،تحسین غنی یا کسی اور کی ڈیوٹی لگاتے کہ وہ اقبال ارشد کو تقریب میں لے آ ئیں۔ایک بات ان کی بہت اچھی تھی کہ وہ معذور ہونے کے باوجود ہمت نہیں ہارتے تھے بلکہ ہر تقریب میں ان کی روایتی زندہ دلی عروج پر ہوتی۔اپنے نوجوان بیٹے پھر اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ اگرچہ ٹوٹ پھوٹ گئے تھے لیکن جب کبھی کسی مشاعرے یا کسی اور تقریب میں شریک ہوتے تو رنگ جما دیتے ۔جب کبھی موڈ میں ہوتے تو ملتان کے ہر بندے کا پوسٹ مارٹم کرنے میں انہیں لطف آ تا ۔اس سلسلے کی ایک طویل گفتگو کی آڈیو اور ویڈیو آج میرے پاس محفوظ ہے۔کہ وہ ملتان کی ایک ایسی تاریخ ہے جس کو وہ قلم بند نہ کر سکے۔رضی الدین رضی نے اپنے صحافتی سفر میں ان سے کالم کے ذریعے بہت سی یادیں قلم بند کروائیں اس کو کتابی شکل میں آنا ضروری ہے۔
اقبال ارشد کی شخصیت کی خصوصیات کو اگر ہم لکھنا چاہیں تو اس کے لیے طویل نشستیں درکار ہیں وہ بطورشاعر ،ادیب،دانشور،ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر کے طور پر جانے اور پہچانے گئے لیکن وہ اس کے علاوہ بھی میرے شہر کے ایک ایسے درویش تھے جس نے اپنے آ پ کو ادب کے لیے وقف کر رکھا تھا۔با صلاحیت اتنے تھےکہ انہوں نے ہر موضوع پر شاعری کی لیکن لاپرواہ اتنے کی کوئی چیز محفوظ نہ کر سکے اس کے باوجود اگر ہم ان کے مطبوعہ کلام کو دیکھیں تو لگتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ شاعری انہوں نے لکھ کر رکھ دی اور اس کو محفوظ نہ کیا۔ زکریا یونیورسٹی شعبے اردو میں ان کے کلیات کو مرتب تو کروایا لیکن وہ آ ج تک شائع نہ ہو سکا اسی طرح ان کی مذہبی شاعری کے بھی کئی دیوان سامنے آ سکتے تھے ۔لیکن اس کا بھی بہت کم حصہ ان کی زندگی میں شائع ہو سکا۔بچوں کے لیے انہوں نے بلا شبہ ہزاروں نظمیں کہیں،لیکن ان کا کہیں پر سراغ نہیں ملتا۔ملتان میں عاصی کرنالی،حسین سحر اور اقبال ارشد ایسے شعرا تھے جنہوں نے ملی شاعری باقاعدگی سے کی۔اقبال ارشد کی یہ شاعری فصیل و پرچم کے نام سے شائع ہوئی ۔یقینا ان کی تمام شاعری اور نثر ان کی بیٹی مدیحہ کے پاس محفوظ ہوگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال ارشد رشد کی چیزیں کتابی صورت میں کون شائع کرائے گا یا کون سا ادارہ شائع کرے گا؟
اقبال ارشد نے اپنی پوری زندگی میں کوئی نشہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسی عادت ڈالی جس سے ان کی صحت کو نقصان پہنچے البتہ بیٹے اور اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھے۔کبھی کبھار ان کی یادداشت واپس بھی آ جاتی ، تو وہ پرانی یادیں تازہ کر کے خوش ہوتے ۔اپنے ہمزاد پروفیسر حسین سحر کے جنازے پر ملتان والوں نے ان سے یوں تعزیت کی جیسے وہ میت کے وارث ہیں۔حسین سحر کی پہلی برسی پر وہ بہت دل گرفتہ تھے۔ملتان ٹی ہاؤس میں جب وہ تشریف لائے اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی لیکن جب کچھ ہمت بندھی تو انہوں نے یادوں کے حوالے سے بہت شاندار گفتگو کی۔اس تقریب کے چند ماہ بعد رضی اور میں ان کے گھر گئے باتوں باتوں میں سحر صاحب کا ذکر آیا تو میں نے پوچھ لیا ان سے آخری ملاقات کب ہوئی؟
بے خودی کے عالم میں کہنے لگے وہ اب بڑا آدمی ہو گیا ہے مجھ سے ملنے نہیں آتا ،اچھی بات ہے وہ جہاں رہے خوش رہے۔
پوری زندگی ملتان شہر کو دینے والا اقبال ارشد جب رخصت ہوا تو گھر میں نہ تو بیٹا تھا نہ اہلیہ،البتہ بیٹوں جیسی مدیحہ بیٹی نے جب گھر سے رخصت کیا تو جنازہ اٹھانے کے لیے ملتان کے ہزاروں لوگ گلی میں موجود تھے۔کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے ہم سب قبرستان پیراں غائب پہنچے نماز جنازہ پڑھایا گیا تو پورا شہر ان کا وارث بن کر ایک دوسرے سے تعزیت کر رہا تھا پھر مولوی صاحب نے ان کے” کہنے سننے "کے لیے معافی کی درخواست کی ۔تدفین کے وقت بھی سینکڑوں لوگ موجود تھے قبر پر مٹی ڈالنے والے بھی درجنوں نہیں سینکڑوں دکھائی دے رہے تھے۔ رسم قل میں خوب رش تھا۔اقبال ارشد کو اہل ملتان نے نم آ نکھوں سے الوداع کہا اور پھر شہر میں ان کی یاد میں تعزیتی پروگرام منعقد ہونے لگے۔وقت گزرتے کوئی دیر لگتی ہیں۔365 دن گزرتے ہی پہلی برسی آ گئی تو پھر شہر میں دو تین تقریبات ان کی یاد میں منعقد ہوئی۔دوسری برسی پر ادبی بیٹھک میں 15 سے 20 لوگوں نے ان کو یاد کیا۔اسی طرح تیسری اور چوتھی برسی بھی ملتان آرٹس کونسل میں سخن ور فورم کی ادبی بیٹھک میں منائی گئی ۔اس برس میں نے چار ستمبر کو سوچا کہ ان کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کو یاد کروں گا کہ اس دن ایک دوست کے بیٹے کی اچانک بیماری کی وجہ سے میں پورا دن بج ہسپتال میں رہا۔ اور اقبال ارشد کی پانچویں برسی گزر گئی،رات کو جب تھک ہار کے فیس بک کھولی تو کہیں پر بھی اقبال ارشد کا ذکر نہیں تھا رضی کی وال پر گیا،تو وہاں بھی کچھ نہ تھا البتہ رضوان شہزاد نے اس دن اپنی پرانی پوسٹ کو اپڈیٹ کیا اور یوں انہوں نے اقبال ارشد کو یاد کر کے پورے شہر کا کفارہ ادا کر دیا۔
اقبال ارشد کی پانچویں برسی خاموشی سے گزر گئی اور پھر مجھے یاد آیا کہ 1825 دن کسی کو فراموش کرنے کے لیے زیادہ تو نہیں ہوتے اور ہم نے پھر بھی اقبال ارشد کو 1824دن یاد تو رکھا تھا ۔ایک لکھنے پڑھنے والے ادیب، شاعر کی زندگی کا اس سے زیادہ اور صلہ کیا ہو سکتا ہے کہ اسے ہم چار پانچ سال تک یاد تو رکھتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ