سرائے عالمگیر : پانچ جنوری کو قتل ہونے والی چار سالہ زہرہ کے ریپ اور قتل کا مقدمہ جتنے ڈرامائی انداز میں حل کرنے کا دعوی کیا گیا، بظاہر اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز طریقے سے اس کیس کا اختتام بھی ہو چکا ہے۔گزشتہ روز پولیس حکام نے دعوی کیا تھا کہ وہ مرکزی ملزم کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو پہلے سے ہی ان کی حراست میں تھا۔ تاہم چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر یہ مرکزی ملزم پراسرار حالات میں فرار ہونے کے بعد اتنے ہی پراسرار طریقے سے ہلاک ہو گیا۔
ڈی ایس پی گجرات عامر شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’ملزم کو نامعلوم افراد نے سر میں ایک گولی ماری جس سے وہ ہلاک ہوا ہے اور اس کی تفتیش کی جا رہی ہے۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ روز وسطی پنجاب کے ضلع گجرات کی پولیس نے تصدیق کی تھی کہ چار سالہ بچی زہرہ کے ریپ اور قتل کے واقعے کے 11 روز بعد ڈی این اے میچ ہونے پر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور جمعے کے روز اسے مقامی عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ 34 سالہ ملزم ان پانچ مشتبہ افراد میں سے ایک تھا جنھیں واقعے کی تحقیقات کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
سرائے عالمگیر کے گاؤں کھوہار میں ریپ اور قتل کا یہ واقعہ پانچ جنوری کو پیش آیا تھا جس میں زہرہ جنید نامی چار سالہ بچی کو اغوا و ریپ کے بعد قتل کر کے اس کی لاش کو بوری میں بند کر کے ایک غیر آباد علاقے میں پھینک دیا گیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق سرائے عالمگیر میں کم سن زہرہ کے قتل کے مرکزی ملزم محمد ندیم کو پولیس وقوعہ کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں کی برآمدگی کے لیے کھوہار گاؤں لے کر جا رہی تھی لیکن اسی دوران ملزم فرار ہو گیا جس کے بعد رات گئے اس کی لاش ایک ویران علاقے سے ملی۔پولیس کے بیان کے مطابق 16 جنوری 2025 کی رات گئے ملزم سرائے عالمگیر پولیس حراست سے دھند اور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر کانسٹیبل کو دھکا دیکر گاڑی سے چھلانگ مار کر اترا اور ہتھکڑی سمیت فرار ہو گیا۔اس واقعے کے حوالے سے درج ایف آئی آر کے مطابق ’پولیس نے ملزم کا پیچھا کیا اور اسی دوران ایک مقام پر دو سے تین افراد کے شور، گالی گلوچ اور پھر فائر کی آوازیں سنیں۔‘
ایف آیی آر کےمطابق ’پولیس کے للکارنے پر نامعلوم افراد فرار ہو گئے تاہم اس مقام سے انھیں ایک شخص شدید زخمی حالت میں ملا جس کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا اور اس کی شناخت زہرہ کیس کے ملزم کی حیثیت سے ہوئی۔‘
ملزم پکڑا کیسے گیا تھا؟
اس سے قبل جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پولیس حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’ملزم کی شناخت معلوم کرنے کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ماہرین کو موقع پر بلا کر جائے وقوعہ اور اس کے اردگرد سے ڈی این اے سیمپلز اور دیگر شواہد اکٹھے کیے گئے تھے۔‘پولیس کے مطابق اس دوران 73 مختلف جگہوں سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں سے 24 جگہوں پر انسانی ڈی این اے کے نشانات پائے گئے جس پر ملحقہ گھروں سے پانچ مشکوک افراد کو شامل تفتیش کر کے تحقیقات کی گئیں اور ان میں سے تین مشکوک افراد کے پولی گرافک ٹیسٹ بھی لیے گئے۔پولیس کے مطابق ’پھر ڈی این اے نمونوں کو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور بھجوایا گیا اور ملزم کا ڈی این اے مقتولہ بچی کے نمونے سے میچ کر گیا۔‘لیکن پولیس کو اس مقدمے کے دوران ملزم تک پہنچنے میں صرف ڈی این اے کے نمونوں سے ہی مدد نہیں ملی بلکہ ڈی ایس پی سٹی گجرات عامر شیرازی کے مطابق واردات کے بعد ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی 77 سیکنڈ کی آڈیو نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔پولیس نے بی بی سی کو اس بارے میں ان اہم تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جس سے پولیس وقوعہ کے 11 روز بعد ملزم تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔
77 سیکنڈ کی آڈیو، کنڈی کے کھٹکے کی بھاری آواز اور دکان کا سی سی ٹی وی کیمرہ
پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج میں تین بج کر سات منٹ پر کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہونے والی زہرہ اور 77 سیکنڈز بعد یعنی تین بج کر آٹھ منٹ پر بچی کی چیخ سنائی دی۔زہرہ کہہ رہی تھی ’چاچو۔۔۔ چاچو نہیں جانا۔۔۔ نہیں جاؤں گی‘ اور پھر کنڈے کی آواز ریکارڈنگ میں بھی سنائی دی۔یہ پتا چلانے کے لیے کہ یہ چیخیں کہاں ختم ہوتی ہیں پولیس نے ایک غیر روایتی طریقہ اپناتے ہوئے اسی عمر کے ایک مقامی بچے کو اس مقام سے 77 سیکنڈ تک چلایا جہاں سے زہرہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہوئی تھی۔
ڈی ایس پی گجرات سٹی عامر عباس شیرازی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ بچہ اس کنڈی کی آواز کے سنائی دینے کے وقت پر جس دروازے پر رکا وہ ملزم کا دروازہ تھا۔۔۔‘تاہم یہاں پولیس کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا، اسی گھر کے بالکل سامنے ایک اور گھر بھی موجود ہے، تو یہ کیسے پتا چلایا جائے کہ بچی کس گھر میں گئی۔
یہاں پولیس نے دونوں گھروں کے دروازوں کی کنڈیوں کے کھٹکے کی آوازیں ریکارڈ کیں اور پھر اس کا سی سی ٹی وی میں موجود آواز کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔اس واقعے کی تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی عامر عباس شیرازی نے بتایا کہ ’ملزم کا دروازہ وزنی تھا اور اس کی آواز ریکارڈڈ آڈیو سے مل گئی، دوسرا دروازہ ہلکا تھا اس کی آواز نہیں ملی۔‘
گھر کی نشاندہی ہونے کے بعد پولیس کو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ملزم اس وقت موقع پر موجود تھا بھی یا نہیں۔ یہاں ملزم کا وہ بیان کام آیا جس میں اس نے پولسی کو بتایا تھا کہ وہ وقوعہ کے وقت ایک دکان پر گیا ہوا تھا، تاہم جب اس دکان کے کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا تو ملزم وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ڈی ایس پی عامر شیرازی کے مطابق ‘ملزم اس وقت گھر میں اکیلا تھا، اور اس کے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ سے پتا چلا کہ اس کا موبائل اس دوران استعمال ہی نہیں ہوا۔‘
یہ سب جاننے کے بعد پولیس کو جس غیر آباد جگہ سے لاش ملی تھی، ملزم کے گھر کی دیوار اس سے ملحقہ تھی۔ پولیس کے مطابق ملزم اس بچی کی لاش کو دور نہیں لے جا سکا اور گھیرا تنگ ہونے پر اس نے کسی وقت اس کی لاش بوری میں بند کر کے ایک خالی گھر میں چھت سے نیچے پھینک دی تھی۔ڈی ایس پی عامر شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ ’جس قسم کی بوری سے ہمیں بچی کی لاش ملی، وہ ملزم کے گھر پر بھی موجود تھی۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب اسے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھیجا گیا تاکہ اس کا پولی گرافک ٹیسٹ کروایا جائے، تو وہاں پر اس نے خواتین اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ساری کہانی بتائی۔’اس دوران وہ خواتین اہلکار بھی آبدیدہ ہو گئیں اور یہ شخص بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، جس کے بعد اس کا پولی گرافک ٹیسٹ دوبارہ ہوا۔‘اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی نے زہرہ کی والدہ سے بھی بات کی ہے جو اس وقت شدتِ غم سے نڈھال ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ