تسلسل کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ گو پاکستان کرکٹ میں وطیرہ یہ رہا ہے کہ عموماً ایک ہی اننگز کی بنیاد پر کریئر کی سمت متعین ہو جایا کرتی ہے لیکن بعض اوقات تسلسل کو بھی راہ دے دیا جاتا ہے۔
اور کبھی تو یہ تسلسل اس حد تک برقرار رکھا جاتا ہے کہ طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ کبھی ’پرچی‘ کا لیبل لگایا جاتا ہے تو کبھی سفارش کے طعنے ملتے ہیں۔ اور اس سب کے باوجود بھی اگر کوئی کھلاڑی پرفارم نہ کر پائے تو کہیں انتظامیہ میں موجود چہروں کو بھی ’جھٹکا‘ سا مل جاتا ہے۔
آصف علی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی پیچیدہ سا ہے۔ گو ان کا انٹرنیشنل ڈیبیو انضمام الحق اور مکی آرتھر کے تحت ہوا مگر مصباح اور آصف علی کے باہمی تعلق کی داستان کافی پرانی ہے۔
پی ایس ایل کے اوائل کی بات ہے کہ، وسیم اکرم بتاتے ہیں، مصباح ایک روز ایک لڑکے کو ساتھ لے کر آئے اور بتایا کہ یہ آصف علی ہے، بہت اچھا کھلاڑی ہے اور یہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے ’فنشر‘ کا کردار نبھائے گا۔
آصف علی نے اپنا یہ کردار اس ڈھب سے نبھایا کہ جلد ہی انھیں قومی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کا پروانہ بھی مل گیا۔
شروع میں آصف کی انٹرنیشنل پرفارمنسز ملی جلی رہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی گراف تیزی سے گرنے لگا۔ اس بیچ وہ کچھ ذاتی پریشانیوں میں بھی گِھر گئے اور لامحالہ اس کا اثر ان کی کارکردگی میں بھی جھلکنے لگا۔
یہاں تک کہ پچھلے دو سال میں آصف علی جتنی بار بھی قومی ٹیم کے لیے سلیکٹ ہوئے، ہر بار ان کا نام مصباح کے ساتھ نتھی کر کے کئی ایک فسانے گھڑے گئے۔ لب لباب یہ تھا کہ ان کی کارکردگی اس سلیکشن کا جواز لانے سے قاصر تھی اور ٹیم میں شمولیت صرف ’فیورٹ ازم‘ کی بنیاد پر تھی۔
لیکن ہر کھلاڑی کو اپنے اندر پوشیدہ ’سٹارڈم‘ نکالنے کے لیے کوئی سٹیج چاہیے ہوتا ہے۔ کچھ نہایت ٹیلنٹڈ کھلاڑی پہلے ہی میسر موقع پر اس کا بخوبی اظہار کر دیتے ہیں جبکہ کچھ ’لو پروفائل‘ مقابلوں کی تاک میں رہتے ہیں تو کچھ بڑے سٹیج کی تلاش میں رہتے ہیں۔
پاکستان افغانستان کرکٹ مقابلوں کی اگرچہ کوئی لمبی چوڑی تاریخ تو نہیں مگر پچھلے چند سالوں میں جب جب یہ ٹیمیں آمنے سامنے ہوئیں، کوئی نہ کوئی فسانہ ضرور بنا۔ کوئی وقت تھا کہ افغان کرکٹ پاکستان کے سائے میں پل رہی تھی لیکن سیاسی منظر نامے کی تبدیلیوں کے اثر میں وہاں دھیرے دھیرے انڈیا کا رسوخ بڑھنے لگا۔
یہاں تک کہ پچھلے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان بمقابلہ افغانستان میچ میدان ہی نہیں، میدان سے باہر بھی خاصا ہنگامہ خیز ہو گیا۔ اور یہی تھا وہ سیاق و سباق کہ جس میں گذشتہ روز راشد خان شائقین سے اپیل بھی کرتے نظر آئے کہ اس میچ کو صرف میچ ہی سمجھیں اور کرکٹ کے میدان کو میدانِ کارزار بنانے سے گریز کریں۔
لیکن آصف علی کے لیے یہ بڑا سٹیج تھا، بڑا میچ تھا۔ کیونکہ بڑا کھلاڑی وہ تو نہیں ہوتا جو ایک پرفارمنس کے بعد ہی غائب ہو جائے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف آصف علی نے جس انداز میں میچ کا پانسہ پلٹا تھا، اس نے یہاں بھی امیدیں روشن کر چھوڑی تھیں۔
اگرچہ جیسی بولنگ پاکستان نے پاور پلے میں کر چھوڑی تھی، یہ متوقع ہی نہیں تھا کہ میچ ایسی گھمبیر صورتِ حال تک جا پہنچے گا۔ چھکوں کے شوقین افغان ٹاپ آرڈر پر شاہین آفریدی ذرا مختلف سا چیلنج بن کر اترے اور یہ امید کم ہی تھی کہ افغانستان 130 سے زائد رنز جوڑ پائے گا۔
لیکن ڈیتھ اوورز میں حسن علی کی فارم آڑے آ گئی اور گلبدین و نبی کی پارٹنرشپ نے ایسی یلغار ڈالی کہ رنز کا بہاؤ روکنا دشوار ہو گیا۔
میچ کے بعد بابر اعظم نے بھی اعتراف کیا کہ ان کی بولنگ نے پندرہ بیس رنز زیادہ دے دیے۔ اور اس وکٹ پر افغانستان کے ورلڈ کلاس سپنرز کے سامنے یہ ہدف خاصا مشکل ہو چلا تھا۔ اس کے حصول کے لیے پاکستانی بیٹنگ کو ڈیتھ اوورز میں کچھ خاص پاور ہٹنگ کی ضرورت تھی۔
بابر اعظم نے اپنا کنارہ بخوبی سنبھالے رکھا اور یہ یقینی بنایا کہ پاکستانی لوئر آرڈر کو راشد خان کے امتحان کا سامنا نہ ہی کرنا پڑے۔ لیکن راشد خان اپنا کوٹہ ختم کرنے کے ساتھ ہی بابر اعظم کا کھاتہ بھی تمام کر گئے۔
اور یہیں آصف علی کے لیے ایک بار پھر وہ بڑا سٹیج تیار ہوا جس کے تقاضے شاید وہی نبھا سکتے تھے۔ پچھلے دو سال میں جتنی تنقید انھوں نے سہی ہے، غالباً وہ خود بھی ایسا ہی موقع اور سٹیج چاہتے تھے۔ کمال بات یہ ہے کہ اٹھارہویں اوور کے آخر پر انھوں نے خود ہی شاداب کو سنگل سے روک کر خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا۔
اور جب انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو آزمایا تو ان کی گیم نے بھی ان کا پورا ساتھ دیا۔ سو جہاں یہ گمان تھا کہ میچ پھنس جائے گا اور شاید عین آخری لمحات میں کوئی ڈرامائی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی، وہاں آصف نے کسی بحران کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاجواب انداز میں میچ ’نکال‘ لیا۔
مسلسل دو سال تنقید سہے جانا بہت مشکل کام ہے لیکن ورلڈ کپ جیسے بڑے سٹیج پہ اس تنقید کا بھرپور جواب دینا اس سے بھی کہیں مشکل کام ہے اور آصف علی نے اپنی مہارت اور تجربے سے اس مشکل چیلنج کو بہت سادہ اور آسان کر دکھایا۔
ورلڈ کپ جیسے مقابلوں میں پاکستان جیسی ٹیموں کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا ہیرو چاہیے ہوتا ہے جسے بڑے سٹیج پر اپنی مہارت دکھانے کی بھوک ہو۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اہم مراحل تک جانے سے پہلے ہی اسے اپنا ہیرو مل گیا۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ